سراب زدہ سرمایہ کاری/جمیل آصف

جب بھی گاہے با گاہے مختلف سرمایہ کاری کی سکیموں میں دھوکہ دہی کی خبریں آتی ہیں تو ایک چیز واضح ضرور ہوتی ہے۔ لوگوں کے پاس پیسہ بہت ہے۔ پیسہ موروثی ہے یا حادثاتی یا کسی ادارے میں ریٹائرڈ ہونے کے بعد ملنے والے فنڈز کی صورت۔

اتنا پیسہ ہونے کے بعد ایک دکھ کی بات یہ ہے اس کے استعمال کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی۔ تن آسانی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ ایسی سرمایہ کاری کی تلاش کرتے رہتے ہیں جس میں انہیں گھر بیٹھے خوب منافع ملتا رہے اور وہ سکون سے زندگی گزاریں۔

اس دوران پھر سوشل میڈیا یا اردگرد احباب میں ایسے نوسرباز اور ٹھگ انہیں مختلف منافع بخش کاروبار میں انواسٹمنٹ کی ترغیب دے کر سبز باغ دکھا دیتے ہیں جہاں یہ احمقوں کی طرح ان کے ظاہری فرشتوں جیسے اوصاف دیکھ کر ان کی مومنانہ باتوں پر ایمان لاتے ہوئے زندگی بھر کی جمع پونجی لٹا بیٹھتے ہیں۔

پھر کچھ عرصہ بعد ہائے میں لٹی گئی کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصہ قبل مضاربہ سکینڈل اس کی تازہ مثال ہے مفتیان کرام کے بہکاوے میں آکر اربوں روپے لوگوں کے مختلف پروجیکٹ کی مد میں ڈوب گئے اور کیس نیب کی عدالت میں چلا لیکن ابھی تک متاثرین کی شنوائی نہیں ہوئی۔

حال ہی میں فیصل آباد ایک بینکر نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ذریعے لوگوں کو پیرالل بینکنگ طرز پر ماہانہ ایک لاکھ پر 8000 منافع کی لالچ دی اور اربوں روپے لوٹ کر فیملی سمیت اپنے ساتھیوں کے ساتھ امریکہ اور یورپ شفٹ ہو گئے۔

موٹر سائیکل سکیمیں، رہائشی پلاٹس میں فائلوں کا لین دین، مختلف اجناس کی مد میں ذخیرہ اندوزی کے پلانز، بولی والی کمیٹیاں اور اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جو نت نئے طریقے کے ساتھ بنارسی ٹھگوں کو بھی مات دیتی نظر آتی ہیں۔

افسوس تو ایسے افراد پر ہے جنہیں کاروبار کا شوق ہے یا کسی کاروباری شخصیت کی طویل جدوجہد اور مشکلات دیکھے بنا اس کے ٹھاٹ بھاٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے شارٹ کٹ کے چکر میں ایسی سکیموں میں لگا کر پھر اپنی عمر بھر کی جمع پونجی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بھئی اتنا ہی شوق ہے کاروبار کا، تو کاروبار کو سیکھ اور سمجھ لیں یا اپنی اولاد کو سکھا کر انہیں سونپ دیں تاکہ وہ اپنی زندگی کو سنوار لیں اگر نقصان بھی کریں گے تو تجربات سے سیکھ کر پھر کاروبار کو احسن طریقے سے چلا لیں گے۔ کامیابی کی صورت ملال بھی نا ہوگا اور شکر بھی ادا کرتے نظر آئے گے کہ سرمایہ اب محفوظ ہے اور نسلوں کے لیے معاشی چشمہ کی صورت بہہ بھی نکلے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply