تین سو ارب روپے۔۔۔ محمد اسد شاہ /قسط 1

لکھنے کے لیے اس بار موضوعات بہت ہیں ، اور ہر ایک ایسا کہ اس پر لکھا بھی جانا چاہیے ۔ لیکن ایک معاملہ ایسا ہے کہ اس پر نہ لکھنا بددیانتی ہو گی ، یہ معاملہ ہے غریب پاکستانیوں کے تین سو ارب روپوں کا ۔
“تین سو ارب روپے” کے الفاظ پاکستانی عوام گزشتہ چند سالوں سے متواتر سنتے آ رہے ہیں ۔ یہ الفاظ موجودہ وزیراعظم نے تب متعارف کروائے جب وہ گزشتہ منتخب حکومت کے خلاف پانچ سال تک مسلسل سڑکوں اور جلسوں میں رہے ۔ تب خان صاحب اور ان کے ہم نوا اپنی ہر تقریر اور بیان میں اس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف کے خلاف کرپشن کے بہت سنگین الزامات لگایا کرتے تھے ۔ اس مبینہ کرپشن کی مقدار بھی وہ خود بتایا کرتے تھے یعنی “تین سو ارب روپے” ۔ رقم کی یہ مقدار وہ اتنی شدت ، تیقن اور تواتر کے ساتھ قوم کے کانوں میں انڈیلا کرتے تھے کہ ہم جیسے کم فہموں کو خیال آیا کہ شاید ملزمان نے کرپشن کرتے وقت خود خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کے سامنے پوری رقم رکھی ہو کہ حضور گن لیجیے !

پھر یوں ہوا کہ عدالتیں لگیں ۔ ریمارکس شائع ہونے لگے ۔ جے آئی ٹی بنی ۔ ریفرنسز دائر کرنے کا حکم صادر ہوا ۔ نگران ججز کا تصور سامنے آیا ۔ ٹاک شوز نے ایک طوفان کا روپ دھارا ۔ حکومت ختم ہو گئی ۔ وزیراعظم کو سابق وزیراعظم بنا دیا گیا ۔ پھر انھیں شدید علالت اور پیرانہ سالی کے باوجود جیل میں قید کر دیا گیا ۔ ان کی   صاحبزادی بھی اپنے شوہر سمیت جیل چلی گئیں ۔ ان کے کئی قریبی ساتھی بھی جیلوں میں بند ہوئے ۔ پھر الیکشن کروایا گیا ۔ نئی حکومت بنی ۔ وہی خان صاحب وزیراعظم بن گئے ۔ اور اب ان کو وزیراعظم بنے بھی ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن  آج تک خان صاحب نے یا ان کے ہم نواؤں نے کسی عدالت میں “تین سو ارب روپے” کی چوری یا کرپشن کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک ٹاک شو میں خان صاحب کے ایک قریبی ساتھی ، جو آج کل وفاقی وزیر بھی ہیں ، سے پوچھا گیا کہ عدالتوں میں آپ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ، تو پھر آخر “تین سو ارب روپے” کی رقم کا تعین آپ نے کس طرح کر لیا ہے اور یہ عدد آپ نے کہاں سے حاصل کیا ہے؟ تو موصوف نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال پوچھنے والے کو ادھر اُدھر کی باتوں میں الجھانا شروع کر دیا ۔
وہی “تین سو ارب روپے” جن کی تکرار کرتے کرتے خان صاحب اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ، اب پھر یاد آ گئے ۔

گزشتہ ماہ کے اختتام پر خان صاحب نے بطور وزیراعظم ایک آرڈی نینس کی سمری ، اپنی ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت کو ارسال فرمائی ۔ یوں صدر کے دستخط سے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس آرڈیننس (GIDC 2019) جاری کیا گیا ۔ اس آرڈیننس کے ذریعے پاکستان کے غریب عوام کی جمع پونجی سے “تین سو ارب روپے” چند صنعت کاروں کو “معاف” فرما دیئے گئے ۔ عجیب اتفاق یہ ہے کہ ان صنعت کاروں کے بارے میں ماضی میں مشہور رہا ہے کہ وہ خان صاحب کی سیاست کا خرچ اٹھاتے رہے ہیں ۔ اس بات میں کہاں تک صداقت ہے ، اللّٰہ جانے ۔ یہ آرڈیننس بس یوں ہی ، کسی مذاق یا غلطی سے جاری نہیں ہوا تھا ۔ اس کی تیاری میں وفاقی وزارت پٹرولیم اور وزارت قانون شامل تھے ۔ پھر اس پر خود خان صاحب کی اپنی صدارت میں وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں باقاعدہ تفصیلی غور و خوض ہوتا رہا ۔ تمام شرکاء نے متفقہ طور پر اس کی منظوری دی ۔ اس کے بعد کہیں جا کر اسے دستخط کے لیے صدر مملکت کو بھیجا گیا ۔ صدر نے بھی اس کے مطالعے اور غور و خوض کے بعد اس پر دستخط فرمائے ۔ یوں پارلیمنٹ سے منظوری کے بغیر بھی چار ماہ کے لیے یہ نافذالعمل قرار پایا ۔۔۔لیکن اپوزیشن ، سوشل میڈیا اور پھر ریگولر میڈیا پر جب اس حوالے سے تنقید ، بل کہ مذمت کا طوفان اٹھا تو خان صاحب نے اجراء کے 9 دن بعد اس آرڈیننس کو منسوخ کرنے کا اعلان فرما دیا ۔ چلیں ، دیر آید ، درست آید !

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply