نوے کی دہائی میں ایک دفعہ لاہور سے دو تین لوگ جہلم میں علی عباس جلالپوری سے ملنے گئے۔ گوگل میپس اور لوکیشن کی سہولت تب تک کی دنیا میں متعارف نہیں ہوئی تھی۔ سو لوگ عقل سے کام لے کر محلے اور مکان تک پہنچا کرتے تھے۔ راستے میں کسی سے علی عباس جلالپوری کا گھر پوچھا تو ایک آدمی کہنے لگا: ’’اوہ، وہ بزرگ جو خدا کو نہیں مانتا؟‘‘ گھر تو مل گیا ہو گا، لیکن ایک جملے نے ایک معاشرے کا پول بھی کھول دیا۔
ہمارے ہاں جینوئن رائٹرز، خاص طور پر غیر شرعی فلسفہ و تاریخ پر لکھنے والوں کی پہچان عموماً یہی ہوتی ہے۔ شاید اُنھیں خط بھی آتے ہوں، لوگ سراہتے بھی ہوں، چاہتے بھی ہوں۔ لیکن محلے اور معاشرے میں جائز پہچان کا فقدان اُنھیں سنکی اور زیادہ سخت گیر یا گوشہ نشین بنا دیا کرتا ہے۔ یا پھر وہ بہت خوف زدہ رہتے اور ملفوف بات کیا کرتے ہیں، جیسا کہ قاضی جاوید کے کیس میں ہوا۔
دوسری طرف بابے اپنے کتاب کے مہنگے کاغذ کے جہاز اُڑاتے پھرتے ہیں۔ وہ ہلکی پھلکی سی، فوری استعمال کے قابل، پورٹیبل اور ڈسپوزیبل روحانیت کی پڑیاں جیب سے نکال نکال کر بانٹتے ہیں۔ مگر ذاتی زندگی میں نہایت غیر انسانی ہوتے ہیں۔ ادب سرائے کا دیوقامت کتا ہو یا تارڑ شو کے موقعے پر شائقین کو جھاڑ پلاتا ہوا غیر ادیب، مشروع داڑھی سے دھمکاتا اور بہلاتا ہوا کوئی مومن ہو یا بالوں سے جوئیں نکال کر اُنھیں پچکارتا ہوا ملنگ ٹائپ نگینہ فروش، یہاں قبولیت اُنھی کی ہے۔ اور ہونی بھی چاہیے۔ ورنہ یہ ملک کس لیے بنا تھا؟
ڈانس کرنے، کرنٹ لگانے والے، ٹیلی مباحث کرنے والے گورو، اونی ٹوپی پر ہیرے ٹانکنے والے تیاگی ہر معاشرے میں ہوتے اور ترقی پاتے ہیں۔ لیکن دوسروں کی نس بندی نہیں کر دی جاتی۔
سو اگر آپ تھوڑی مختلف سوچ رکھتے ہیں تو فیس بک اور سوشل میڈیا نامی بے ترتیب اور ہنگامہ خیز پلیٹ فارم بے کار نہیں۔ اگر آپ نے کچھ بنیادی ہوم ورک کر رکھا ہے اور اپنی فرسودہ جڑوں کے عاشق نہیں تو یہاں آپ کی تنہائی دور ہوتی ہے اور سنکی پن ختم ہونے کے بجائے آپ کو اپنے جیسے مزید سنکی لوگ ملتے ہیں۔
لیکن دلچسپ کرداروں کی بھی کمی نہیں: حالات سے خوف زدہ نجومی اور زائچہ فروش، چائے کے کپوں اور کھانے کی پلیٹوں کی تصاویر لگاتے ہوئے لوگ، ہاتھوں پیروں کی تصاویر پوسٹ کر کے باقی چیزیں کے بارے میں تصور کی تحریک دلانے والی پردہ نشین خواتین، قبروں پر دعا مانگتے ہوئے قوم پرست اور متوفی لوگوں کی کلوز اپ بے جان تصویر لگا کر دکھ کا اشتہار دیتے ہوئے لوگ، ناقص شاعر اور امیر پھیکے ادیب، بہانے بہانے سے بڑا گھر اندر سے دکھاتے ہوئے پوسٹیے، زائد از ضرورت محبتوں کی پیش کشوں کے سکرین شاٹ لگا کر مزید پیش کشیں مانگتی ہوئی خواتین، کینولا لگی کلائی کی نمائش کرتے ہوئے مرد، نئے خریدے فون پر خود کشی اور موت کو سراہتے ہوئے نوجوان۔۔۔ بہت کچھ ہے۔ فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے کہ ہمیں کس کے ساتھ تعلق بڑھانا اور بنانا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں