چلو چلو نیپال چلو/سجاد حسین چنگیزی

نیپال کی قومی کرکٹ ٹیم پچھلے دنوں ایشیا کپ کھیلنے کے لیے پاکستان آئی ہوئی تھی لیکن کتنے لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان اورانڈیا کی کرکٹ ٹیموں کا میچ چل رہا ہو تو نیپال کے اکثر شائقین انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کے لیے جیت کی تمنا رکھتے ہیں، حالانکہ دس سال پہلے تک نیپال دنیا کے نقشے پر واحد “ہندو ریاست” کے طور پر موجود تھی۔ یہ اور اس طرح کی مزید خوشگوار حیرانیاں نیپال کی یاترا میں ہماری منتظر تھیں۔

قصہ یوں ہے کہ ہم بلوچستان سے بلوچستان رورل ڈویلپمنٹ اینڈ کمیونٹی امپاورمنٹ المختصر بریس پروگرام کے ایک وفد کی صورت میں نیپال کی یاترا پر نکل پڑے۔ مقصد یہ تھا کہ نیپال میں اختیارات کی نچلی حکومتی سطح پر منتقلی اور خواتین کی بااختیاری سے متعلق سیکھ سکیں۔ سب سے پہلا سبق اس سفر میں یہ سیکھا کہ پاکستان اور نیپال کے بیچ ہوائی جہاز کا جو مختصر سفر ڈھائی سے تین گھنٹے کا ہو سکتا تھا، صرف اکھنڈ بھارت اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بیچ میں سفارتی تعلقات سرد ہونے کی وجہ سے گھوم پھر کر تھکا دینے والے دس گھنٹوں کا سفر بن جاتا ہے۔ دراصل پاکستان اور بھارت ایک دوسری کی مسافر بردار جہازوں کو بھی اپنی فضائی حدود استعمال نہیں کرنے دیتیں جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ پاکستان سے نیپال جانے کے لیے پہلے آپ کو مغرب کی طرف دوبئی یا مسقط جانا ہوتا ہے، پھر کسی تیسرے ملک کے جہازمیں بیٹھ کر پہلے پاکستان اور پھر انڈیا کے اوپر سے اڑ کر نیپال پہنچنا ہوتا ہے، کئی گھنٹوں کے اضافی ہوائی سفر، دوبئی یا دوحہ میں کئی گھنٹوں کے اضافی انتظار کے علاوہ آپ کی جیب کو بھی کئی لاکھ روپوں کا نقصان پڑ جاتا ہے۔ اس صورتحا ل سے نہ پاکستانیوں کو فائدہ ہے نہ بھارتیوں کو اور نہ ہی نیپالیوں کو، البتہ مسقط اور دبئی کی ہوائی کمپنیوں کا خوب فائدہ ہے سو انھوں نے بٹورے ہمارے کئی کئی سو ڈالر!

بلوچستان رورل ڈویلپمنٹ اینڈ کمیونٹی امپاورمنٹ پروگرام کے ایک وفد کی صورت میں ہم نیپال کی مقامی حکومتوں سے ملنے گئے، (دولی خیل میونسپلٹی، نیپال)

خیر اللہ اللہ کرکے ہم نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو پہنچے۔ ہمارے میزبان ادارے نے ہماری خوب آو بھگت کی جس کے ہم عادی نہ تھے۔ اندازہ ہوا کہ نیپال کو غیر ملکی سیاحوں کی میزبانی کا خاصہ تجربہ ہے۔ ۔ اگلے دن ہم نیپال کے سابقہ چیف سیکرٹری سے ملے جس نے بتایا کہ سیاحت نیپال کی کُل قومی آمدنی کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔
انھوں نے بتایا کہ کیسے نیپالی عوام نے بادشاہت سے جان چھڑا کر وفاقی طرزِجمہوریت کا انتخاب کر لیا ہے، ساتھ ہی انھوں نے ریاست کو ہندو کے بجائے آئینی طور پر سیکولر قراردیا ہے۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ

جہاں مملکت خداداد سمیت جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، وہیں نیپال نے اپنے آئین کو سیکولر بنا کر انھیں برابر کا شہری بنا دیا ہے۔

نظام سیاست اور آئین میں یہ تبدیلی جہاں نیپال میں نوجوان طبقے کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے وہیں کھٹمنڈو کی غلام گردشوں کے عادی افسرشاہی کو انتہائی ناگوار بھی ہے جنھیں اب دارالحکومت کے بجائے دور دراز کے 753 میونسپلٹی گورنمنٹ میں سے کسی میں اپنے فرائض کی ادائیگی کرنی ہے۔ یہ سن کر مجھے بھی یاد آیا کہ کس طرح صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے سرکاری ہسپتالوں میں دو سے تین ڈاکٹرز کی پوسٹ پر دس پندہ ڈاکٹرز تعینات ہیں جبکہ قلات ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں بے چارے مریضوں کو ایک بھی ڈاکٹر نہیں ملتا!

ڈاکٹر شوم لال شبیدی، درمیان میں، نیپال کے سابقہ چیف سیکریٹری ہیں جبکہ ردرا سنگھ تامنگ نیپالی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ ہیں۔
Figure 3: نیپال نے مقامی لوگوں کی تنظیمات کو جنگلات کے تحفظ اور انتظام میں شامل کرکے اپنے جنگلات کو قریبا دو گنا کر دیا ہے

نیپال میں گورننس کی سب سے بڑی کامیابی جنگلات و شاملات کا تحفظ اوربڑھوتری ہے۔ یہ جنگلات 2.3ملین ہیکٹر پر مشتمل ہیں جو نیپال کے کل رقبے کا قریبا ً ایک تہائی ہے۔ ناسا کے مطابق 1992میں کمیونٹی فاریسٹ نیپال کے کُل رقبے کا صرف 26% رہ گیا تھا مگر 1992 میں پالیسی ترامیم کے ذریعے نیپالی حکومت نے قریبی جنگلات کا انتظام مقامی آبادیوں کے حوالے کیا اور جنگلات کی حفاظت کے لیے انھیں معاشی اور انتظامی فوائد کی ترغیب دی۔ ناسا کی سروے کے مطابق اب یہ 45% تک بڑھ چکا ہے۔ مقامی کمیونٹی کو حکومت میں شامل کرنے کا ایسا نظام تشکیل دیا گیا ہے کہ مقامی آبادی کی فاریسٹ مینجمنٹ کمیٹی درختوں کے غیر قانونی کٹاو کو روکتی ہے اور بدلے میں حکومت انھیں سالانہ ٹمبر اور ریونیو میں حصہ دیتی ہے۔ یہ کامیابی اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ ہے اور دنیا بھر سے پبلک پالیسی کے ماہرین اس کیس سٹدی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس طرح کے کامیاب پروگرام گلگت بلتستان کے علاقوں میں مارخور کی ٹرافی ہنٹنگ کے سلسلے میں دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے تحت مقامی آبادی کی تنظیمیں غیرقانونی شکار کو روکتی ہیں اور صرف شناخت شدہ عمر رسیدہ مارخوروں کے شکار پر مہنگے لائسنس فروخت کیے جاتے ہیں

جس سے ہونے والی آمدنی کا بیشتر حصہ مقامی آبادی کے فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ضرورت ہے کہ مقامی آبادیوں کی شمولیت پر مبنی یہ نظام سیاحت سمیت دیگر شعبوں میں بھی باقاعدہ لاگو کیا جائے۔

نیپال کی فاریسٹ کنزرویشن کی کامیابی کی ایک وجہ نیپال کے نوجوانوں کا بیرون ملک جاکر کام کرنے کا رجحان بھی ہے۔ ہم پوکھرا کے قریب روپالی میونسپلٹی کے جس پہاڑی گاؤں میں فاریسٹ مینجمنٹ کمیٹی سے ملنے گئے، وہاں پہاڑی کی بالکل چوٹی کے قریب بینک کی ایک ذیلی شاخ تو تھی لیکن ایک بھی نوجوان مرد نہیں تھا اور نوجوان سب خلیجی اور یورپی ملکوں میں جا کر کما رہے ہیں تو اب جنگلات کو کاٹ کاٹ کر کھیت بنانے والے بازو بھی نہیں رہے ہیں بلکہ اب غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد سے دیہی خاندان بھی معاشی طور پر مستحکم ہو گئے ہیں اور ایندھن کے لیے جنگلات کاٹنے کے بجائے ایل پی جی کا استعمال کر رہے ہیں۔

غیر ملکی زرمبادلہ اب نیپالی جی ڈی پی کا سب سے بڑا حصہ بن چکا ہے اور دوسرے نمبر پر سیاحت ہے۔ اب ان دونوں شعبوں میں جو قدر مشترک ہے وہ ہے نیپال سے باہر دیگر اقوام اور اپنے سے مختلف افراد سے میل جول۔ نیپالی معیشت کے علاوہ نیپالی سماج پر اس کے بڑے مثبت نتائج آئے ہیں۔ سب سے بڑی خوبی اپنے سے مختلف مذہب اور مختلف ثقافت کے لیے برداشت ہے۔ ایک ہی بس اسٹینڈ پر ہم نے خواتین کو بیک وقت ساڑھی، جینز، شلوار قمیص، دفتری پینٹ اور اسکرٹ پہنے دیکھا اور مزے کی بات یہ کہ کسی نے انھیں گھور کر نہیں دیکھا، گویا یہ بہت ہی عام اور معمول کی بات ہے۔ پاکستان کی نسبت نیپال کی خواتین بااختیار ہیں، بہت ساری دکانوں میں خواتین ہی دکانداری کرتی ہیں، کھٹمنڈو اور پوکھرا میں ہر جگہ ہمیں خواتین ڈرائیورز اور اسکوٹی رائیڈرز ملیں۔ نیپالی ٹریفک کی سب سے انوکھی بات یہ لگی کہ پورے ایک ہفتے کے دوران ہمیں ایک بھی مرد یا خاتون موٹر سائیکلسٹ ہیلمٹ کے بغیر نہیں نظر آئیں۔ خواتین کی آزادی کا براہ راست تعلق ان کی شرح خاندگی اور ملازمت میں ان کی موجودگی سے ہے جو کہ نیپال میں ہمیں نظر آیا۔ اسی بات کا دوسرا سرا فیملی پلاننگ  سے جا کر ملتا ہے یعنی پڑھی لکھی اور با اختیار خواتین سوچ سمجھ کر اپنی فیملی کے سائز کا محتاط فیصلہ کرتی ہیں اس کا معاشرتی پہلو یہ ہے کہ پاکستان جس طرح بے قابو بڑھتی پاپولیشن سے دوچار ہے، نیپال میں آبادی کی شرح منفی میں ہے یعنی آئندہ برسوں میں نیپال کی آبادی کے بڑھنے کے بجائے کم ہونے کے امکانات ہیں۔

Figure 4 : نیپال کے خواتین کافی بااختیار ہیں اور ان کی تنظیمیں حکومت کے ساتھ مل کر انتظامی امور میں شریک ہوتی ہیں۔

واپسی پر کسی دوست نے پوچھا کہ نیپال کیسا ملک ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ایک نارمل ملک ہے جہاں غربت
ہے، ہماری طرح مہنگائی اور ڈالر کے مقابلے میں نیپالی کرنسی کی گرواٹ نے ان کی بھی کمر توڑی ہوئی ہے،

شمال میں چین اور ہمالیہ اور جنوب میں انڈیا کے بیچ میں سینڈوچ ہونے کی وجہ سے تمام تر معیشت کا دارومدار انڈیا پر ہے جس کا انڈیا خوب فائدہ اٹھاتا ہے۔ سڑک اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے بھی نیپال کافی زیادہ مشکلات کا شکار ہے کہ کھٹمنڈو اور پوکھرا کے درمیاں چار گھنٹے کا زمینی سفر دس گھنٹوں میں طے کرنا پڑا، لیکن ان سب کے باوجود نیپال میں بم دھماکے روز کا معمول نہیں، مذہبی اقلیتیں پرامن زندگی گزار رہی ہیں، حکومت سے نوجوان شاکی تو نظر آئیں گے لیکن فرد کی سطح پر قانون کا احترام ہے جو کہ کھٹمنڈو کی سڑکوں پر ٹریفک ریگولیشن سے واضح ہے، اسی طرح نیپال اپنی خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم اور روزگار کے مواقع دلانے میں کافی حد تک پیشرفت کر چکا ہے۔
نیپال ان ممالک میں سے ایک ہے جو کہ پاکستانیوں کو ویزا آن ارا ئیول (Visa on Arrival) کی سہولت دیتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ عوام کی سطح پر پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے کافی محبت بھی پائی جاتی ہے۔ اس کا کریڈٹ ہماری گزشتہ ادوار کی سفارتی کوششوں کے علاوہ بڑی حد تک انڈیا کو جاتا ہے جو کہ خطہ میں بڑے بھائی کے کردار پربضد ہے اور جس پر مکمل انحصار کی وجہ سے نیپال جیسے ملک جذباتی طور پر زچ ہوتے ہیں۔ مجھے اب اندازہ ہونے لگا کہ افغان شہری تمام تر معاملات میں پاکستان پر انحصار کے باوجود کیوں پاکستان سے اکثر شاکی نظر آتے ہیں!

Advertisements
julia rana solicitors london

گزشتہ دہائیوں میں پاکستان نے نیپال کے ساتھ اچھے سفارتی اور عوامی تعلقات استوا رکھے تھے۔ نیپال کے بادشاہ بنفس نفیس ہمارے استاد غلام علی خان کے فین تھےاور نیپالی اشرافیہ کے بچے اور دیگر طلبا و طالبات بڑی تعداد میں لاہور اور کراچی کی یونیورسٹیوں سے گریجویٹ ہوئے جو آج اہم سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ پی آئی اے کی بھی نیپال تھ ڈائریکٹ فلائٹس ہوا کرتی تھی۔ اس دورے کے اختتام پر میں سوچ رہا ہوں کہ جہاں ہمیں نیپال سے مندرجہ بالا باتیں سیکھنے کی ضرورت ہے وہاں اس بات کی بھی ضرورت ہے ہم اپنی  مہارت انہیں پیش کریں اور دوبارہ سے عوامی سطح پر تعاون کو بڑھایا جائے۔ اور نہیں تو تجربہ کار ریٹائرڈ کرکٹ سٹارز کو اس کام پر مامور کیا جائے کہ نیپال کی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کرکے انھیں عالمی معیار پر مقابلے کے لیے تیار کرلیں۔ شروعات یہیں سے سہی!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply