ایک خط ایک تحریر -انکے نام جو صاحب اختیار ہیں/انعام مورگاہ

میرے پرکھوں کی نشانی اور انکی قبروں کی امین
میری اگلی نسل کی امانت میرا پیارا وطن پاکستان آجکل پھر ایک دفعہ گردش زمانہ میں دکھائی دیتا ہے۔
پاکستانی مزاج بھی ہو بہو پاکستانی کرکٹ ٹیم کی طرح کے ہی ہیں ہم بظاہر بہت لاتعلق مگر بہت کنسرن ہوتے ہیں بھلے ہماری رینکنگ تو کرکٹ ٹیم کی طرح ٹاپ پر ہوتی ہو مگر خود اگر نہ جیتنا چاہیں تو بُری سے بُری ٹیم بھی جیتنے میں ہماری مدد نہیں کر سکتی اور پھر ہم ہار جاتے ہیں اور اگر کبھی جو ہم ٹھان لیں کہ جیتنا ہے تو پھر ایسا تاریخ نے بارہا دیکھا نہ روس دیکھتے ہیں نہ امریکہ ہم پھر جیت کر دکھاتے ہیں۔

آج بھی حالات فوراً180کے زاویہ سے پلٹا کھا سکتے ہیں ، بس ایک ہی شرط ہے اگر ہم اگر خود چاہیں۔
آپ کہتے ہیں کہ معاشی مسئلہ ہے یہ اقتصادی مسئلہ کچھ بھی نہیں اگر ہم چاہیں تو یہ حل ہو سکتا ہے۔

حالانکہ جس معاشی گرانی کا رونا ہے اس کا اندازہ تو عقل مند قیادتوں کو پہلے سے تھا جسکا سامنا پوری دنیا کو کرنا تھا اور ہے ، دنیا نے تو اس اکنامک بحران (کورونا ، یوکرین جنگ) کے آنے سے پہلے
ہی بھانپ لیا تھا اور پھر پیش بینی کے طور پر اسکے متبادل حل بھی تلاش کر لیے تھے
ہمارے ساتھ مسئلہ یوں ہے
قرض کی پیتے تھے  مئے اور سمجھتے تھے رنگ لائے گی  ایک دن فاقہ مستی ہماری
اور اسکا ہمیں کو یقین تھا کہ
کہیں نہ کہیں سے ڈالرز آجائیں گے کچھ نہ کچھ حل نکل آئے گا
ہمارے ساتھ شروع سے یہ معاملہ یوں ہوا کہ ہمیں مفتے کے ڈالرز اڑانے کے مواقع (لالچ)کئی بار دلائے گئے اور باقاعدہ منصوبے کے تحت اس مفت کے مال کا عادی مجرم بنایا گیا۔
اس پر باقاعدہ طور پر ضیا الحق سے لیکر مشرف تک سب نے مداری بن کر ڈگڈگی بجائی۔
ایک دفعہ اسلام کو نافذ کرنے کے نام پر اور پھر کبھی اسی اسلام کو روشن خیال اسلام بنانے کے نام پر مگر مداریوں نے پاکستانی عوام کا بچہ جمہورا نچایا اور خوب ادھر ادھر گھمایا ،کبھی جہاد کروایا تو کبھی ٹھمکے لگوائے۔
بڑی مکاری سے بڑی طاقتوں کی لڑائی میں اپنے لیے موافق معاشی مواقع بنا کر اسے استعمال کیا۔
اس میں ملک کا فائدہ کم مگر دوام اقتدار کے ساتھ فارن اکاؤنٹ بھی موٹے تازہ کیے گئے جس میں یہ طعنہ بھی سننے کو ملا کہ ڈالر کے عوض یہ ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں۔
رئیل اسٹیٹ کی فراوانی نے ہماری زراعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا۔
لوگوں کو رئیل اسٹیٹ میں لگا کر پیسے کی ایسی ریس میں لگا دیا گیا جہاں روز مرہ خاندانی معاملات بھی بے حد متاثر ہوئے ،بھائی سے بھائی بھی اگر بات کرتا ہے تو وہ پیسے کے نفع و نقصان کو مد نظر رکھ کر کرتا ہے۔
معاشرتی ادب و احترام بڑے چھوٹے کا لحاظ محض جو کبھی ایک روایت اور ہماری پہچان تھی اب ایک فریبی رسم رہ گئی۔
1947 کے بٹوارے کے بعد ایک اور بٹوارہ ہو گیا لوگ کہتے ہیں وہ ایک سازش تھی اب یہ کچھ کچھ سچ لگتا ہے کہ کیا ایسا پاکستان بنانا مقصود تھا۔

ایسا ملک جس میں نہ دین نہ ایمانداری نہ ہی بھائی چارہ ہر مکاتب فکر میں فریبی لوگ غالب نظر آتے ہیں ایسا ملک جس کے اندر قوم نہیں بستی ،ایک منتشر ہجوم رہتا ہے جس کی زندگی کا مقصد محض پیسہ کمانا ہے جیسے بھی ہو حرام ہو یا حلال اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
ایسا ملک جس کے اطراف میں ان ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں جو ازلی دشمن ہیں
ایران ہو یا افغانستان
ہمارے لیے تو سبھی جیسے انڈیا جیسے ہیں جب سے ملک بنا ہمیں پتہ ہی نہیں ہم دنیا میں کیوں ہیں پاکستان کیوں ہے کوئی مقصد کوئی مشن ہی نہیں بس چلے جا رہے ہیں اور دوسروں کے نعرے لگا رہے ہیں نہ ہی مسٹر ہیں نہ ہی مولانا یعنی نہ دنیا کما سکے نہ آخرت میں جنت کا کوئی چانس لگتا ہے۔
آج تک پتہ نہیں چلا کہ عرب کو فالو کریں یا فارس کو
عربی اور فارسی بھی پڑھائی جاتی رہی
انگریزی تو جیسے ہم پر عین فرض کر دی گئی
جب بھی کوئی قائد آتا ہے وہ آخر کار پتہ جلتا ہے کہ یہ یا تو چور ہے یا نااہل یا بتایا جاتا ہے یہ بہت بڑا غدار انسان تھا۔
سالا ہمارے پڑوس میں لوگ ترقی کر گئے افغانستان پچاس سالہ جنگی صورت حال سے دوچار رہنے کے باوجود ہم سے زیادہ متمول ہو گیا تو سوچنے کی ضرورت ہے کہ خزانے کی بوری میں سوراخ ہی نہیں ہے بلکہ پوری کی پوری بوری کہیں اور الٹائی جا رہی ہے۔
تو کیا اس ملک کو قائم رکھنا ہے؟اگر رکھنا ہے کیسے رکھنا ہے ؟یاد رکھیے یہ ملک ہم سب کا ہے اسکو قائم رکھنا ہم سب کا فرض ہے عوام کو خود سے آگے بڑھنا ہوگا اٹھنا پڑےگا۔
کسی ہنگامے کو برپا کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس ملک میں برائیوں کے مقابلے میں اچھائیاں رائج کرنے کے لیے ہمیں برائی کے سامنے دیوار بننا ہوگا یاد رہے ہمیں کسی روس و امریکہ یا چین نے یہ ملک آزاد کرواکے نہیں دیا۔
نہ ہی یہ ملک ہمیں کسی نے پلیٹ میں سجا کر پیش کیا ہے
یہ ہمارے لاکھوں پرکھوں کی قربانیوں کی  بدولت ہمیں ملا ہے اسکو ایسے ضائع نہیں ہونے دینگے
ایسے میں قوم کو کسی ایک درست سمت اہم مشن میں لگائے رکھنا انکی رہنمائی کرتے رہنا بے حد ضروری ہے
بدقسمتی سے اس ملک کو کم و بیش ہر ادارے نے فائدہ کم جبکہ نقصان زیادہ پہنچایا ہے
بدقسمتی سے خاص طور پر اسٹبلشمنٹ کے کردار کو سخت شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے کرپٹ اور نااہل ججز نے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے جیسا کام کیا ہے

فوج کو چاہیے کہ یا تو فوری طور پر حکومتی معاملات سے مکمل طور پر لاتعلق ہو جائے نہیں تو پھر مکمل طور کھل کر سامنے آئے اور سارا نظام و ذمہ داری سنبھال لے اور دس سال تک ملک کو واپس اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے درست ڈگر پر لایا جائے۔بلاتفریق کرپٹ عناصر کو چوک چوراہوں پر لٹکایا جائے۔بدعنوان عناصر چاہے کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں ان سے کوئی رعایت نہ کی جائے۔
یکساں تعلیمی نظام ہو ، اوقاف اور زراعت کو مکمل طور پر ایک منظم کرکے پروفیشنل لوگوں کے حوالے کیا جائے۔
پاکستان چند برسوں میں واپس دنیا کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔
کاش کوئی پاکستان کا بیٹا جس کا جگرا اتنا ہو کہ وہ ایسا کرنے کی ہمت اور پاکستان کو اس بحران سے نکالے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تصویر بشکریہ دی ویک

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply