میرا پہلا رومانس: منڈی بہاءالدین/آغر ندیم سحر

جس شہر نے آپ کو خواب دیکھنا سکھایا ہو،اس شہر سے محبت آپ کے خمیرمیں شامل ہو تی ہے،آپ دنیا کے کسی بھی شہر یا ملک میں چلے جائیں، آپ اپنی پہلی محبت کو نہیں بھول سکتے۔ پہلی محبت کی طاقت اور رومانس سے آپ ساری زندگی باہر نہیں آ سکتے اور اگر محبت بھی ایسی ہو جس سے آپ کے خواب جڑے ہوںتووہ کیسے فراموش ہو سکتی ہے۔مجھے لاہور آئے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا،اس شہر نے مجھے کامیاب کیرئیر بھی دیا اور محبت بھی،نام اور مقام بھی اسی بابرکت اور رومانوی شہر کی بدولت نصیب ہوا،بہت سارے دوست بھی اسی شہر کی دین ہے،کتاب اور کتاب والوں سے تعلق بھی لاہور کی وجہ سے بنا،اس شہر سے محبت کی ایک بنیادی وجہ اورینٹل کالج بھی ہے جو میرے لیے درگاہ کا درجہ رکھتا ہے۔لاہور ،لاہور ہے مگر اس سب کے باوجود میں اپنی پہلی محبت نہیں بھولا۔

میری پہلی محبت اور پہلا رومانس منڈی بہاء الدین ہے۔اس شہر نے خواب دیکھنا سکھایا،اس شہر نے شعرکہنے کی ترغیب دی،اسی شہر نے پہلی مرتبہ اسٹیج فراہم کیا جہاں میں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی شاعری سنائی،اسی شہر نے بطور مقرر پہچان دی۔مجھے گورنمنٹ گریجویٹ کالج کا وہ ٹھنڈا دن آج بھی یاد ہے جب کالج کا مرکزی ہال سٹوڈنٹس سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا،ہر دل عزیز نقیب ِ محفل مرحوم مرزا عارف نعیم اسٹیج پر جلوہ افروز تھے،بطور طالب علم اردو تقریر میں پہلی پوزیشن لینے پر میرا نام پکارا گیا، ہال میرے نعروں سے گونج اٹھا، انعام وصول کرتے وقت مرحوم مرزا عارف نے مہمانوں کو بتایا کہ یہ نوجوان خود بھی شعر کہتا ہے،مجھے اسٹیج پر موجود مہمانان گرامی نے شاباش دی اور میں اسٹیج سے اتر آیا، میں آج تک وہ شاباش اور تھپکی نہیں بھولا۔یہ شہر میرے کالم نگار بننے کی بھی وجہ بنا،شہر سے ایک دو صفحے کے اخبار کا اجرا ہوا تو کسی دوست کے توسط سے جنابِ ایڈیٹر سے ملاقات کی،ان سے فرمائش کی کہ لکھنا چاہتا ہوں،انھوں نے کالم کی اجازت دینے کی بجائے پروف پڑھنے پر لگا دیا، وحید گجن،امجد صدیقی اور اصغر تبسم کے توسط سے دو صفحوں کے اخبار میں مختصر کالم لکھنا شروع کر دیے۔

اسی شہر کے توسط سے شعر سے تعلق بنا،حکیم ربط عثمانی مرحوم اور کیف وعرفانی مرحوم جیسے نابغے میسر آئے،ان اساتذہ کاہی فیضان ہے کہ کچھ لکھنے کے قابل ہوا،انھی اساتذہ کی کوششوں سے شہر کی ادبی فضا بارونق رہی،ملک بھر سے جید شعرا منڈی بہاء الدین کے مشاعروں میں شریک ہوتے رہے۔ ایک مرتبہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے کمیٹی ہال میں ایک قومی سطح کا مشاعرہ رکھا،میں نے استادِ محترم حکیم ربط عثمانی سے گزارش کی کہ انتظامیہ سے کہا جائے کہ ایک مبتدی شاعرہے،کچھ سنانا چاہتا ہے، مجھے ایک غزل کی اجازت مل گئی۔اس مشاعرے کی صدارت مرحوم ناز خیالوی فرما رہے تھے،ناز خیالوی کی مشہور زمانہ قوالی’’تم ایک گورکھ دھندہ ہو‘‘نصرت فتح علی خان کی آواز میں میں نے سن رکھی تھی،لہٰذا مجھ جیسے نوآموز کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز تھا کہ ناز خیالوی کی صدارت میں کچھ سنایا جائے،یہ مشاعرہ اور اس سے جڑی یادیں میرے زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں،منڈی بہاء الدین میرا پہلا رومانس بھی ہے اور عشق بھی۔جس شہر نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ہو،بولنا،سوچنا اور خواب دیکھنا سکھایا ہو،اسے کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔

لاہور کی مصروف ترین زندگی نے اس رومانوی شہر سے لاتعلق کر دیا ہے،اب شہر جانا بہت کم ہو گیا ہے،گاؤں بھی جاتا ہوں تو انتہائی مختصر وقت کے لیے، وقت کی قلت کے باعث نہ کسی سے مل پاتا ہوں اور نہ اس شہر ِ محبت میں آوارہ گردی کر پاتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس بہت وقت ہو اور میں جرمن چوک کی چائے سے لطف اندوز ہوں،کمیٹی ہال کی لائبریری میں بہت سا وقت گزاروں،ریلوے ٹریک پر دور تک پیدل چلتا رہوں،اس ریلوے گرائونڈ میں بھی وقت گزاروں جہاں بیٹھ کر استاد محترم حکیم ربط عثمانی نے میری درجنوں غزلوں کی اصلاح فرمائی تھی،ریلوے اسٹیشن کے نان پکوڑے بھی انجوائے کرنا چاہتا ہوں،چیمہ چوک سے پیدل کمیٹی چوک اور پھر وحید الدین پارک جانا چاہتا ہوں،یہ پارک جہاں اپنے جیسے اداس لوگوں کے ساتھ درجنوں شامیں گزاریں،درجنوں نئے دوست اسی پارک کی دین ہیں۔میں ریڈیو ایف ایم کی عمارتوں میں بھی وقت گزارنا چاہتا ہوں،جہاں ایڈیشن دیے،پروگرامز ریکارڈ کروائے، جہاں رات گئے تک محفلیں برپا ہوتی تھیں،شہر کے چنیدہ دوست ریڈیو دفتر اکٹھے ہوتے اور درجنوں نئے موضوعات زیرِبحث آتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لاہور کی محبت اور عشق اپنی جگہ،میرا پہلا رومانس منڈی بہا ء الدین ہے،اس شہر کا مقروض ہوں،اس شہر کے درو دیوار سے مجھے شدید محبت ہے،ان گلیوںاور بازاروں سے میری ذات وابستہ ہے،میرے خواب وابستہ ہیں،میں اسے کبھی نہیں بھول سکتا۔اس شہر نے مجھے وہ سب دیا،جس کی مجھے خواہش تھے۔تدریسی زندگی کا آغاز بھی اسی شہر سے کیا،شہر کے ایک چھوٹے سے نجی سکول میں نرسری جماعت کو پڑھایا،شاید بارہ سو تنخواہ تھی،پھر ایک وقت آیا کہ اسی شہر میں تین قومی اردو کانفرنسیں کروائیں،کئی ادبی تنظیموں کی بنیاد رکھی،کئی اہم مشاعرے اور سیمینارز کروائے، اردو دنیا کے درجنوں اہم نام اس شہر میں مدعو کیے، خود لاہور آ گیا مگر منڈی بہاء الدین میں ادبی تقریبات کا سلسلہ آج تک جاری ہے،کوئی بھی اہم تقریب ہو یا کانفرنس،میری کوشش ہوتی ہے کہ میں سب سے پہلے پہنچوں۔ حکیم ربط عثمانی،کیف عرفانی، حکیم افتخار فخر،عبد المجید چراغ، لیاقت حسین لیاقت اور جمیل ناز کی کوششوں سے اس شہر کی ادبی فضا ہمیشہ معطر و منور رہی،ان اساتذہ کرام اور سینئرز قلم کاروں کے بعد ادبی فضا پہلے جیسی نہیں رہے،نہ وہ شفاف لوگ رہے اور نہ ہی تقریبات،سوچتا ہوں کہ اس شہر کی ادبی رونق بحال ہوگی یا پھر دوبارہ کوئی بڑا مشاعرہ،کانفرنس یا ادبی تقریب اس شہر کی قسمت میں نہیں ہے۔ خدائے لم یزل اس شہر کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے اور یہ شہر مسکراتا رہے۔آمین

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply