ذہانت (34) ۔ مسافر یا پیدل؟/وہاراامباکر

فرض کریں کہ مستقبل میں آپ ایک خودکار گاڑی میں سفر کر رہے ہیں۔ سگنل سرخ ہو گیا۔ گاڑی نے بریک لگائی لیکن کسی مکینیکل خرابی کی وجہ سے بریک فیل ہو گئی۔ گاڑی کو روکا نہیں جا سکتا۔ ٹکر ہو جانا ناگزیر ہے۔ گاڑی نے انتخاب کرنا ہے کہ کیا کیا جائے۔ اسے گھما کر ساتھ لگی دیوار پر دے مارا جائے۔ اس کا مطلب مسافر کی یقنی موت ہو گا۔ یا پھر چلتے رہا جائے؟ اس صورت میں سڑک پار کرنے والے کچھ پیدل لوگوں کو کچل دینا ہو گا؟ گاڑی کو پروگرام کیسے کیا جائے؟ اس فیصلہ کا معیار کیا ہو کہ کس کی جان بچانی ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ، اس بارے میں آپ اپنی رائے رکھتے ہوں گے۔ شاید آپ کی رائے یہ ہو کہ زیادہ سے زیادہ انسانی جانیں بچا لینا مناسب ہو گا۔ یا پھر یہ کہ اس صورت میں کنٹرول گاڑی کے مسافر کے سپرد کر کے مشین اس فیصلے سے سبکدوش ہو جایا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ سوال تھا جو کہ 2016 میں مرسڈیز کے ڈرائیور اسسٹ سسٹم کے منیجر کرسٹوفر وون ہیوگو سے کیا گیا۔
مرسڈیز کی اس بارے میں پوزیشن واضح ہے۔ “گاڑی میں بیٹھے شخص کو بچانا ہو گا۔ اگر آپ یقین کے ساتھ یہ بتا سکتے ہیں کہ کم از کم ایک جان بچائی جا سکتی ہے تو یہ پہلی ترجیح ہو گی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس انٹرویو سے اگلے دنوں میں انٹرنیٹ مرسڈیز پر تنقید سے بھرا پڑا تھا۔ اس پر “سائنس” جریدے نے ایک سروے کیا جس میں 76 فیصد لوگوں نے رائے دی کہ یہ فیصلہ غلط ہو گا۔ خواہ گاڑی کے مسافر کو جان سے ہاتھ دھونا پڑیں لیکن درست فیصلہ زیادہ سے زیادہ جانیں بچانا ہے۔
مرسڈیز کی رائے عوامی رائے کے غلط سمت میں تھی۔
لیکن کیا واقعی؟
جب اسی سٹڈی نے سوال بدل کر لوگوں سے پوچھا کہ کیا وہ ایسی گاڑی خریدیں گے جو کہ موقع کی مناسبت دیکھتے ہوئے آپ کو مار دینے کا فیصلہ بھی کر سکتی ہو؟ تو لوگ کسی “بڑے مقصد” کی خاطر اپنی جان دینے سے گریزاں پائے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ مخمصہ آراء کو تقسیم کرتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کے رپورٹرز اور صحافیوں کا پسندیدہ سوال ہے۔ جبکہ وہ لوگ جو کہ خودکار گاڑیوں کے ماہر ہیں، وہ اس کو بے کار سوال تصور کرتے ہیں۔
لیکن اس کی اہمیت ہے۔ ہر نئی ٹیکنالوجی کی طرح طاقت، توقع، ذمہ داری، اتھارٹی کے سوال جنم لیتے ہیں۔
لیکن ماہرین کا نکتہ بھی درست ہے۔ انہیں اس بات کا عام لوگوں کی نسبت بہتر احساس ہے کہ ہم سیفٹی کے موضوع پر یہاں تک پہنچ جانے سے ابھی بہت دور کھڑے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply