• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بری خبر یہ ہے کہ حالات ویسے کے ویسے ہی رہیں گے۔۔۔عبید اللہ ڈھلوں

بری خبر یہ ہے کہ حالات ویسے کے ویسے ہی رہیں گے۔۔۔عبید اللہ ڈھلوں

قومی ریاست کے تین ستون ہوتے ہیں۔ عدلیہ، مقننہ، اور انتظانیہ۔ تاہم روس کے ٹوٹنے کے بعد کچھ دانشوروں نے ایک اور ستون مشترکہ سماجی اقدار کو بھی اس میں شامل کرنے کی بات کی تھی۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان سے قومی شناخت ایک حل طلب مسئلہ ہے۔ اب قومی شناخت کی غیر موجودگی میں پاکستان کوپہلے پہل ایک مذہبی ریاست اور بعد ازاں جلد ہی ایک سیاسی  اور سکیورٹی ریاست کی شناخت دینے کی کوششوں کا آغاز ہو گیا۔ اب کئی دہائیوں سے ایک مذہبی اور سکیورٹی ریاست کی شناخت کو نہ  تو عوام اور نہ  ہی عالمی سطح پر پذیرائی مل سکی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری ترجیحات عالمی رحجان کے مطابق نہیں تھیں۔ عین اس وقت جب اقوام سرمایہ دارانہ نظام کے تحت معاشی طاقت کے حصول میں مصروف تھیں۔ اور ایسے میں جمہوریت کے لبادے میں معاشی ریاست کا ظہور ہو رہا تھا۔ ہم اس وقت مذہب کے سائے تلے سرمایہ دارانہ اور جمہوریت کی مخالفت میں اپنی ایک الگ  شناخت بنانے میں مصروف تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ  تو ہم مکمل طور پر مذہبی ریاست بن سکے اور نہ  ہی (سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کی وجہ سے) معشیت کی کمزوری کے باعث ایک مضبوط فوجی قوت بن سکے۔

اس سارے دور میں ہم اکیلے ناکام ہونے والے ملک نہیں ۔ شمالی کوریا، ایران، مصر، لیبیا، شام، افغانستان اور افریقہ کے کئی ممالک شامل ہیں اس میں نائجیریا کی مثال سب سے اہم ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال یہ ملک ناکامی کی ایک اعلیٰ  مثال ہے۔ اور اس کی ناکامی کی وجوہات بھی ہم سے ملتی جلتی ہیں۔ ایسے میں بنگلہ دیش نے  پاکستان سے الگ ہو کر مذہب اور سکیورٹی کی راہ سے ہٹ کر جمہوریت اور معاشیات پر توجہ دی اور آج کوریا کے بعد اس کی ترقی کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔

اب ایسے میں ایک اور بات جو بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ ریاست کے تمام ستون اپنی اپنی حدود کے اندر رہ کر اپنا کام بہتر طریقے سے سر انجام دیں۔ میری رائے میں پاکستان ریاست کے تین ستونوں، عدلیہ، مقننہ، اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ملٹری باقاعدہ چھوتا ستون اور مذہب پانچوان ستون ہے۔ ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ میڈیا بالعموم ریاست کے ایک ستون ( جسے عوام کی نمائندگی کرنی تھی مکمل طور پر باقی ریاستی اداروں کے سامنے اسی طرح سے سر نگوں ہو چکا ہے جیسے اس ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں ڈھیر ہو چکی ہیں۔ کبھی کبھی میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی انگڑائی سے اب دل کی کوئی تار نہیں ہلتی بلکہ الٹا مایوسی ۔۔۔ مزید بڑھ جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا بڑا شور ہے۔ لیکن ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ عوام کی لڑائی نہیں۔ بلکہ یہ عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ ،ملٹری اور مذہب کے درمیان ایک نئے عمرانی معاہدے کے تحت اختیارات کی جنگ ہے۔ جب تک مزدور، طلبا، کسان، ورکنگ کلاس اورپڑھی لکھی مڈل کلاس اور چھوٹا اور درمیانے درجے کا تاجر اور صنعتکار۔۔ میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک بڑی اور واضع جدوجہد کا آغاز نہیں کرتے ،عوامی حق میں کوئی مثبت تبدیلی کی خواہش بدعت سے کم نہیں ہو گی۔

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply