• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بائیں بازو کے لیے کچھ بڑا سوچنے اور کر گزرنے کا وقت / ناصر منصور

بائیں بازو کے لیے کچھ بڑا سوچنے اور کر گزرنے کا وقت / ناصر منصور

حکمران طبقات یعنی ریاست خدا داد کے والیان نے سارے سیاسی عمل خصوصاً انتخابات کو ایک رسمی کھیل بنا رکھا ہے لیکن وہ افراد، گروہ اور اہل دانش و خرد جو ریاست میں مقید انسانوں کو اس عذاب اور اسے مسلط کرنے والوں سے نجات کے داعی ہیں ان کی بے حسی اور بے عملی بھی بے مثال ہے۔

ہر بار انتخاب کے لیے سجے میدان میں سماج کی بالائی سطح کے طاقت ور گروہ اترتے ہی اس لیے ہیں کہ عوام کے انبوہ کو بے سمت کریں جب کہ ہم ہیں کہ ان کا راستہ روکنے کی بجائے ہر بار انتخابی دنگل سے باہر بیٹھے تجزیہ اور تنقید سے حالات بدلنے کا بھاشن دیے جاتے ہیں اور دیے جا رہے ہیں۔ یہی منترا جب ایک مزدور کے سامنے دہرایا کہ سب چور ہیں اور ان سے چھٹکارا ضروری ہے تو وہ بول اٹھا ” او تے ٹھیک اے پر تسی ہو کتھے ” ۔ جالب نے کہا تھا کہ ” باتوں سے کٹتی نہیں زنجیر مولانا”۔ چور ہے کہ چوری پہ چوری اور سینہ زوری کیے جا رہا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کر رہا ہے، متبادل دور دور تک موجود ہی نہیں۔ کہیں سے تو اب کوئی بڑی بات کہنے اور دہائیوں سے ٹالے بڑے کام کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔

سماج میں پھیلی اجتماعی سیاسی بے راہ روی کو روکنے اور لوگوں کے درمیاں رہ کر نئے راستوں کی جانب بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس بار کچھ سنجیدہ پیش بندی کی جائے حالانکہ کافی دیر ہو چکی پھر بھی میدان میں اترنے کا وقت ابھی گزرا نہیں۔ انتخابات کا رن ایک ایساجوار بھاٹا ہے جس میں کروڑوں انسانی ذہن طوفان سی طاقت لیے ہر لحظہ سیاسی طور چارج ہو رہے ہوتے ہیں۔ کیا اس سیاسی تلاطم میں ساحل کے متلاشی کروڑوں لوگوں کو منزل کی جانب لے جایا جا سکتا ہے، مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔ناکام رہنے کے امکانات عیاں ہیں لیکن اس عمل کے نتیجہ میں مستقبل کے سیاسی منظر نامہ میں خود کو کسی حد تک متعلقہ ضرور بنایا جا سکتا ہے یہی پڑاؤ پار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

ممکنہ طور پر بائیں بازو کے سارے گروہ ، ترقی پسند قوم پرست ، روایتی سیاسی جماعتوں سے دل برداشتہ ترقی پسند جمہوری سوچ کے حامل سیاسی کارکن ، متبادل کے متلاشی مزدور، ہاری ، عورتوں ، مذہبی اقلیتوں، ماحولیاتی و انسانی حقوق کی تحریکوں سے وابستہ افراد کا ایک وسیع انتخابی اکٹھ سماج کو درپیش انتہائی بنیادی مسائل کے حل پر مبنی پروگرام کے ساتھ عوام کو متوجہ کر سکتا ہے۔

بے زمین کسان و ہاری خان دانوں کے لیے مفت قابل کاشت زرعی اراضی ، کم از کم اجرت پچاس ہزار ، سماجی تحفظ ( مفت معیاری صحت و تعلیم ) سب کے لیے ، ارزاں سفری سہولت ، رہائشی کالونیوں کا قیام ، قوموں کا جمہوری وفاق ، وسائل پر قوموں کا اختیار ، بااختیار شہری حکومتوں کا قیام ، ریاستی امور میں فوجی مداخلت کا خاتمہ ، غیر ضروری فوجی اخراجات میں کمی ، پڑوسی ممالک خصوصاً ہندوستان سے دوستانہ تعلقات، بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے نجات ، انرجی کے لیے ماحول دوست ذرائع ( سولر ، ونڈ اور ہائیڈرو) پر انحصار ، ہر گھر کے لیے سولر پینل کے آسان شرائط پر قرض کی فراہمی ، مذہبی انتہا پسندی کی ہر صورت کا خاتمہ ، عورتوں ، ٹرانس جینڈر اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ اور بلا تفریق برابر کے شہری ہونے کا حق ، تحریر و تقریر کی آزادی ، شہریوں کو تنظیم سازی و رائے دینے کی آزادی ، خفیہ اداروں کی مداخلت کا سدباب ، شہریوں کو جبری لاپتہ کیے جانے کے عمل کو روکنے جیسے اہم نکات پر مشتمل سیاسی پروگرام کے ساتھ ستر سال سے مسلط سیاسی اشرافیہ کو چیلنج کیا اور سماجی و معاشی مانگوں کو ایک بار پھر سیاسی ایجنڈے کا اہم حصہ بنایا جا سکتا ہے۔

آنے والے انتخابات میں مجوزہ عوام دوست جمہوری سیاسی اکٹھ کو پاکستان بھر کے ایک سو چالیس اضلاع میں مشترکہ امیدوار نامزد کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے جو سماجی انصاف اور جمہوریت کی جانب بڑھنے کے نئے راستے وا کرے گا۔

ہمارا درد عجب مرحلے میں ہے کہ جہاں
وہ بے سخن بھی نہیں اور لب کشا بھی نہیں

عجیب طرح سے روشن ہوئی ہے خلوت غم
کہ روشنی ہے بہت اور دیا جلا بھی نہیں

Advertisements
julia rana solicitors

میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں
جو سوچتا بھی نہیں خواب دیکھتا بھی نہیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply