• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) چلاس : دیامر کا ایک اہم شہر نانگا پربت کے جلوے- جدوجہد آزادی گل جان اور اس کا محبوب-سلمیٰ اعوان/قسط3(الف)

میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) چلاس : دیامر کا ایک اہم شہر نانگا پربت کے جلوے- جدوجہد آزادی گل جان اور اس کا محبوب-سلمیٰ اعوان/قسط3(الف)

سلمیٰ اعوان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

https://www.mukaalma.com/author/salma-awan/

تیسری قسط/حصّہ الف

لوگوں کی بات نہیں پر میری ضرور ہے کہ زندگی میں بہت سی تشنہ آرزوئیں اور ادھوری خواہشیں ایسی بھی رہیں جن کی گھمن گھیریوں میں غوطے کھاتے اور الجھتے ان کے پورا ہونے کا تصور ہمیشہ محال نظر آیا۔ خدا غریق رحمت کرے جناب فضل کریم فضلی کو اور عمر دراز دے قرۃ العین حیدر کو کہ اوّل الذکر نے نہایت تفصیلاً اور موخرالذکر نے قدرے مختصر کنچن چنگا کے حسن و جمال کے نقشے یوں کھینچے ہیں کہ انہیں پڑھ پڑھ کر میں نے بے اختیار نیلی چھت والے سے گلہ کیا۔
‘‘واہ مولا مجبور و بے بس اشرف المخلوق بنا کر احسان کا ٹوکرہ سر پر دھر دیا ہے۔ مرغ زریں ہی بنا دیتا کہ تیرے جلوے تو دیکھتا’’۔

چلاس کا شہر شاہراہ ریشم سے خاصی بلندی پر ہے۔ چاندنی ہوٹل میں جب مسافر ناشتہ کر رہے تھے میں نے ہوٹل والے سے بات کی جس نے ایک نو عمر لڑکے کو جگایا جو کرائے پر سوزوکی چلاتا تھا۔ بیس روپے کے عوض وہ مجھے لے جانے پر آمادہ ہوا۔
سوزوکی نے رخ پھیرا۔ ذرا فاصلے پر شنگریلا تھا۔ ائرمارشل اصغر خان کے چھوٹے بھائی بریگیڈئراسلم کا شنگریلا ہوٹل۔ شمالی علاقہ جات میں ان مہنگے شنگریلا ہوٹلوں نے دھوم مچا رکھی ہے۔ خاص طور پر شنگریلا بلتستان نے۔
دفعتاً میں نے اپنے دائیں ہاتھ دیکھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کنچن چنگا سورج کی اولین کرنوں میں ہنستی ہو اور کہتی ہو کہ خواہشیں اور آرزوئیں اگر سچی طلب رکھتی ہیں تو کسی نہ کسی روپ میں ضرور پوری ہوتی ہیں۔
میں نے ڈرائیور لڑکے کی طرف دیکھا۔
اس نے میری آنکھوں سے چھلکتے سوال کا مفہوم سمجھا اور بولا۔
‘‘یہ نانگا پریت ہے۔ استور اور چلاس کا درمیانی پہاڑ۔ دنیا کی چھٹی اونچی چوٹی جس کی بلندی ۸۱۲۶ میٹر ہے’’۔

میں سوزوکی سے نیچے اتر آئی تھی۔
ڈرائیور لڑکا بولے جا رہا تھا۔ میرے کان بند ہو گئے تھے۔ ہونٹ سل گئے تھے۔ آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ اس وقت چلاس کے پہاڑوں سے ٹکرا کر جو ہوائیں لوٹتی تھیں وہ تیز بھی تھیں اور گرم بھی۔ نانگا پربت کی برف کے پیرہن پہنے چوٹیاں جن پر سورج کی طلائی کرنیں کیسے کیسے دلفریب نقش و نگار بنا رہی تھیں۔ مجھ پر جذب کی گہری کیفیت طاری تھی۔ جی چاہتا تھا وجود کی قید سے آزاد ہو کر ان کے سینے پر چڑھ دوڑوں۔ حسن فطرت کی شراب اس فیاضی سے بہہ رہی تھی کہ میری آنکھیں پی پی کر سیراب ہونے کی بجائے مزید پیاسی ہو رہی تھیں۔
ڈرائیور چھو کرہ پاس آکر بولا۔
‘‘اب چلیے نا۔ میں نے واپس بھی آنا ہے’’۔
میں نے نگاہوں کا رخ پھیرا۔ آسمان کی نیلی وسعتوں سے زمین کی خاکستری پنہائیوں میں آئی سونیوال کوٹ کی بستی شاہ بلوط کے جھومتے سبز درختوں کے درمیان کھڑی تھی۔ دور بین کی آنکھیں مجھے چھوٹی چھوٹی تفصیلات سنانے لگی تھیں۔ مثلاً گھروں کے آنگن سونے تھے۔ خاصی گنجان وادی تھی’ پر زندگی کی جیتی جاگتی علامت دھواں تین چار گھروں کے سوا کہیں سے نہیں اٹھ رہا تھا۔ ڈھور ڈنگر بھی نظر نہیں آتے تھے اور انسان بھی کم وبیش نظروں کی زد سے باہر تھے۔ چند بوڑھوں نے ضرور اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا۔ گلیوں اور گھروں میں اچھلتے ناچتے بچوں کی عدم موجودگی تشویشناک تھی۔
میں نے خود سے کہا تھا۔ ‘‘ملک میں امن و امان کی صورت حال اطمینان بخش ہے۔ لہٰذا میرے خیال کے مطابق مردوں کے لام پر جانے اور عورتوں اور بچوں کے ادھر ادھر ہونے کا بھی کوئی سوال نہیں۔ ’’
میں نے لڑکے سے اس ویرانی کا سبب پوچھا۔
پتہ چلا کہ چلاس چونکہ سارے شمالی علاقوں میں سب سے زیادہ گرم ہے۔ گرمیاں شروع ہوتے ہی یہاں کے لوگ ٹھنڈی جگہوں پر چلے جاتے ہیں۔ یہ بستی جواب شاہین آباد کہلاتی ہے۔ موسم گرما کے آغاز میں ہی گئی داس اور نیاٹ کے نالوں میں چلی گئی ہے۔
بات سمجھ میں آجائے تو سر کا ہلنا فطری امرہے۔میں بھی ہلتے سر کے ساتھ آکر سوزوکی میں بیٹھ گئی۔
لڑکے نے سوزوکی سٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔
نانگا پربت کو مقامی لوگ دیامر کہتے ہیں۔ ہماری زبان میں اس کے معنی ہیں پریوں کے رہنے کی جگہ۔ یہ بات مشہور ہے کہ اس پہاڑ کی چوٹی پر پریاں رہتی ہیں۔ اب لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ سب غلط باتیں ہیں۔
میں نے نانگا پربت کے حسن کو پھر دیکھا اور لڑکے سے کہا۔
‘‘ارے غلط کیوں ہیں؟ حسن و رعنائی کے خیالی یا حقیقی پیکر ایسی دل آویز جگہوں پر نہ رہیں گے تو کیا پنڈی بھٹیاں کے چک نمبر ۸۸ کی روڑیوں پر ڈیرے ڈالیں گے’’۔
لڑکا کھلکھلا کر ہنسا۔ بات شاید اس کے دل کو لگی تھی۔

میرے سامنے بٹوگاہ کے کنارے واقع ایک اور آبادی تھی۔ چلاس بازار تھورا سا اونچائی پر ہے۔ بٹوگاہ چلاس کا مشہور نالہ ہے۔ چلاس کے اکثریتی قبیلے بٹو کے لوگ یہاں آباد ہیں۔ اکثریت شین ذات سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ تاریخ کی قدیم ترین بستی ہے۔ بٹو کوٹ کی بستی بھی ویران نظر آرہی تھی۔ لڑکا بتا رہا تھا کہ بیشتر لوگ اس مال مویشیوں کے ساتھ بٹوگاہ کی چراگاہوں میں چلے گئے ہیں۔ وہاں مکئی کی فصل کاٹ کر اکتوبر میں واپس آئیں گے۔

اللہ! اب میں اس ساری جان سے لرزی تھی۔ یہاں تو بستیاں ویران پڑی ہیں۔ جن کی مہمان بننے جاری ہوں وہ بھی اگر ٹھنڈی ہواہیں کھانے اپنے گرمائی مستقر گئے ہوئے ہوں تو میرا کیا بنے گا؟
بہرحال دل کو سمجھایا کہ اب گھبرانا کیسا؟ اوکھلی میں سر دیا ہے تو موسلوں سے کیا ڈر؟ چلاس کا بازار آیا۔ اونچے اونچے موڑ آئے۔ ٹیڑھی میڑی گلیاں۔ چھوٹی سی عمر کا لڑکا کس مہارت سے گاڑی چلاتا تھا۔ ہر موڑ پر میرا دل ڈوب جاتا کہ بس اب گاڑی الٹی کہ الٹی لیکن خیریت رہی اور ہسپتال روڈ کے عین مقابل ایک کھلے سے میدان میں اس نے مجھے اتارتے ہوئے کہا۔
‘‘لیجئے وہ سامنے آپ کے میزبانوں کا گھر ہے۔’’
ابھی میں نے زمین پر قدم رکھ کرچلاس کی ہوا کا ناک کے نتھنوں سے ایک زور دار کش لیا ہی تھا کہ میرے دائیں بائیں بچوں کا جمگھٹا لگ گیا۔ چمکتے دمکتے چہروں والی چھوٹی چھوٹی بچیاں جنہوں نے ایرانی جرسی کے سبز اور سرخ پھولوں والے میلے کچیلے سوٹ پہن رکھے تھے۔ اوڑھنیاں سروں پر تھیں اور بالوں کا رنگ واضح نہیں ہو رہا تھا۔ سرخ و سفید چہروں پر زکام کے پیلے لیس دار مادے سے لتھڑی ناکوں والے لڑکے جن کے نقش و نگار ان خدوخال سے مختلف تھے جن کے بارے میں میں نے پڑھا اور سنا تھا۔
اپنے اردگرد اس پُر رونق میلے کو دیکھ کر مجھے خوشی کا احساس ہوا تھا۔ دل کو ڈھارس بندھی کہ چلو کچھ لوگ تو ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا تھا کہ بہت سے سرکاری ملازمین اور کاروباری گھرانے ابھی یہیں ہیں۔
تبھی میرے میزبان آنکھوں میں حیرت و استعجاب کے رنگ لئے میرے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ مجھے یوں محسوس ہوا تھا جیسے ڈاکٹر ناموس کی کتاب کا ایک خالص شین چہرہ کتابی صفحات سے نکل کر میرے سامنے آگیا ہو۔ چھ فٹی قامت ‘کھڑی ناک پر ذرا عمودی ‘موٹی آنکھوں کی رنگت اودے اور نیلے رنگ کے بین بین’ رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں لیکن گال پچکے ہوئے۔ چہرہ سرخ و سفید اور باریش۔
انہیں شاید کسی نے اطلاع دے دی تھی۔ میں نے اپنا تعارف اپنے چچا کے حوالے سے کروایا۔ بہت خوش ہوئے۔

ان کے پیچھے پیچھے چلتی گھر میں داخل ہوئی۔ گزرگاہ کے ساتھ مردانہ بیٹھک جس کا دروزہ صاحب خانہ نے کھولا تو لکڑی کی چھت کھڑکیوں اور دروازوں کے ساتھ فرش بھی چوبی نظر آیا۔ چلاس کی وادیاں داریل اور تانگیر جنگلات کا گھر ہیں۔ مکان میں لکڑی کا استعمال فراخدلی سے ہوتا ہے۔ نشست گاہ آنگن سے تین زینے نیچی تھی۔ صحن کے ایک طرف بادام کا درخت کچے پھل کے ساتھ پر پھیلائے کھڑا تھا۔ دوسری طرف کائل کی لکڑیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ آنگن سے ذرا اونچا برآمدہ اور آگے دو کمرے جن پر کسی اجڑی بیوہ کا گمان پڑتا تھا۔ ہاں البتہ دیواروں پر لٹکتی بیش قیمت بندوقیں چلاسی لوگوں کی جنگویانہ ذہنیت کی عکاس تھیں۔
بلوری آنکھوں والی خاتون خانہ بیٹی جنے بیٹھی تھی۔ پتہ چلا کہ گھر والوں نے تو بابو سر چلے جانا تھا بس اس زچگی نے روک دیا۔ اب کل پرسوں کی تیاری تھی۔
میں نے دل میں کہا: ‘‘چلو شکر ہے۔ لڑکی بھاگوان ہے‘ وگرنہ میں کہاں خجل خوارہوتی’’۔
گھر پرخوشحالی اور رزق کی فراوانی تھی۔ پر صفائی ستھرائی اور سلیقہ جیسی خوبیوں کی تنگی تھی۔ چودہ سالہ جوان بیٹی گلاب کا مہکتا پھول تھی جس کی مسحور کن خوشبو نے اندر باہر کے سارے گند پر ایک پردہ سا ڈال دیا تھا۔
چائے سے فارغ ہو کر میں نے چارپائی کی پٹی سے نیچے لٹکتی ٹانگوں کو اوپر کیا۔ دیوار سے ٹیک لگائی اور اپنے میزبان کی طرف دیکھا جو مقامی ٹوپی سر سے اتارے اپنے خشخشی بالوں میں انگلیاں چلا رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ میں تھوڑا سا آرام کر لوں۔
مجھے آرام کی ضرورت نہیں تھی۔ میں ان سے باتیں کرنا چاہتی تھی۔ شہر کے مضافات میں گھومنے کی متمنی تھی۔ وقت کے ایک ایک لمحے سے فائدہ اٹھانا میرا منتہائے مقصود تھا۔ میں جو گھر میں تھوڑا سا کام کرنے کے بعد ہمیشہ شکست خوردہ کھلاڑی کی طرف ہانپ کر بیٹھ جاتی تھی۔ اب اٹھارہ گھنٹے کے طویل اور صبر آزما سفر کے بعد بھی راج پری پیکر کی طرح صعوبتوں کے اکھاڑے میں کودنے اور شہ زوری دکھانے کے لئے تازہ دم تھی۔

صاحب خانہ نے اپنی پٹولہ سی حسین بیوی پر ایک نظر ڈالی۔ پھر نگاہوں کا رخ میری سمت کیا اور بولے۔
‘‘آپ کو یقیناً یہ تو پتہ چل گیا ہو گا کہ شنا یہاں کے اکثریتی لوگوں کی زبان ہے۔ شنا بولنے والے لوگ دراصل دار دیا دُرد ہیں اور نسلاً آریائی ہیں۔ آریا قوم دس پندرہ صدی قبل از مسیح وادی سندھ میں فاتح بن کر آئی۔ انہوں نے ‘‘جلکوٹ اور گور’’ کے درمیانی علاقے میں رہنا شروع کیا۔ ان کا وہ گروہ جو اپنے طور طریقوں ‘رسم و رواج پر قائم رہا ‘‘شین’’ کہلایا۔ لیکن وہ لوگ جو اردگرد پھیل گئے اور جنہوں نے مقامی لوگوں سے شادیاں کیں۔ اپنا رنگ انہیں دیا اور کچھ ان کا رنگ خود لیا۔ یشکن بنے۔ کمی اور ڈوم کمتر ذاتیں ہیں۔
شین اس علاقے کی سب سے اونچی اور ممتاز قوم ہے۔ ہم دونوں شین ہیں۔
انہوں نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور آنکھوں سے بیوی کی طرف اشارہ کیا۔
صاحب خانہ نے آخری جملہ گو دھیمے انداز میں کہا تھا لیکن اس میں تفاخر کی جو لہریں موجیں مار رہی تھیں۔ وہ مجھ سے چھپی نہ رہی تھیں۔

باہر کوئی ملنے والا آیا تھا۔ میرے میزبان اٹھ کر چلے گئے۔ میں کمرے سے نکل کر آنگن میں آئی۔ دھوپ کی تیزی اور اس کا پسار پہاڑوں اور میدانوں پر بھری دوپہر کی مانند تھا۔ لیکن ابھی صبح تھی اور میری گھڑی نو بجا رہی تھی۔

برآمدے کی دیوار کے ساتھ لوہے کے چولہے میں لکڑیاں جل رہی تھیں۔ یہ چولہا عجیب ساخت کا تھا۔ آگے پیچھے کا سلسلہ یوں پھیلا ہوا تھا کہ چولہے کے منہ میں جلتی لکڑیوں کی آگ تیسری دیگچی تک پہنچ رہی تھی۔ پتیلوں اور دیگچی میں جانے کیا کیا پک رہا تھا؟
میں قریب جا بیٹھی۔ گلاب کے پھول نے ہنستی آنکھوں سے مجھے دیکھا۔ میں نے نام پوچھا۔
‘‘گل جان بیگم۔’’
ایسی معصوم اور بھولی بھالی صورت کے لئے کیسا بھاری بھر کم نام تھا۔
میں کھڑی ہو گئی کیونکہ گل جان بیگم نے مجھے پیشکش کی تھی کہ ‘‘آؤ تمہیں اپنا باغیچہ دکھاؤں۔’’

نشست گاہ کے دروازے سے اتارا گیا دس پوڈوں کا چھوٹا سا چوبی زینہ گھر اور باغیچے میں رابطے کا واحد ذریعہ تھا۔ ناشپاتی’ سیب ’ خوبانی کے درختوں کی ٹہنیاں اور انگور کی بیلیں پھولوں کے بارسے جھکی پڑتی تھیں۔ اس دلفریب نظارے کو دیکھ کر میرے چہرے اور آنکھوں سے خوشی کی کرنیں پھوٹی تھیں۔ کیونکہ میدانی علاقوں میں رہنے کی وجہ سے ہم لوگ تو قدرت کے ان انمول عطیات کو ان کے حسن کے ساتھ دیکھنے کی سعادت سے محروم ہی رہتے ہیں۔۔پر میری قسمت کہ میرے ذہن و دہن کو للچاتا پھل ابھی کچا تھا۔ پکا پھل توت ختم ہو چکا تھا۔ اگر کہیں کوئی ٹانواں ٹانواں دانہ نظر آتا تھا تو اسے توڑنے کے لئے یقینا میں لولی لنگی ہونے کا رسک لینا نہیں چاہتی تھی۔

سوانچل (ساگ) اور منڈیا (چائنا پالک) کی کیاریوں میں ابھی گل جان نے پاؤں دھرا ہی تھاجب اس کی پکار پڑی۔ وہ اور اس کے پیچھے پیچھے میں بھی الٹے پاؤں بھاگی۔ پتہ چلا کہ گوشت تیز آنچ سے جل گیا ہے اس کی بُونے چارپائی پر بیٹھی زچہّ ماں کو اٹھنے اور پکارنے پر مجبور کر دیا تھا۔

میں اب چلاس کے گردو نواح کا چکر لگانے اور قبل از تاریخ وہ چٹانی مجسمے اور پتھروں کے ہتھیار دیکھنے کا سوچ رہی تھی جن کی وجہ سے چلاس خصوصی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
اس خواہش کا اظہار جب کمرے میں موجود صاحب خانہ سے کیا گیا تو بے چارے نے گھبرا کر ایک بار زمین کو دیکھا ‘ دوسری بار بیوی کو اور تیسری بار مجھے۔ پھر قدرے تذبذب سے بولا۔
‘‘بی بی دراصل ان علاقوں میں عورت کا یوں پھرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے’’۔
‘‘چلو یہ اچھی ایکٹویٹی رہی۔ جان جوکھوں میں ڈال کر گویا میں ان کا گھر دیکھنے اور کھانے کھانے ہی تو یہاں آئی ہوں’’۔
بہرحال میں نے غصے پر قابو پایا اور ہنس کر کہا۔
‘‘میں آپ کی مدد اور تعاون کی ضرورت مند ہوں۔ اتنا کٹھن سفر…… انہوں نے فوراً میری بات کاٹ دی۔
‘‘چلیے میں کچھ کرتاہوں’’۔ وہ باہر نکل گئے۔ تھوری دیر بعد اندر آئے مجھے بتایا۔
‘‘ابھی باہر میرا بھتیجا آیا تھا۔ اسے میں نے آپ کے بارے میں بتایا ہے۔ وہ ابھی آ رہا ہے۔ اس کے ساتھ چلاس کے مضافات میں گھوم آئیے۔ باقی رہے تاریخی مجسمے’ دراصل یہ مختلف جگہوں پر ہیں۔ دریا پار ایک وادی تھلپن ہے۔ تھور اور گچی میں بھی سننے میں آئے ہیں۔ میں دراصل تذبذب میں ہوں کہ وہاں جانا مسئلہ ہے’’۔
ان تاریخی کتبوں کو دیکھے بغیر چلاس آنا رائیگاں جاتا تھا۔ میں چارپائی پر بیٹھ گئی اور رسان سے بولی۔
‘‘آپ میری مجبوری سمجھیں۔ کسی اچھی سی گاڑی اور ماہر ڈرائیور کا بندوبست کر دیجئے۔ جتنے پیسے وہ لینا چاہے میں دوں گی۔ اچھا برا لگنے کی بات چھوڑ ئیے۔ بچوں والی عورت کے لئے بار بار گھر سے نکلنا مشکل ہے۔ روز روز کوئی آیا جاتا ہے!
پھر ایک عجیب سی بات ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply