• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عرب قصّہ گوئی کا فن اور ہمارے مذہبی خطباء و موٹیوشنل سپیکر/منصور ندیم

عرب قصّہ گوئی کا فن اور ہمارے مذہبی خطباء و موٹیوشنل سپیکر/منصور ندیم

برصغیری سماج میں مسلمانوں کو دین کی اک الگ تشریح و تعبیر وضع کرکے دکھائی جاتی ہے، ہمارے ہاں منبر سے لے کر قصہ گو خطباء مقبول ہیں، جو ماضی کے مقبول بزرگوں کے نام پر مبالغہ آمیز کہانیاں سنا سنا کر ہر وقت آپ پر تقویٰ  و تصوف و تزکیہ نفس کا رنگ چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اصلا ً وہی ان کی مجموعی قابلیت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ طریق اتنا مقبول ہوگیا ہے کہ لوگوں نے دین بھی اسے ہی سمجھ لیا ہے اور ایک نئی مخلوق موٹیوشنل سپیکر کے نام سے بھی وضع ہوکر سامنے آئی ہے جو اپنی کہانیوں میں مذہبی چورن کا سہارا لیتے ہیں۔ حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سختی سے اس امر پر پابندی لگائی تھی کہ منبر پر کسی قصہ گو واعظ کو اجازت نہ دی جائے۔ کیونکہ قصہ گوئی کا فن زمانہ قبل از اسلام سے ہی عرب میں ایک فن کی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن قصہ گوئی میں عموماً مبالغہ آمیزی ہی ہوتی ہے۔

بنیادی طور پر قصہ گوئی ایک قدیم روایت ہے، اسی کا شاخسانہ ہمارے ہاں ماضی قریب میں گلستان بوستان، داستان الف لیلہ وغیرہ ہیں، یہ ماضی میں انسانی تفریح کا سبب تھا، مگر ہم نے اسے مذہبی متون سمجھ لیا ہے، مانا کہ برگزیدہ بندے جیسے بایزید بسطامی، جنید بغدادی و رابعہ بصری اپنے عہد کے نیکو کاروں میں سے تھے، جیسے کوئی چالیس برس ایک وضو سے عشاء سے فجر پڑھ رہا ہے، کوئی مردے کو زندہ کررہا ہے، کوئی کسی کی عبادت دیکھ کر کوئی شیخ چیخ مار کر غش کھا رہا ہے، کوئی نیک دل بادشاہ کسی فقیر کو آدھی سلطنت دے رہا ہے، آپ خود سوچیں کہ آج آپ کے بیڈ روم میں دس قدم پر آپ نلکے سے وضو کرلیتے ہیں آپ جتنا بھی مالی استعداد رکھتے ہوں، آپ کتنے برس تک اتنی آسان زندگی میں عشاء کے وضو سے فجر پڑھ سکتے ہیں، جبکہ زمانہ قدیم میں تو زندگی اتنی آسان بھی نہ تھی، لوگ گندم و باجرہ روزانہ کا خود پیستے تھے، نہ چولہے جلانا اتنے آسان تھے، لکڑی کاٹ کر جلا کر چولہا جلتا تھا، گندم پیس کر کھانے کی تیاری ہوتی تھی، پانی کنوؤں سے لانا پڑتا تھا ان حالات میں لوگ کیسے یہ معاملات کرسکتے تھے۔

میں آج تک سینکڑوں عربوں سے ملا مجھے آج تک کسی عرب سے ان کرداروں خصوصا ً رابعہ بصری، جنید بغدادی و بایزید بسطامی کے متعلق کچھ معلوم نہ ہوسکا، ہمارے ہاں ان سے منسوب کئے گئے عجیب عجیب واقعات کو مولوی اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں، جبکہ اہل عرب کے ہاں یہ فقط مبالغہ آمیز سبق آموز قصہ گوئی کی کہانیاں ہہں، جو ان کی تفریحات کا سبب تھیں، لیکن ہمارے ہاں ماضی قریب میں انہیں مذہبی متون کا حصہ سمجھا جانے لگا ہے۔ ویسے بھی قصہ گوئی کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ اتنی ہی قدیم معلوم ہوتی ہے جتنی کہ نطق انسانی کی تاریخ، یعنی اس روئے زمیں پر جب سے انسانوں نے بود باش اختیار کیا یہ فن کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا ہے۔ جب انسانوں کے پاس وسائل محدود تھے تو انسانوں کےپاس وقت گزارنے، ذہنی و جسمانی تھکان کو دور کرنے کے ذرائع بہت محدود تھے۔ آج کل کی طرح مختلف قسم کے کھیل کود، سیر و تفریح کے لیے خوبصورت مقامات تک رسائی، موسیقی وغیرہ اس طرح میسر نہیں ہوا کرتی تھی۔ نہ ادبی محفلیں سجا کرتی تھیں اور نہ ہی شعر و شاعری کی مجلسیں منعقد کی جاتی تھیں۔ روز مرہ کے معمولات میں گَلہ بانی اور اپنے کھیتوں کام کاج کرنا شامل تھا۔ دن بھر کام کرکے شام میں جب سب اکٹھا ہوتے تو ان میں کا ایک شخص جو عموماً بڑی عمر کا ہوتا تھا ، ان کی ذہنی تکان کو دور کرنے کے غرض سے قصے اور کہانیاں سناتے تھے۔ آج بھی عرب میں قصے قہوہ خانوں پر مقبول ہیں ، مگر صرف تفریح کے لئے شام دمشق بغداد، الدرعیہ مکہ غرض پورے عرب میں یہ سب ایک تفریح کے طور پر ہوتا ہے۔

ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں” حکمائے یونان کے بقول قصہ گوئی کا فن شاعری اور موسیقی کی دیویوں سے بھی قدیم تر ہے۔ ممکن ہے بعض لوک کہانیاں پانچ ، دس ہزار سال پیشتر وجود میں آچکی ہوں” قصہ گوئی اور داستان کا فن اردو زبان میں عربی اور فارسی کے توسط سے پہنچا ہے۔ عربی کے مشہور افسانے الف لیلہ، السندباد، حاتم طائی کو تراجم کے ذریعے اردو میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ عربوں میں زمانہ جاہلیت میں یہ فن بہت مقبول تھا ڈاکٹر گیان چند دوسری جگہ لکھتے ہیں” عرب میں داستان گوئی باضابطہ ایک فن تھا جو عہد جاہلیت میں عروج پر تھا۔ چاندنی رات میں کھانے کے بعد شائقین حضرات ریت پر اکٹھا ہو جاتے تھے،سامر (قصہ گو) قصہ سناتا تھا اجرت میں اسے کھجوریں دی جاتی تھیں”(اردو کی نثری داستانیں،ص:41)

یہ عرب سے منتقل ہو کر ایران پہنچا وہاں اس نے فارسی لبادہ اختیار کیا پھر ایرانی تجار اور سیاحوں کے ذریعہ اس نے ہند کی سرزمین پہ قدم رکھا۔ اردو داں طبقہ نے اس فن کا پر جوش اور پر تپاک انداز میں آگے بڑھ کر استقبال کیااور اسے عروج و بلندی کے معراج پر پہنچایا۔

قصہ گوئی کی روایت بہت قدیم ہے۔ عہد قدیم میں قصے حکایتوں اور داستانوں پر مشتمل ہوتے تھے۔ لیکن ہمارے برصغیری سماج میں مسلمانوں کے پاس دین کی تفہیم ان قصہ گوئیوں کی بنیاد پر زیادہ انحصار کرتی ہے جو عربوں کے عہد میں اک تفریح تھی، دین تو بالکل نہیں تھا، لیکن ہماری سماجیات میں ہم نے اسے بطور ایک دینی ماخذ کے طور پر تقلید بنا لیا، ہم نہ صرف تقلید کرتے ہیں بلکہ ان قصے کہانیوں کو دین سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ماضی بعید سے لے کر قصہ گوئی یا داستان گوئی ایک تفریح کا سبب تھا، موجودہ دور میں ہو سکتا ہے کہ عربوں میں کچھ قصہ گو موجود ہوں، تاہم قصہ سنانے کی روایت ختم ہو چکی ہے یا پھر یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ صرف آج کل عرب دنیا میں ماہ رمضان اپنے ساتھ صدیوں پرانی تہذیب، رسم و رواج اور بھولی بسری یادوں کو بھی لاتا ہے۔ معروف مورخ ابن جبیر اور سیاح ابن بطوطہ نے رمضان کے دوران قصہ گوئی اور عوام و خواص کی بیٹھکوں کے رواج کا تذکرہ کیا ہے۔

سعودی عرب میں پروفیسر لئیق احمد کا ایک انٹرویو دیکھا جس میں انہوں نے بتایا کہ
اسلام کے ابتدائی دور میں رمضان کے دوران مجلسوں کا آغاز ہوا تھا، صحابہ اسلام سے قبل کی زندگی کے قصے سناتے تھے۔ جگ بیتی اور آپ بیتی کے تذکرے کرتے۔ پیغمبروں اور نبیوں کے واقعات اور پچھلی اقوام کی حکایات بیان کیا کرتے۔ اس زمانے میں عبداللہ بن سلام سب سے نامور قصہ گو تھے۔ دوسرے دور کے قصہ گو افراد میں وھب بن منبہ، طاووس بن کیسان اور موسی بن سیار کے نام آتے ہیں۔ عمر بن خطاب کے عہد خلافت میں عید بن عمر پہلے قصہ گو مانے جاتے ہیں۔ایک زمانہ تھا جب بغداد کی سڑکیں قصہ گو افراد سے آباد ہوتی تھیں۔ معروف کتاب الف لیلہ و لیلہ اسی طرح کی قصہ گوئی کا ثبوت ہے۔عربی ادب میں بھی اس کے تذکرے ملتے ہیں۔ عربی ادب میں قدیم قصہ خوانوں کا ذکر آئے تو پہلا نام ابو دھبل کا آتا ہے، جس کا اصل نام وھب بن زمعہ تھا۔ اس کا دور پہلی صدی ہجری کے نصف اول کا ہے۔ پھر المحاکی کے نام سے دلچسپ کہانیاں اور قصے بیان کرنے والوں نے بھی اپنا نام بنایا۔

اس میں دو ٹیمیں جمع ہو جاتیں، قصہ گو عجیب و غریب کہانیاں، چٹکلے، لطیفے اور دلچسپ نکتے بیان کرتے تھے۔ معروف عرب ادیب جاحظ نے اپنی کتاب ’البیان والتبیین‘ میں متعدد قصہ گو افراد کا ذکر کیا ہے۔ ابو دبدوبہ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ وہ بغداد کے العباسیہ علاقے میں جو اس وقت باب الکرخ کہلاتا تھا، خچر کی آواز اس قدر مہارت سے نکالتا تھا کہ اس پر اصل کا گماں ہوتا۔

عباسی دور کے قصہ گو خراسان، حبشہ اور سندھ سے آنے والوں کی نقلیں بھی اتارا کرتے تھے۔ رمضان میں عوامی بیٹھکیں ایک طرح سے رت جگے تھے۔ رمضان میں قصہ گوئی کے فن کو گیارہویں صدی عیسوی میں عروج حاصل ہوا۔ پھر سنہء 656 میں سقوط بغداد کے بعد یہ فن بھی ختم ہوگیا۔

یہ قصہ گوئی فقط ایک تفریحی ایونٹ ہوتا تھا ، جس میں قصہ گو فرضی کہانیاں بھی سناتے تھے، تاریخی واقعات اور شہسواروں کے جنگی کارناموں کی کہانیاں بھی سناتے تھے، جس میں قصہ گو آواز کے اتار چڑھاؤ اور ایکشن کے ساتھ قصے کہانیاں سناتے تھے ،عوامی کہانیاں رنگ بھر کر پیش کی جاتی تھیں، عرب صحرا میں جنم لینے والی پیار و محبت کی داستانوں، قومی جرات، بہادری، خود داری، مہمان نوازی کی کہانیاں سننے کے لیے لوگ جمع ہوتے تھے، قصہ گو آخر میں کسی ایک ایسے واقعے کا انتخاب کرتا جس کا عنوان سن کر وہاں موجود لوگ چونک اٹھتے اور قصہ گو تجسس برقرار رکھنے کے لیے آئندہ رات کہانی سنانے کا وعدہ کرکے اٹھ جاتا۔ آج بھی سعودی عرب میں ہر سال ماہ رمضان میں قدیم سعودی دارالحکومت الدرعیہ گیٹ ہے، ’رمضان کی راتیں‘ کے عنوان سے ہونے والے میلے میں ’قصہ گوئی‘ پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مکہ مکرمہ میں بھی (مزدلفہ) میں پیدل حج کرنے والوں کی شاہراہ پر رمضان فیسٹیول لگتا ہے۔ جس کا اہتمام مکہ اور مشاعر مقدسہ رائل کمیشن کرتا ہے۔ فیسٹیول کا خاص پروگرام (المرکاز) کہلاتا ہے۔ وہاں بھی پرانے قصے اور کہانیاں دلچسپ انداز میں سنائی جاتی ہیں۔ جسے آپ ہمارے اسٹیج ڈرامے سمجھ لیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے ان اسٹیج ڈراموں اور راویوں اور قصہ گوئی کے سارے لٹریچر کو دین سمجھ لیا ہے، ہمارے کئی پاکستانی احباب جو آج بحرین و سعودی عرب میں بھی رہتے ہیں وہ اپنا پورا کام انتہائی دیانتداری سے ان سبق آموز فرضی کہانیوں کو ترجمہ کرکے قوم کی اصلاح کرنے اور اپنے تئیں اسے دینی فریضہ سمجھ کر وقت کا ضیاع تو کرہی رہے ہیں، بلکہ مذہب کی خدمت بھی سمجھتے ہیں، اپنے آس پاس دیکھ لیں، بیسیوں لوگ روزانہ کی بنیاد پر عرب سماجیات میں پیش کیئے جانے والے ان فرضی قصوں کو مذہبی حقائق کے طور پر پیش کرتے ہیں، حالانکہ وہ اس کلچر یا مذہب کی سماجیات میں ایک تفریحی متن ہوتا تھا، جسے ہم نے تقوی و تصوف کا راستہ بنا لیا ہے۔ یقیناً  ان قدیم قصے کہانیوں کی افادیت اور تعمیری حیثیت جو بھی ہو لیکن ان کی تاریخی حیثیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن اسے ہماری سماجیات میں مذہب کا ماخذ سمجھنا یقیناً ایک گمراہی ہے اور اسے اس طور پر پیش کرنے والے میری نظر میں مجرم ہیں۔ یہ لوگ اپنی موٹیوشنل باتوں سے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ان قصوں یا ان قصوں کی بنیاد پر ایک بیانیہ تخلیق کرکے اپنا مخصوص مفادات بھی حاصل کرتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply