مرنے والے خواجہ سرا کا ماں کے نام آخری خط۔۔۔۔سخاوت حسین

 میری پیاری ماں! میں یہ بھی نہیں جانتا کہ تو کہیں موجود تھی اور تو کہیں موجود بھی ہے۔ میں تیرے وجود سے نکلا ہوں مگر اب کہیں موجود نہیں ہوں۔ ماں میں یہ بھی نہیں جانتا کہ ماں ہوتی کیا ہے۔؟ مگر آگ کی تپش میں مجھے تم ہی یاد آئیں۔ میں اپنا آخری خط تمھیں ہی لکھ رہا ہوں کیوں کہ تم نے مجھے جنم دیا تھا۔ تم مجھے دنیا میں لائی تھیں۔ مجھے  ان حیوانوں سے آشنا تم نے ہی کیا تھا۔ ۔۔

سنو !مجھے جنم دینے والی ماں! مجھے سڑک کی خاک چھاننے کے لیے چھوڑ دینے والی  ماں! کل جب ساہیوال  سبزی منڈی   میں ایک بے قصور خواجہ سرا کو پیٹرول چھڑک کر آگ لگائی گئی تب اس کا پورا وجود بھی اس آگ کی راکھ میں بے نام ونشان ہوتا جارہا تھا۔ ماں! تب وہ انتقام ، نفرت اور انسانوں کے تعصب کی آگ میں بھی جل رہا تھا۔ اس کے جلے ہوئے چہرے نے سماج کے مکروہ چہرے دیکھ لیے تھے۔ اس کے کانوں نے روز گالیوں سے بھرے ہونٹوں کی اذیت سہی تھی۔ اس کے ہاتھوں نے انسانوں کی حیوانیت دیکھ لی تھی۔ ماں روز تالی بجاتا در در پر چند روپوں کے لیے بھٹکتا  خواجہ سرا کل اپنی تالی میں ہی کہیں گم ہوگیا۔

کہتے ہیں کل اس کی لاش جل رہی تھی اور انسان تالی بجا رہے تھے اور کہتے ہیں کل اس کا تماشا موت کا تماشا تھا۔ کل کچھ حیوان  خواجہ سراؤں نے ایک انسان کی موت کا تماشا دیکھا۔ ماں مجھے علم ہے خواجہ سرا انسان نہیں ہیں۔ مجھے تمھارے ڈھکوسلے اور انسانوں کے سڑک پر سرانڈ کی طرح پھیلتے ہوئے نعروں کی چنداں ضرورت نہیں۔ میرا جسم ہسپتال کے گرم بستر پر موت کی سرد وادی میں سوچکا ہے۔ جب میرے زندہ وجود کو سٹریچر پر لادا جارہا تھا تب میری سسکیاں آسمان میں قدرت سے سوال کر رہی تھیں کہ میرا جرم کیا تھا؟ میری آہیں کلف زدہ انسانوں کے گندے وجود سے اتنی نفرت کا اظہار کررہی تھیں جتنا وہ مجھے جلاتے وقت کررہے تھے۔ میری جلی آنکھیں ان کے بدنما چہروں سے کتنی دور ہٹ چکی تھیں۔ میری گھائل زبان جو چند روپوں کی خاطر دعائیں اور نیک خواہشات کا راگ الاپتی تھیں وہ بھی اسی آگ میں جل گئیں جہاں انسان بے توقیری کی انتہا  پر ظلم کی کرسی پر اذیت کا ڈنڈا لے کر بیٹھا تھا۔

ماں! میری لاش ہسپتال کے فرش پر انسانوں کی طرف سے انصاف کی منتظر رہی۔ میری گھائل روح بکھرتے جسم کو خود ہی سہارا دے رہی تھی۔ ہسپتال کے معتبر انسان جب مجھے جلا ہوا کہہ کر انصاف کو بھی اسی جلے ہوئے ڈسٹ بن میں پھینک رہے تھے تب میں سراپا سوال تھا کہ خواجہ سراوں کو شاید تقدیر کا بھی کوئی سرا نہیں ملتا۔ انہیں مایوسی کے کنارے ہی نصیب ہوتے ہیں۔ ماں میری موت کو سانحہ بھی نہیں سمجھا گیا۔ ساہیوال  میں بے قصور خواجہ سرا کو جھلستی آگ میں انصاف بھی جلا ہوا ہی نصیب ہوا۔ اس بد نصیب کے قتل کا مقدمہ تک درج نہیں کیا گیا۔ تم سوچتی ہو گی کہ میں روز کیا کرتا تھا۔

تو سنو !روز صبح مارکیٹ میں، کسی سگنل پر، کسی چوک میں یا کسی گھر کے دروازے پر تالی بجا کر اپنے غموں کو اپنی ذات میں دفن کرکے گدھ نما انسانوں کے آگے ہاتھ پھیلاتا تھا  ۔ روز ہی کئی گالیاں، طعنے، برے الفاظ سن کر بھی پیٹ پالنے کے لیے انہی کے آگے سراپا سوال ہونے والا خواجہ سرا تو کب کا مرچکا ہوتا تھا۔ مگر اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے وہ ہونٹوں پر دعائیں سجائے ہر دروازے پر امید کا دیا جلائے جاتا تھا۔ میک اپ کی بھاری تہہ چہرے پر سجائے منافق انسانوں کے درمیان زندگی سے لڑتے لڑتے وہ اکثر تھک جاتا تھا۔ کل انسانوں نے اسے آخری تماشہ دکھانے کو کہا تھا۔ انسان کہتے تھے وہ زندگی کے سامنے موت کا رقص دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اسے غم کی بارش میں نہلا  دیا اور جب اس کا وجود جلنے لگا ،ماں ! تب اس کی فریادیں، چیخیں، درد اور آہ وپکار ان کے قہقہوں اور گالیوں میں کہیں کھو سی گئیں۔

وہ خواجہ سرا میرے اندر مر چکا تھا کل وہ انسانوں کے درمیان بھی مرگیا۔ تم نہیں جانتی ہو کہ کل اس نے آخری تماشا دکھایا تھا۔ اس پر بہت سارا پیٹرول چھڑک کر اسے آگ لگادی گئی تھی۔ اس کی چیخیں بلند ہورہی تھیں۔ اس کا وجود جل رہا تھا۔ موت کا رقص دیکھنے والے   حیرت سے اسے تک رہے تھے۔ وہ تالیاں بجا رہے تھے۔خواجہ سرا مر رہا تھا۔ اس کا جسم آگ کی حدت میں شدت کے ساتھ جل رہا تھا۔ اور تیز اور تیز۔۔۔پیٹرول ڈالتے انسان مزید پیٹرول چھڑکتے جارہے تھے۔ جانتی ہو ماں! پھر تماشا رک گیا۔ ہاں تماشائی بھی رک گئے۔شاید تماشا ہی ختم ہوچکا تھا۔ اسے وہیں پھینک دیا گیا۔ وہ انسان ہی کب تھا۔ اس کی نخیف سی آواز ، اس کا لرزتا جسم، اس کا جلا ہوا چہرہ ماں تم دیکھتی نا تو لرز سی جاتی۔تم سوچتی کہ برسوں پہلے ہسپتال کے بستر پر جنم لینے والا بچہ کیا آگ میں جلنے والا خواجہ سرا ہی تھا۔ آگ کے بلند شعلوں میں انسانی رویوں  کے ہاتھوں جلنے والا کیا وہی معصوم بچہ تھا جسے تم نے نو ماہ پیٹ میں رکھ کر جنم دیا تھا؟ ماں تم نے مجھے جنم ہی کیوں دیا؟ اگر جنم دینا تھا تو مار ہی کیوں نہیں دیا؟ شاید تب کی موت اس آگ میں جلنے سے کم اذیت ناک ہوتی۔

ماں میرا کیا قصور تھا؟ مجھے کس چیز کی سزا ملی؟ کاش ماں تُو حیوانوں کے معاشرے میں ایک خواجہ سرا کا پیدا ہوتے ہی گلہ گھونٹ دیتیں۔ اسے زہر دے دیتیں۔ ماں بھلے مجھے انصاف نہ ملے۔ بھلے مجھے انسان نہ سمجھا جائے۔ مگر ماں ان انسانوں سے کہہ دو یوں ہماری ذات کو جلایا مت کریں۔ یوں ہمیں بے رحمی سے موت کے گھاٹ نہ اتارا کریں۔ کتنی اذیت ہوتی ہے مرتے ہوئے۔ ماں جب میں جل رہا تھا تو میں ہر پل مر رہا تھا۔ موت بھی مجھ سے بھاگ رہی تھی۔ زندگی میرا تعاقب کر رہی تھی۔ درد کی انتہا کسی سنہرے جھیل کے پانی کی طرح مسلسل میرے وجود پر برستا جارہا تھا۔ ہر سو دیکھتی آنکھیں اور مرتا خواجہ سرا۔۔۔ بس ماں آج کے بعد ماؤں سے کہہ دینا کہ وہ خواجہ سراؤں کو جنم دیں تو انہیں چھپا دیں کہ شہر کے فرعون انہیں کسی بھی لمحے مار دیں گے۔ انہیں کسی دریائے نیل میں بہا دیں۔ ورنہ وہ بھی میری طرح شہر کے فرعونوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ ہر لمحہ مرتا خواجہ سرا آج حقیقت میں مرگیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں خدا کے پاس جارہا ہوں۔ یہ سارے سوال میں اپنے رب سے بھی پوچھوں گا کہ آخر خواجہ سراؤں کا کیا قصور ہے؟ کیوں ان کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا؟ ماں مجھے اجازت دو اب میں چلتا ہوں۔ تمھاری بے شناخت اولاد۔ فقط ایک مرا ہوا خواجہ سرا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply