• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • چییف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے نام ایک کھلا خط/محمد وقاص رشید

چییف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے نام ایک کھلا خط/محمد وقاص رشید

جنابِ والا ! کہیں پڑھا تھا خدا اگر پورے قرآن کی جگہ ایک لفظ نازل فرما دیتا تو انسانیت کے لیے دینِ اسلام کا پیغام پہنچ جاتا اور وہ لفظ ہے “اعدلو” (عدل کرو)۔

اس رو سے آپ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ آپکی رگوں میں انکا خون دوڑ رہا ہے جو اسلام یعنی “اعدلو” کے لیے یہ ملک بنانے والوں میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والوں میں سے تھے۔

مگر یہ بھی آپ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ یہاں “اعدلو” کا عالم کیا ہے۔ یا شاید آپ سے زیادہ اگر کوئی جانتا ہے تو وہ آپکے ساتھ حلف برداری میں “علامتی ” طور پر کھڑی آپکی اہلیہ محترمہ تھیں۔ یہ علامت بہت بھلی تھی۔ چیف جسٹس آف پاکستان بننے کی مبارکباد۔

عالی جاہ !مجھے یقین ہے کہ 14 مہینے کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قاضی القضاۃ بنتے ہوئے آپ کے دل میں احساس ہو گا کہ اگر ایک بار “اعدلو” پر عمل کر کے آپکو خاندان سمیت اسکی “قیمت” چکانی پڑی تو اس ملک میں انکا عالم کیا ہو گا جو جنابِ اقبال کے شعر کے مصداق اس مٹی کو زرخیز بنانے کے لیے ذرا سا نم اپنے خون پسینے سے پیش کرنے پر مجبور ہیں مگر انکی نسلوں کی زندگی بنجر ہے۔

یہاں غریب سائلین عدل و انصاف کا روزہ رکھتے ہیں جبکہ نظامِ انصاف کا پیٹ خدا سمجھے جانے والے کرنسی نوٹوں سے بھرا جاتا ہے۔

یورآنر ! راقم الحروف کی زندگی کا وہ عہد شروع ہو چکا جب پاؤں آگے چلتے ہیں مگر آنکھیں پیچھے دیکھتی ہیں۔ جڑانوالہ میں آپکی ویڈیو دیکھی تھی تو ذہن جڑ تلک جا پہنچا تھا۔

2017 میں مسلم لیگ نون کے عہد کا اختتام تھا جس میں فیض آباد دھرنا دیا گیا۔ جہلم میں مدرسے کے طلبا کو شام کے وقت روٹی مانگنے کے لیے بھیجنے کا اقرار کرنے والے ایک آنجہانی ملاں صاحب سٹیج پر مسلمانوں کی غیرت جگایا کرتے تھے۔ سلمان تاثیر مرحوم کے قتل سے شروع ہوئی یہ جماعت پاکستان میں “اعدلو” کے دین کو تخت پر لانے کا دعویٰ کر رہی تھی۔ ختمِ نبوت ص کی نام نہاد پہرہ داری میں جو زہر دلوں میں بھرا گیا اسے آپ نے بطورِ منصف ایک سوموٹو ایکشن کے ذریعے روکنے کی کوشش کی اور اس وقت کی مقتدرہ کے ہاتھوں میں  اس دھرنے کی ڈوریاں ہلتی ہوئی دیکھیں تو فیصلہ صادر کیا۔

اسکے بعد ملک میں انصاف کی تحریک کی حکومت آ چکی تھی  اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انصاف کی تحریک والے آپکے چیف جسٹس کا  رستہ روکنے کا آلہِ کار بنے۔ آپکے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس آیا۔ جس میں آپکی اہلیہ محترمہ نے تاریخی کردار ادا کرتے ہوئے کیس جیت لیا اور سپریم جوڈیشل کونسل نے اس ریفرنس کو بد نیتی پر مبنی قرار دیا۔ بعد میں اس ریفرنس کو اس وقت کے وزیراعظم نے مقتدرہ یعنی اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا قرار دیا۔

کل جاوید چوہدری صاحب نے اپنے ایک وی لاگ میں یہ کہا کہ 2019 میں انہیں جنرل باجوہ نے یہ حلفاً بتایا کہ آپکے خلاف ریفرنس میں انکا کوئی ہاتھ نہیں اور نہ ہی اس وقت کے وزیراعظم عمران خان صاحب اسکے حق میں تھے بلکہ یہ تو سپریم کورٹ کے چار ججز نے اس وقت کے وزیرِ قانون فروغ نسیم کو باقاعدہ پاس بلا کر دائر کروایا۔

یورآنر آپ اندازہ لگائیے کہ کسطرح آپکے چیف جسٹس بنتے ہی ایک نیا پینڈورا باکس کھول دیا گیا ہے۔ طالبعلم کی سمجھ سے تو یہ بات بالاتر ہے کہ آرمی چیف ، وزیراعظم ، صدر اور وزیر قانون سبھی اس ریفرنس کے خلاف تھے لیکن سپریم کورٹ کے چار سینئیر ججز نے یہ دائر کروایا اور پھر سپریم کورٹ ہی نے اسے حکومتی بدنیتی قرار دیا

“کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی “۔ جاوید چوہدری صاحب نے اچھا کیا جو قبلہ بڑے حکیم صاحب بننے کا فیصلہ کر لیا ۔

قصہ مختصر یہ کہ اس وقت کے آرمی چیف فرانس کی سڑکوں پر “میں وہ نہیں ہوں بھائی ” کے ساتھ پولیس بلانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ عمران خان صاحب جیل میں ہیں۔ نواز شریف صاحب واپس آنے والے ہیں اور جس جماعت کے دھرنے پر آپ نے فیصلہ دیا تھا اسکا بھرا ہوا زیر آ پ سے پہلے جڑانوالہ تک پہنچ چکا ہے اور آپ چیف جسٹس آف پاکستان بن چکے ہیں۔

پاکستان میں حکومت سازی میں “اسلامی ٹچ ” کو محض جھانسہ سمجھتا ہوں اس لیے اسے انسانوں کا بُنا ہوا دائرے کا سفر قرار دیتا ہوں۔

یورآنر ! انصاف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ناصرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ اسکی طرف پہلے قدم کے طور پر کل سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں سے متعلق فل کورٹ کی سماعت پی ٹی وی پر دکھائی گئی۔ اچھا ہے کہ اس سے شفافیت کے ساتھ ساتھ علمیت میں اضافہ ہو گا۔ لاعلمی میں رہ کر جلنے کڑھنے اور احساسِ محرومی کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ عوام کو علم ہو۔ ہائی کورٹس میں مفادِ عامہ کے کیسز کی کاروائیاں بھی براہِ راست دکھانی چاہئیں۔

عالی مقام ! ایک مگر مشکل ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اونچے عہدوں پر بیٹھے ہوؤں کے اپنی ذات کے حصار میں قید ہونے  اور ذاتی تشہیر کے نشے میں مبتلا ہونے کے مناظر کئی بار دیکھ چکے۔ اسی کرسی پر ہم نے سموسوں کی قیمتوں سے ڈیم کی رکھوالی تک کی بڑھکیں سنیں جو کبھی کسی فرزند کے کاروبار تک جا کر ختم ہوئیں تو کبھی آخری دن اپنے لیے بلٹ پروف گاڑی پر منتج۔

جنابِ والا ! آپ سے گزارش ہے کہ عدل و انصاف کی حسرتوں کی ڈسی ہوئی قوم کو بے شک گھنٹوں پر محیط ریمارکس اور وکلاء کے دلائل نہ سنوائیں ، بے شک جڑانوالہ جا کر پولیس آفیسر کو ڈانٹ مت پلائیں بے شک اپنی واک کے دوران کسی دھرنا شرکاء سے آپکی گفتگو کی ویڈیو جاری کرنے والے کو روک دیجیے مگر ایک کام اگر آپ کر سکیں تو یہ بہت بڑا احسان ہو گا اس قوم پر اور وہ یہ کہ جب آپ ریٹائر ہوں تو اس ملک کا عدالتی نظام 130ویں نمبر پر نہ ہو۔

یور آنر ! آپ جن دنوں اپنے قاضی القضاۃ بننے کے راستے سے کانٹے اور پتھر چن رہے تھے ان دنوں سوچتے تو ہونگے کہ منزل پہ اگر پہنچے تو کیا کریں گے۔ یہی میرا سوال ہے کہ کیا کریں گے۔ آپکی عدالت کے باہر ایک ترازو رکھا ہوا ہے اس ترازو کا پکڑہ ہمیشہ یہاں زمین کے خداؤں کے حق میں جھکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ اگلے سال ان دنوں الوداع کہہ رہے ہونگے تو یہ پلڑا انہی کی طرف جھکے گا یا دوسری طرف جہاں ان منتظر مظلوموں کی تیسری نسل کھڑی ہے جنہوں نے آپکے والد مرحوم جیسوں کے وعدے پر یقین کیا تھا کہ پاکستان چلو وہاں “اعدلو ” کا نظام ہو گا ؟ یہی تھا ناں پاکستان کا مطلب ؟

عدل و انصاف کا متمنی

Advertisements
julia rana solicitors

” ایک عام پاکستانی”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply