گمشدہ افراد ،دوسرا رُخ۔۔۔۔احمد عمیر اختر

میں نے مشرف دور میں پنجاب اور کے پی کے سے لاپتہ افراد کی بے شمار فیملیز دیکھیں اور ان سے کافی ملاقات بھی رہی. جنرل مشرف کے دور میں جب اس مسئلے نے شدت سے سر اٹھایا تو میں راولپنڈی میں ہی زیر تعلیم تھا. ان دنوں آمنہ مسعود جنجوعہ صاحبہ اپنے گمشدہ شوہر کی بازیابی کے لئے بھرپور تحریک چلا رہی تھیں جن میں انہیں دوسری بہت سی فیملیز کی معاونت بھی حاصل تھی. یہ وہی فیملیز تھیں جن کے جوان مختلف الزامات کی بنیاد پر ایجنسیوں کی تحویل میں تھے. ان فیملیز کا مطالبہ یہ تھا کہ ان کے پیاروں پر مقدمہ چلایا جائے, ان کا ٹرائل ہو اور اگر وہ مجرم ہیں تو بے شک سخت سزا دی جائے لیکن انہیں اس طریقے سے حبس بے جا میں نہ رکھا جائے, انہیں اپنے پیاروں سے ملاقات کی اجازت دی جائے اور بتایا جائے کہ انہیں ملک کے کس حصے میں قید کیا گیا ہے یا وہ زندہ بھی ہیں کہ مار دئیے گئے. ان مطالبات میں دم تھا کیونکہ یہ ملزم اور اس کے گھر والوں کا بنیادی حق ہے. ان مطالبات کو لے کر ہم کہاں کہاں گئے اور کیا کیا دیکھنے کو ملا یہ ایک الگ داستان ہے.

میں ان دنوں مستقل طور پر راولپنڈی میں مقیم تھا اور میرے ایک قریبی رشتہ دار بھی ایجنسیوں کی تحویل میں تھے اس لئے مجھے آمنہ مسعود جنجوعہ صاحبہ کی بیشتر ریلیوں اور احتجاجی کیمپوں میں شرکت کرنے کا موقع ملا. 20, 22 سال کی عمر تھی لہذا خوب نعرے لگائے, لاٹھی چارج دیکھا, اور ایک دو بار آنسو گیس بھی برداشت کی. اس سب کے باوجود میں حلفا” یہ بات کہتا ہوں میں آج تک ایک بھی ایسی فیملی سے نہیں ملا جن کا لا پتہ فرد کسی نہ کسی طرح, ڈائریکٹ یا ان ڈائرکٹ طالبان اور القاعدہ کے ساتھ تعلق دار نہ ہو. میں کسی ایسے لا پتہ فرد کو نہیں جانتا جس نے ریاست اور فوج کے خلاف جا کر القاعدہ یا اس کی کسی ذیلی تنظیم کے لئے کام نہ کیا ہو. میں تو یہی جانتا ہوں کہ ایجنسیوں نے جس شخص پر بھی ہاتھ ڈالا مکمل ثبوت اور اطمینان کر لینے کے بعد ڈالا. اور جو افراد نسبتا کم یا صرف پاکستان کی حد تک ان معاملات میں شریک تھے انہیں سال, دو سال بعد چھوڑ دیا گیا. لیکن جن افراد کی انوالومنٹ زیادہ یا افغانستان آنے جانے کی حد تک تھی انہیں لمبے عرصے تک نظر بند رکھا گیا یا شاید مکمل طور پر غائب کر دیا گیا. بہرحال میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو بے گناہ بھی ہو اور لمبے عرصے کے لئے غائب کیا گیا ہو. صرف اسی شخص کو پکڑا گیا جو جہاد کی خود ساختہ تعریف کے ساتھ دہشتگردوں کے لئے کسی بھی درجے میں کام کر رہا تھا. یہ الگ بات ہے کہ ان پر مقدمہ چلایا گیا یا نہیں, ٹرائل ہوا یا نہیں اور سزا کسی عدالت نے دی یا کسی فوجی افسر نے لیکن زد میں آنے والے لوگ بے قصور نہیں تھے.

اب آج کے دور میں آئیے.

میں منظور پشتین, اس کی تحریک یا اغراض و مقاصد کو زیادہ قریب سے نہیں جانتا لیکن پہلی بار یہ نظروں میں اس وقت کھٹکا جب اس کی پشت پر محمود اچکزئی جیسے شخص کو دیکھا. یہ وہی محمود اچکزئی ہے جس کا نام جنرل حمید گل نے ملک دشمن افراد کی لسٹ میں اس وقت شامل کیا تھا جب وہ ڈی جی آئی ایس آئی تھے. اس لسٹ میں دوسرا اہم نام ولی خان کا بھی تھا. ان افراد پر افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کے لئے کام کرنے اور پاکستان میں بدامنی پھیلانے کا الزام تھا. اس کے بعد منظور پشتین کی تحریک سے دوسری بار مایوسی آج اس وقت ہوئی جب سوات جلسے میں پاکستان کا جھنڈا اٹھائے نوجوان کو جلسہ گاہ سے باہر نکال دیا گیا.

اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ قبائلی عوام بھی اتنے ہی معزز اور محب وطن پاکستانی ہیں جتنا لاہور, کراچی یا اسلام آباد کے بنگلے میں بیٹھا سفید کپڑوں میں ملبوس شخص. ان کی عزت نفس اور حفاظت اتنی ہی محترم ہے جتنی آپ کی اور میری. بالکل اسی طرح لاپتہ کئے گئے افراد (جو کہ میری نظر میں زیادہ تر معصوم اور بے گناہ نہیں ہوتے) پر مقدمہ چلانا اور انہیں عدالتوں میں پیش کرنا بھی بہت ضروری ہے. ہم ان مطالبات کی حمائت کرتے ہیں چاہے وہ منظور پشتین ہو یا کوئی بھی اور پاکستانی, لیکن ان مطالبات کی آڑ میں ملک دشمنی پر اتر آنا, آزادی کے نعرے لگانا اور اپنی ہی فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا.

Advertisements
julia rana solicitors london

کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ جب عدلیہ کے خلاف بولنے سے کسی کی پاکستانیت خطرے میں نہیں پڑتی تو فوج کے ادارے کے خلاف کچھ کہنے یا لکھنے سے پاکستانیت پر شک کیونکر کیا جا سکتا ہے. تو اس کا انتہائی سادہ جواب یہ ہے کہ فوج کے علاوہ کوئی بھی دوسرا ادارہ ملکی سلامتی کا ضامن نہیں. پاکستان جیسی مضبوط فوج کو کبھی کمزور نہیں کیا جا سکتا سوائے اس امر کے کہ عوام کے دل میں فوج کے خلاف نفرت کا بیج بو دیا جائے. . ہم میں سے لگ بھگ ہر پاکستانی اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پشتونوں کی قربانیاں سب سے زیادہ ہیں, انہیں بہت سے ایسے مسائل کا سامنا ہے جن کا ہم تصور بھی نہیں کرتے. ہم ہر جائز مطالبے اور تحریک میں آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان مطالبات کی آڑ میں اگر کوئی گروہ ملک دشمنی کا کھیل رچائے گا یا کسی شر پسند کی ماں کی نم آنکھیں دکھا کر فوج کو گالی دے گا تو وہ ہمیں اپنا سب سے بڑا مخالف اور دشمن پائے گا کیونکہ وطن عزیز پر قربان ہو جانے والے جوان کی ماں کا آنسو اس کے خلاف لڑنے والے انسان کی ماں کے آنسو سے بہت زیادہ قیمتی ہے.

Facebook Comments

احمد عمیر اختر
مکالمہ کو دنیا کے تمام مسائل کا حل اور گولی, گالی کو مسائل کی جڑ سمجھتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply