کینیڈا، انڈیا چپقلش اور ہماری تالیاں /محمد ہاشم

آج کی سب سے بڑی بین الاقوامی خبر انڈیا اور کینیڈا کے درمیان ہونے والی کشیدگی، الزامات اور سفارتی سطح پر پیدا ہونے والی ٹینشن کے بارے میں ہے۔

خبر کچھ یوں ہے کہ 18 جون کو برٹش کولمبیا (کینیڈا) کے ایک گردوارہ کی پارکنگ میں انڈین نژاد کینیڈین شہری اور “Sikhs for justice” نامی سکھوں کی علیحدگی پسند تحریک کے سرکردہ رہنماء ہردیپ سنگھ نجار کو دو نامعلوم نقاب پوش گولیاں مار کے قتل کر دیتے ہیں۔ اس قتل کی تحقیق میں کینیڈین ایجنسی دو ماہ سے زائد کا عرصہ لگاتی ہے اور سراغ یہ نکل آتا ہے کہ ہردیپ سنگھ کے قتل میں دراصل انڈیا کی سرکاری ایجنسی اور کینیڈا میں انڈین سفارتخانہ ملوث ہے۔

اس خبر کی سرخیاں تب بنتی ہیں جب کینیڈا کے صدر جسٹن ٹروڈو پارلیمنٹ میں سیدھا انڈیا اور انڈین گورنمنٹ ایجنسیوں کو ہردیپ کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور غم و غصّے کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ کینیڈا کی سالمیت پر حملہ ہےاور جوابی کارروائی کے طور پر انڈین سفارتخانہ کے ایک اہلکار کو بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کینیڈا سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔

انڈین گورنمنٹ بھی اپنے جواب میں کینیڈا کے الزامات مسترد کرتی ہے اور جوابی الزام لگاتی ہے کینیڈا سکھ علیحدگی پسندوں کو پناہ اور سپورٹ دے رہا ہے خاص کر خالصتانیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اس وقت دو طرفہ اور عالمی میڈیا اس خبر کو لے کر طرح طرح کے تبصرے کر رہا ہے۔

جی 20 سمٹ کے بعد دو بڑے ملکوں کے مابین ایسی کشیدگی اور سیدھے الزامات بلاشبہ ایک بہت بڑی خبر ہے اور انڈیا کی اپوزیشن اور سکھ کمیونٹی مودی کی پالیسیوں کو آڑھے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ ایسے میں یہ الزامات جس طرح انڈیا کو بین الاقوامی سفارتی معاملات میں مشکل میں ڈال سکتے ہیں، اسی طرح اگلے سال انڈیا میں ہونے والے عام انتخابات میں مودی اور بی جی پی کے سکھ ووٹ بینک کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

اس سب کے بیچ ہمارے وطن عزیز کے چند دانشور اس خوشی میں اچھل رہے ہیں کہ انڈیا کو سفارتی ہزیمت کا سامنا ہوا اور جی 20 سمٹ کی خوشیاں ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ کینیڈا نے انڈیا کو بیچ چوراہے ننگا کر دیا۔

اور “محب وطن” پاکستانی ایسے خوشیاں منا رہے ہیں کہ جیسے بس انڈیا کو اب کینیڈا کے غصے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

میرے عزیز ہم وطنو، دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔ دور جدید میں معاملات اور تعلقات کی بنیاد معاشیات پر رکھی گئی ہے۔ آپ کی معیشت مضبوط ہے تو آپ کے سو خون معاف ہیں۔ جمال خشوگجی کے قتل ہونے پر اینٹی سعودی ایلیمنٹس بھی اسی طرح خوش ہو رہے تھے کہ اب محمد بن سلمان کو کوئی نہیں بچا سکتا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح  الفاظ میں کہا کہ ہم “کنگ” کے خلاف نہیں جا سکتے کیونکہ ان کے پاس مضبوط معیشت ہے اور ہمارے کاروباری تعلقات ہیں۔

انڈیا ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے اور انڈین آبادی دنیا کے لئے ایک بہت بڑی کاروباری منڈی ہے۔ ہم بھلے انڈیا کی دشمنی میں مخالفت کریں لیکن یہ بات بالکل واضح  ہے کہ انڈیا اب چھوٹی موٹی دوڑوں سے آگے نکل کر دنیا کی چند بڑی طاقتوں کے ساتھ میراتھن میں دوڑ رہا ہے۔

اور رہی بات انڈیا اور کینیڈا کی تو یاد رکھیں ان دونوں ممالک میں people to people کانٹیکٹ اتنا زیادہ ہے کہ یہ ایک دوسرے سے سیدھی دشمنی مول  لے ہی نہیں سکتے۔ آج نہیں تو کل یہ معاملہ سفارتی سطح پر حل ہو جائے گا اور یوں ٹورنٹو کینیڈا میں انڈیا کے شہر امرتسر کا منظر پیش کرتا رہے گا۔

ہم مخالفین کی ناکامی یا شکست پر اچھلنے کی بجائے اپنے آپ کو اس قابل بناتے کہ لوگ ہماری عزت کرتے۔ اور عزت اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آپ بھکاری ہیں تو کوئی آپ کے کٹورے کو لات مار کے جائے گا اور آپ کچھ نہیں کر پائیں گے۔ ریمنڈ ڈیوس کا کیس ہمارے سامنے ہے کہ کیسے دن دیہاڑے دو انسانوں کو کچلنے کے بعد صحیح سلامت اپنے ملک پہنچ گیا اور ہم سے احتجاج تک نہ ہو سکا اور بالآخر شاہ محمود قریشی کو اپنی وزارت اور پارٹی وابستگی تک کو چھوڑنا پڑا۔

ہماری حیثیت اس درجے تک گر چکی ہے کہ امریکہ کا ایک انڈر سیکرٹری ڈونلڈ لو ہمیں حکم دیتا ہے کہ اس وزیر اعظم کو ہٹادو تو ہم راتوں رات اسمبلی کے مہرے آگے پیچھے کر کے ملک اور جمہوریت کا تیا پانچہ کر دیتے ہیں۔ اور جب اس بات کی خبر عوام تک پہنچتی ہے کہ ایک معمولی انڈر سیکرٹری کے حکم پر ہمارے نظام جمہوریت کو ننگا کر کے لٹکایا گیا ہے تو پھر اسی وزیراعظم کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے کہ اس نے ہمارا آفیشل سیکرٹ لیک کر دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply