• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سانحہ جڑانوالہ کے پس منظر میں ایک اعداد و شماری کھتارسس/ پاکستان میں مسیحیوں کے ووٹ /تحریر-اعظم معراج

سانحہ جڑانوالہ کے پس منظر میں ایک اعداد و شماری کھتارسس/ پاکستان میں مسیحیوں کے ووٹ /تحریر-اعظم معراج

پاکستان میں اقلیتوں کے ووٹوں کی تعداد جون 2022 کے الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق
3966336ہے جن میں ہندؤ 2073983جبکہ مسیحی 1708288ہیں باقی دیگر چھوٹی مذہبی اقلیتیں ہیں ۔۔مسحیوں کے ووٹ اسلام آباد میں38744اور پنجاب میں 1399468ہے۔ سندھ 2544731ہے. جبکہ خیبر پختونخوا میں33328 اور ،بلوچستان میں صرفِ 20761ہے ۔ یہ ووٹ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں جس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں ۔مسیحی ووٹوں کی تعداد ملک بھر میں صرف اٹھارہ یوسیز میں 25سے 40فیصد ہے ۔جبکہ صرفِ ایک یو سی یوحنا آباد ایسی یوسی تھی جہاں مسیحی ووٹرز کی بھاری اکثریت تھی ۔اب اس یوسی کو بھی دو میں تقسیم کرکے اس عقلمندی و ہوشیاری سے ایسا بنا لیا گیا ہے۔ اب یہاں بھی صرف 60فیصد ووٹرز مسیحی ہیں ۔ان یوسیز میں فہرست مندرجہ ذیل ہے ۔ 1.اسلام آباد
سندھ کراچی1.اختر کالونی2اعظم بستی3عیسی نگری4بھٹائی آباد5.لطیف آباد حیدرآباد آباد (یہ خبر مستعند نہیں ہے ۔)پنجاب 1یوحنا آباد 2.یوحنا آباد3.بہار کالونی4.کلارک آباد5.مارٹن پور ںینگسن آباد
6.فیصل آباد وارث پورہ7.چک نمب424.شانتی نگر9.امرت نگر10 ۔اسٹنوزاباد/روبنسن آباد 11.اوکاڑہ ان سترہ جنھیں مزید کھینچ تان کر 20تک پہنچایا جاسکتا ہے ۔۔ میں سے صرفِ دو یوسیز میں اکثریت ہے ۔۔جبکہ اوکاڑہ واحد ایسی یوسی ہے جہاں کا چیئرمین یوسی میں مسلم ووٹرز اکثریت ہونے کے باوجود صرفِ سیاسی نظریات پر جیتا ہے ۔ اس کے باوجود اقلیتی سیاسی ورکروں کو اقلیتی ووٹروں کی اس طاقت کو ذہن نشین کر نا چاہیے , کہ ملک بھر میں قومی اسمبلی کی 15سے20اور صوبائی اسمبلیوں کی 45سے 50نشستیں ایسی ہیں، جہاں اقلیتی ووٹرز کی تعداد فیصلہ کن ہے ۔۔۔
سانحات پر صدمے میں مبتلاء افراد، خاندانوں ،قبیلوں، مذہبی گروہوں اور قوموں کا ردِعمل فرق ہوتا ہے ۔ حالیہ سانحہ جڑانوالہ پر پاکستانی مسیحو کے انفرادی و اجتماعی ردِعمل فرق فرق ہیں ۔ کوئی صوبہ مانگنے کی باتیں کر رہا ہے ۔ انکے لئے شائد یہ اعداد و شمار کسی کام آسکیں ۔۔ کچھ کہتے ہیں ہجرت کریں ،ترقی یافتہ ممالک میں مسحیو کی ہجرتوں کے شواہد سو سال سے ملتے ہیں ۔۔پاکسانی مسیحو کی سب سے بڑی تعداد برطانیہ میں جو دوہزار گیارہ کے برطانوی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 17000تھی۔اس سے آج کے اعداد و شمار کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ امریکہ میں دو ہزار 21کے اعداد و شمار کے مطابق 10ہزار کے قریب لوگ ہیں ۔۔باقی یورپ ، نارتھ امریکہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور دیگر ممالک کا اندازہ سینہ گزٹ والی تحقیق سے یوں لگایا گیاہے ۔ کہ مسیحی تارکین وطن 100سال میں 50ہزار سے زیادہ ہجرت نہیں کرسکے جسکی سیکنڑوں وجوہات ہیں ۔جن میں غربت ،افلاس، جہالت ، چندہ مافیاز پر انحصار کا کلچر اور تاریخ کے جبر کی بدولت نس نس میں رسی تاریخی بزدلی پہلے نمبروں پر اور حب الوطنی شائد آخری وجہ ہوگی ۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ ہو جانا چایئے، ویسے ماضی قریب کی ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک کا مطالعہ بھی سبق آموز ہوسکتاہے ۔۔۔کہ اگر کوئی صرف چاہے جتنے مرضی نیک نیتی سے یہ ہی حل تجویز کرتا ہے، تو پچاس لاکھ لوگ یہ مقصد کتنے ہزار سالوں میں حاصل کریں گے۔ یہ اندازہ حساب کتاب میں ذرا سا بہتر دسویں پاس بچہ بھی لگا سکتا ہے ۔۔اسی طرح دیگر کئی حل تجویز کئے جارہے ۔۔ کوئی آغا خانی ماڈل ،تو کوئی قدیم اسرائیلی ماڈل ، یقینا سب لوگ نیک نیت ہیں پرخلوص ہیں ۔۔ جب تک جسم اور روح کا رشتہ قائم رہتا ہے ۔جسم آسانیاں ڈھونڈتا ہے ۔بہتر مستقبل کے لئے ہجرت کرنا بری بات نہیں،اسکے لئے راہنمائی کرنا بھی اچھا اقدام لیکن یہ منترہ نکلو،نکلو یہ جہنم ہے۔ یہ بات شائد اجتماعی نفسیات کے لئے بہت ہی مضر ہے ۔ اجتماعی مفادات کے حصول کے لئے معروضی حالات و واقعات کا ادراک اپنے لئے درپیش مسائل دستیاب موقعوں ،اپنی طاقتوں توانائیوں کا صحیح تخمینہ اپنے وسائل کی صحیح مینجمنٹ ، کئے بغیر ممکن بھی نہیں اور اپنے اجداد کی سرزمین پر شان اور عزتِ سے جینے کی سبیل نہیں ہوسکتی۔ ۔ایک پرخلوص نوجوانوں کا گروپ طالب علموں کو اسکالرشپ یا اسپانسر شپ کے لئے سنجیدگی سے کوشاں ہے۔ کچھ تو ہجرت پر اتنے قائل ہیں کے وہ ڈونکی طریقہ ہجرت کو گلوری فائی کر رہےہیں ۔ جبکہ زمینی حقائق ہیں یہ ہیں کہ وسطیٰ پنجاب کے جس زمین جائیداد والے اور خاندانی آمدن والے یہ مہنگا اور خطرناک راستہ اپناتے ہیں اس حثیت کا مسحیی پاکستانی معاشرے اور مسیحی سماج میں اچھا خاصہ عزتِ دار کہلاتاہے ۔ جب کہ ہمارے پاس محرومیوں کی سوداگری کرنے والے تارکین وطن مسیحو کے علاؤہ بہت ہی عاجز قسم کے خاندانی پس منظر رکھنے والے مسیحی تارکین وطن کی بے تحاشا بڑی ہی عزتِ دارانہ مثالیں ہیں ۔میں ایسے سیکنڑوں سول سروسز اور افوج پاکستان اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو جانتا ہوں ۔جنھوں نے پستیوں کے گھپ اندھیروں سے نکل کر اس معاشرے میں بھی ترقی کی بلندیوں کو چھوا اور آج یورپ امریکہ میں بھی شعبدہ بازی اور محرومیوں کی سوداگری کے علاؤہ پیشوں سے منسلک ہیں۔۔۔ لہذا کسی بھی ماڈل کو گلوری فائی کرنے سے پہلے یہ ضرور دھیان رہے۔۔ کہ اس کے اثرات پچاس لاکھ لوگوں کی نفسیات پر کیا پڑے گے ۔۔۔مجھے اب تک اس ضمن میں جس کوشش نے سب زیادہ متاثر کیا ہے۔وہ پریسبٹرین چرچ کی انتظامیہ کے جڑاوالہ میں اسکول کے قیام کا اعلان ہے ۔ دوسرے نمبر پر اسی طرح ایک مکتبہ فکر ایف سی کالج یا دیگر ایسا کوئی ادراہ اگر ہے تو؟ وہاں اسکالرشپ کے لئے انڈومنٹ فنڈ کے قیام کا آئیڈیا پیش کررہا ہے۔۔ یہ بھی ایک شاندار خیال ہے ۔۔۔اس سے کم وسائل سے زیادہ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔۔ ۔ ان خیالات سے متاثر ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں نے کسی بھی معاشرے میں چھوٹے طبقات کے لئے طاقت کے مراکز سے حقوق حاصل کرنے کے چھ عناصر ، کا بخوبی مطالعہ کے ساتھ پاکستانی مسیحو کا تجزیہ طکمخ بھی تفصیل سے کیا ہے ۔۔جسکا نچوڑ یہ ہے کہ ان چھ میں ایک دو عناصر ہمارے پاس وافر ہیں انھی کی بنیاد پر ہم دیگر چار کے معاملے میں بھی خؤد کفیل ہو سکتے ہیں نیک نیتی سے مظلوموں کے معاشرتی , سماجی ترقی کے لئے کوشاں دنیا بھر میں پھیلے مسحیو کے لئے نیک تمنائیں ۔۔ اور کامیابی کے لئے ڈھیروں دعائیں۔۔۔ لیکن ایسی کوششیں کرتے ہوئے ۔یہ بات دھیان میں رہے کہ معاشرتی بیگانگی کی طرف دھکیلتی کوئی بھی کوشش ان چالیس پچاس لاکھ لوگوں کی اجتماعی نفسیات کے لئے تباہ کن ہوسکتی ہے ۔۔میں یہاں اپنی طرف سے کوئی مخصوص رائے دینے کی بجائے ایسے واقعات کے پس منظر کو سچائی سے بیان کرنے کی ضرورت کی بھی نشان دہی کرؤں گا ۔۔ یہ سچائی بھی ایسے واقعات کے روک تھام کے کام آسکتی ہیں۔ کیونکہ کسے سیانے کا قول ہے” جہاں جھوٹ،فریب اور مکاری عام ہوجائے وہاں سچ ہی فکری انقلاب کی پہلی سیڑھی ہوتا ہے۔۔ اور فکری انقلاب ہی دیگر انقلابات کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔۔” ہمیں فکری و مذہبی انارکیوں کے ایسے منبع رویوں اور جھوٹے بیانیے والے افراد و ادارں پر بھی غور کرنا ہوگا۔جو ہماری اس معاشرے میں اجتماعی ترقی و بقاء کے لئے درپیش بیرونی معاشرتی خطرات سے کئی گنا زیادہ خطرناک و مضر ہیں۔۔ اس دور میں ایسے لوگ یا ہم آپس میں جھوٹ بول کر اپنی انفرادی یا اجتماعی خؤد فریبی سے اپنا شائد کوئی انفرادی مقصد یا آنا پرستی کی تسکین کا سامان تو کرسکتے ہیں ۔۔ لیکن اس ترقی یافتہ دور میں اجتماعی مفادات کا حصول بہت مشکل ہے ۔۔ المیہ یہ بھی ہے ۔۔کہ ایسے لوگ بظاہر ہماری بھلائی کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔۔ ۔آخر میں 25سال کی مسلسل عرق ریزی سے تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے ترتیب دیا گیا فلسفہ اسلیے یہاں نقل کررہا ہوں ۔۔۔کے شائد آپکے کسی بھی طرح کے منصوبے کی ترقی میں یہ فکر معاون ثابت ہو ۔
’’کسی بھی ملک قوم ومعاشرے میں کوئی ایسی کمیونٹی/اقلیت جو کسی بھی اعتبار سے مثلاً مذہب ،رنگ ،نسل، مسلک، پیشے، جنس اورزبان کے لحاظ سے اقلیت میں ہواور اس وجہ سے اس گروہ کو امیتازی سماجی رویوں یا دیگر ایسے تعصبات کا سامنا ہو۔ایسا گروہ اگر ردعمل میں معاشرے سے بیگانہ ہو کر معاشرے سے کٹ جائے۔تو ایسے انسانی گروہ اپنے آپ پر ایسے معاشروں میں انفرادی واجتماعی ہر طرح کی ترقی کے ہزاروں راستے خود ہی بند کرلیتے ہیں۔جسکا نتیجہ صدمے سے دائمی فرار کی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہونے کا نکلتا ہے اور اگر فرار کی راہیں بھی دستیاب نہ ہوں تو معاشرتی بیگانگی کا یہ مرض انہیں گہری پستیوں میں لے جاتا ہے۔لہٰذا کسی بھی معاشرے میں اپنی ایسی شناخت جسکی بنیاد پر ان سے تعصب برتا جارہا ہو۔اسے فخر سے قائم ودائم رکھتے ہوئے معاشرے میں انضمام integration سے اپنی عزت دارانہ بقاء کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔‘ ‘
اسی صورت حال سے نبردآزما پاکسانی مسیحو کی معاشرتی بیگانگی کو کھوجنے اور اسکے سدباب کے حصول کے لئے تحریک شناخت کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔۔
اگر یہ فکر کسی بھی طرح کے آپ کے پروجیکٹ کی کامیابی کے کام آئے تو یہ خوشی کی بات ہوگی ۔پاکستانی معاشرے کے معروضی حالات میں یہ عزتِ دارانہ بقاء خؤد احتسابی و خود انحصاری کو جنم دیتی اجتماعی خود آگاہی اجتماعی سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔پ۔ اجتماعی تجزیہ طکمخ ۔ پاکستان کے معروضی حالات میں درپیش مسائل دستیاب موقعوں کے درست تخمینے کے بعد تعلیم تربیت کے ساتھ اپنی مذہبی شناخت کو برقرار رکھتےہوے سماجی و سیاسی نظام کا متحرک حصہ ہوکر حاصل ہوسکتی ہے۔۔ غرض ایسی دیگر سینکڑوں سمتوں کی طرف جزباتی ہوئے بغیر سوچ بچار سے ممکن ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے ۔۔وہ سماجی آگاہی کی ایک فکری تحریک کے بانی رضا اور 20کتب کے مصنف ہیں ۔جن چار رئیل اسٹیٹ کے موضوع پر جن میں نمایاں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار اور 15کتب تحریک شناخت کے اغراض ومقاصد کے حصول کے لئے ہیں ۔جن میں نمایاں” دھرتی جائے کیوں پرائے”، شان سبزو سفید ، پاکستان کے مسیحی معمار ،کئی خط اک متن ، اور شناخت نامہ دی آئی ڈنٹنٹی ہیں.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply