نیل گگن اور پیلی گردن والی چڑیا /عاصم کلیار

بیس اوپر ایک سال پہلے میں نے سالم علی کا تذکرہ قرۃ العین حیدر کی کتاب شاہراہ حریر میں پڑھا تھا۔

“ڈون ویلی کا گمنام طائر
وہ ایک بہت ہی خوش آواز پرند ہ ہے جو وادی دہرہ دون کے گھنے جنگلوں میں چھپا رہتا ہے اور دوپہر کے سناٹے میں کبھی کبھی اس کی آواز سنائی دیتی ہے جو لگتا ہے کہ وہ فریاد کرتا ہو”میں سوتا تھا”۔اس پرندے کی آواز میں نے دہرہ دون سے باہر کہیں نہیں سنی اور سنی بھی تو کہاں برسوں بعد اچانک صبح سویرے اورنگ آباد کے گیسٹ ہاؤس کے باغ میں۔جہاں وہ بڑی دلدوز صدا لگا رہا تھا میں سوتا تھا میں سوتا تھا۔کہاں شوالک کی پہاڑیاں اور ہمالیہ کا دامن،کہاں سنگلاخ دکن اور مراٹھ واڑہ۔اس پرندے کی زیادہ دیر تک سونے کی عادت نہ چھوٹی۔میں نے طے کیا کہ بمبئی  جا کر سالم علی سے اس کے متعلق دریافت کروں گی جو دنیا کے سب سے بڑے ornithologist ہیں۔لیکن بمبئی  میں کبھی سالم علی صاحب سے پوچھنے کی نوبت نہ آئی۔اور اورنگ  آباد میں اس صبح وہ پرندہ اپنا راگ سنا کر اچانک خاموش ہو گیا”
قرۃ العین حیدر ۔ شاہراہ حریر

ڈون ویلی کا گمنام طائر سوتا تھا اور میں جانتا ہوں کہ میں نجانے کب سے سو رہا ہوں۔
میں سوتا ہوں۔میں سوتا ۔۔۔۔ہوں ۔۔۔میں ۔۔سوتا
میں نے نہ کوئی راگ سنایا نہ عالمِ رنگ و بو میں میں تمیز خیر و شر کر سکا اور وہ دن بھی کچھ ایسا دور نہیں جب نیلے گگن کی جانب محو پرواز ہوں گا۔سوتا ہوں ،سے سوتا تھا، کا سفر کچھ روز،دو چارگھڑیوں یا چند برسوں میں پایاتکمیل کو پہنچے یہ کون جان پایا ہے۔
وقت گزرتا رہا۔جوانی کے ساتھ ساتھ ولولے بھی ماند پڑنے لگے،مگر منتشر منتشر سی زندگی گزارنے کے باوجود صحیفوں کو سینے سے لگائے  رکھا۔
دس اوپر تین سال پہلے کسی کتاب میں اندرا گاندھی کی یہ تحریر سالم علی سے ایک بار پھر متعارف کروا گئی۔
“Like most Indians, I took birds for granted until my father sent me Sri Salim Ali’s delightful book from Dehra Dun jail and opened my eyes to an entirely new world. Only then I realise how much I had been missing.”
“ادھر ماں کی کھیتی” ڈھونڈے سے نہیں ملتی تو سالم علی کی کتابیں کہاں سے خریدتا۔برسوں سالم علی کی کتابوں کی تلاش میری اولین ترجیحات میں شامل رہی۔اس دوران پیٹر وولبن کی درختوں کی پوشیدہ کائنات سے متعلق انتہائی معلوماتی اور حیرت انگیز کتاب نے مظاہر فطرت کے علاوہ درختوں اور پرندوں کی لگن کے بارے تازیانے کا کام کیا۔

ایک روز عہدِحاضر کےمعتبر فکشن نگار اکرام اللہ سے ملاقات ہوئی تو میں نے سالم علی کا ذکر کیا، دو چار روز بعد وہ سالم صاحب کی ایک کتاب میرے گھر پہنچا گئے۔مشائدے کے علاوہ سائنسی اصولوں کی روشنی میں سالم علی کی وہ کتاب پرندوں کی دنیا کے بارے کسی بھی طور انسائیکلوپیڈیا سے کم نہ تھی۔
کچھ روز پہلے میرا اسلام آباد جانا ہوا تو پرانی کتابوں کی دوکان میں سالم علی کی خود نوشت fall of sparrow اخبارات،جرائد و کتب ایک ڈھیر سے دستیاب ہوئی۔

یہ قصہ پرانا ہے اس وقت بمبئی  شہر بے ستوں صاف آسمان تلے اور نیلگوں سمندر کے کنارے درختوں سے ہرا بھرا ہمیشہ پرندوں کی چہکار سے شاداب رہتا۔سادگی سب کا شیوہ زیست تھا۔آٹھ بہن بھائیوں سمیت 1899 میں تین سال کی عمر سے ماں،باپ کے انتقال کے بعد سالم علی بمبئی  کے علاقے کھیتواڑی میں اپنے ماموں امیرالدین طیب جی کے ساتھ رہنے لگے۔

امیر الدین بہترین شکاری ہونے کے علاوہ بمبئی  نیچرل  ہیسٹری سوسائٹی کے اولین ممبر بھی تھے۔سالم علی عام بچوں کی طرح درختوں پر چڑھ کر پرندوں کے انڈے اٹھانے کی بجائے  ان کی عادات و خصائل کے بارے جانکاری میں زیادہ دلچسپی رکھتے۔وہ اپنی عمر کے بچوں کے ساتھ پرندوں کے شکار کے علاوہ فارغ وقت میں اپنے رشتے کے ماموں زاد بھائی سکندر مرزا کے ساتھ کرکٹ کھیلتے۔سکندر مرزا آزادی کے بعد پاکستان کی سیاست میں ہرنو بال پر چھکے لگانے کی وجہ سے بھی مشہور ہوئے ۔

نو سال کی عمر میں ماموں امیر سے ملنے والی ائیر گن سے ایک روز سالم علی نے پیلی گردن والی چڑیا کا شکار کیا۔اس رنگ کی چڑیا سالم علی پہلے مرتبہ دیکھ رہے تھے۔وہ اس کے متعلق مزید جاننے کےلیے  ماموں کے توسط سے بمبئی  نیچرل ہسٹری گئے ، جہاں ترتیب سے رکھے ہوۓ بے شمار حنوط شدہ پرندوں کے مشاہدے نے انہیں ornithologist بنا دیا۔

سالم علی نے سکول کی تعلیم کے بعد بمبئی  یونیورسٹی سے زوالوجی میں ابتدائی سطح کے کورس میں داخلہ لیا۔ایک انگریز پروفیسر کی مرتب کردہ کتاب میں ٹیگور اور سروجنی نائیڈو کی انگریزی نثر کے ساتھ سالم علی کے زمانہ طالبعلمی کا ایک مضمون بہترین نثری نمونے کے طور پر شامل کیا گیا۔

پرندوں کا پجاری باقاعدہ تعلیم کے حصول سے باغی تھا سو اسے کاروبار کے سلسلے میں برما بھیجا گیا۔جہاں وہ کام کرنے کی بجاۓ برما کے جنگلوں میں ایک گمنام،خود ساختہ جرمن جلا وطن برتھ ہولڈ کے ساتھ پرندوں کی کھوج میں رہتا۔برتھ کے جرمن والد کو سرکار انگلشیہ نے 1886 میں بطور ماہر جنگلات برما میں تعینات کیا۔برتھ کے والد ملازمت کے خاتمے پر واپس چلے گئے ۔مگر برتھ برما سے جانے پر آمادہ نہ ہوا۔اس کی ماں کون تھی،بیوی بچے لندن میں کب سےمقیم تھے نہ ذاتی زندگی کے بارے برتھ نے کبھی تذکرہ کیا  اور نہ ہی سالم علی نے پوچھنا مناسب سمجھا۔برتھ برما میں معدنیات کا کاروبار جمانے اور پرندوں کے سنگ زندگی بسر کرنے کی تمنا میں اپنے ہی ہاتھوں ایک گولی کا شکار ہوا۔کچھ عرصہ بعد ہندوستان اور انگلستان کے درمیان بڑھتے ہوۓ فاصلوں کو دیکھتے ہوۓ سالم نے سائنسی بنیادوں پر پرندوں کی  ہجرت کے اعداد و شمار اور ان کوحنوط کرنے کا عمل سیکھنے کیلئے  جرمنی کا سفر اختیار کیا۔(اس وقت انگریز سامراج کے خلاف ہندوستان کے پڑھے لکھے بغاوت پسند ڈاکٹر ذاکر حسین اور سالم علی جیسے نوجوان جرمن ادارو ں میں پڑھنے کوترجیح دیتے تھے اقبال کے جرمنی  جانے کی اور وجوہات تھیں)۔

دوسری جنگ عظیم میں سنگا پور کے رہنے والے لوک وین تھو جب جان بچا کر سمندری راستے سے بمبئی پہنچے تو سالم علی سے ان کی حادثاتی طور پر ہونے والی ملاقات عمر بھر کی دوستی میں بدل گئی۔وین تھو نے اپنے شوق کی بنیاد پر دنیا عالم کو پرندوں سے متعلق کئی اہم معلومات سے روشناس کروایا۔

بمبئی کے طیب خاندان سے تعلق رکھنے والے سالم علی کی شادی مشہور جوہری سی۔ایم لطیف کی انگلستان سے تعلیم یافتہ بیٹی تہمینہ کے ساتھ 1918 میں انجام پائی۔تہمینہ سالم کے ساتھ کئی کئی ماہ مختلف پہاڑوں اور گھنے جنگلوں میں فطرت کے دلکش مناظر کو کشید کرنے میں مگن رہتی تھی۔شادی کے بعد سالم علی نے دہرہ دون میں ایک گھر خریدا۔خون میں پھیلنے والی زہر کی وجہ سے 1939 میں تہمینہ بھی نیل گگن کی مسافر ہوئی۔
تہمینہ کی وفات کے بعد سالم علی تمام عمر پالی ہل بمبئی کے وسیع و عریض بنگلے میں اپنے بہنوئی اور بہن کے ہاں مقیم رہے۔
ہندونستان کی ریاستوں کے علاوہ بیرونی ممالک سے بھی سالم علی کو پرندوں کے بارے جانکاری اور ریکارڈ مرتب کرنے کے لۓ موعو کیا جاتا۔وہ محکمہِ تحفظ جنگلی حیات ڈیلیو۔ڈبلیو۔ایف اور کئی بین الاقوامی تنظیموں کے کرتا دھرتا رہے۔
پدم پھوشن سمیت دنیا بھر کی درسگاہوں نے انہیں اعزازی ڈگریوں سے نوازا۔1986 میں وفات پانے والے سالم علی کی پرندوں سے متعلق کئی کتابیں دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی
سالم علی جو India’s birdman کے نام سے جانے جاتے ہیں سرحد کے اس پار بھی ان کے کام کی قدر کرنی چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ڈاکٹر مبشر حسن کی پاکستانی پرندوں پر مشتمل ایک کتاب یہاں پر بھی شائع ہوئی۔اس کتاب کی ایک کاپی میرے پاس موجود ہے مگر ہم کسی بھی طور سالم صاحب کی کتب سے اس کا تقابل نہیں کر سکتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply