نفرت سے نروان تلک ۔۔۔ معاذ بن محمود

خاموشی میں سکون ہے۔ سکوت میں سکون ہے۔ خاص کر تب جب میری خاموشی اور میرے وجود کی حقیقت کئی منفی النسل بھٹکتی روحوں کی بے چینی کا باعث ہو۔ یہ سکون کا پہلا درجہ ہے۔

بدذات بدروحیں جو پرانے درد بھرے زخموں کا کرب دل میں لیے آس پاس منڈلاتی ہیں۔ شور مچاتی ہیں۔ آسیب دکھاتی ہیں۔ مجبور بدروحیں جو ہمہ وقت جھنجھلاتی ہیں کہ ان کا کام سکون کی ہڈیاں چبا کر اپنی خارش زدہ چیخیں دبانا ہوا کرتا ہے۔ اور میرا سکون ہے کہ ان کی خارش کو بڑھاوا دے رہا ہے۔

یہ بدروحیں جن افراد میں سمائی ہیں ان کے اجسام نفرت کی کھجلی سے جگہ جگہ گھائل ہوئے پڑے ہیں۔ ان کی نفرت بھری الٹیاں گلی کوچوں میں بکھری پڑی ہیں۔ یہ بدروحیں جو بھیڑیے کی مانند جتھوں میں حملہ آور ہوتی ہیں، اکثر اپنی خارش اپنا کرب مجھ میں منتقل کرنے کی تاک میں رہا کرتی ہیں تاکہ میں بھی ان کی طرح نفرت و حسد کی آگ میں جلتا ان کی طرح اذیت میں مبتلا ہوجاؤں۔

لیکن میں پرسکون ہوں۔ میں نروان کی کھوج میں لمحہ بہ لمحہ انتہائے تشفی کے قریب تر ہوتا چلا جارہا ہوں۔ ہر گزرتا لمحہ میرے اطمینان اور ان بدروحوں کی بے آرامی کے درمیان خلیج بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ وقت گزرتا ہے۔ موجودہ پل ماضی بن جاتا ہے۔ میرے چہرے پر ایک مسکراہٹ ظاہر ہوتی ہے۔

میں نروان کی تلاش میں سکون کے درجات سے گزرتا ایک نئے درجے پر پہنچتا ہوں۔ یہاں میں بدروحوں کو دی جانے والی اہمیت سے برات کا اظہار کرتا ہوں۔ میں ان سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں۔ یہ ہانپتی کانپتی ناچتی بدروحیں میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ جو معنی رکھتا ہے وہ ہے میرا قلبی سکون۔ میں اسے پاچکا ہوں۔ میں خوش ہوں۔

اور پھر اچانک کرما نمودار ہوتا ہے۔ کرما ایک چٹکی بجاتا ہے اور ان بھٹکتی آتماؤں کو مختلف حیوانات کی صورت میں بدل دیتا ہے۔ ان میں ایک خارش زدہ سگ ہے۔ ایک گردن ہلانے سے معذور انگور کے پانی میں ڈوبا خنزیر ہے۔ ایک طاعون زدہ چوہیا ہے۔ یہ سب کرب میں ہیں۔ کرما ایک اور چٹکی بجاتا ہے اور میرے سکون کو ایک سطح اوپر، نروان سے قریب تر کر دیتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں میرے سامنے کئی بد ہئیت حیوان ایک غول کی شکل میں کھڑے ہیں۔ میں محو حیرت ہوں۔ میرے ذہن میں سوال ہے۔

“میں خاموش ہوں۔ میں پر سکون ہوں۔ پھر تم کیوں حالتِ کرب میں ہو؟”

کوئی میرے ذہن میں جنم لیتے اس سوال سے باخبر ہوجاتا ہے۔ غیب سے اچانک آواز آتی ہے۔

“یہ نفرت کے بیوپاری ہیں۔ کرب کے حق دار ہیں۔ تم سکون کے متلاشی ہو۔ جب تک تم نفرت بیچتے تھے تم بھی انہیں میں سے ایک تھے۔ پھر تم نے نفرت سے جان چھڑائی اور سکون کے متلاشی ہوئے۔ ہم نروان کے راستے چلنے والوں کو درجہ بدرجہ سکون دیا کرتے ہیں۔ اور نفرت کی آگ میں جھلستی بدروحوں کو جنم جنم کرب کا استعارہ بنا دیا کرتے ہیں۔ یہی ان کی سزا ہے۔ اور یہ اسی سب کے حق دار ہیں۔ یہ ایسے ہی رہیں گے۔ خارش زدہ سگ، نشے میں ڈوبے خنزیر اور طاعون زدہ چوہیا کے روپ میں۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نروان کے راستے پر گامزن ہو نکلتا ہوں۔ مجھے عجیب مگر مثبت سا احساس ہوتا ہے۔ ان نفرت زدہ حیوانات کی خارش، نشے اور طاعون کو دیکھ کر خوشی کا احساس۔ یہ اوپر والے کی سزا ہے جو انہیں مل رہی ہے، ملتی رہے گی۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply