ابن حزم اندلسی(1)-ا نور مختار

تاریخ اندلس اپنے عروج کے اعتبار سے ہمارے لیے قابل فخر جبکہ اسبابِ زوال کے اعتبار  سے سبق  آموز  ہے،اندلس سپین جہاں آٹھ سو سال مسلمانوں نے حکومت کی اپنے دور عروج میں مسلم ایجادات کی آماجگاہ  یہ سرزمین،ہمارے اجداد کی میراث کا حصہ رہی۔بغداد کی طرح سر زمین اندلس نے بھی بہت سے عالم اور دانش ور جنم دیے ،جن کے علمی اور فکر ی کام سے یورپ میں جہالت کی گھٹا چھٹی اور علم کے نور سے یہ خطہ زمین منور ہوا۔

اسلامی سپین میں جب مسلمانوں کا عروج تھا تو اس وقت یہاں کا دارلخلافہ قر طبہ ایک چمکتے ہوئے ہیرے کی مانند تھا۔ یہاں کے شاہی محلات میں دنیا کی ہر قسم کی عیش و عشرت، مو سیقی، قیمتی جواہر، کا سامان موجود تھا ہاں مگر اس کے ساتھ یہ بھی تھا کہ یہاں علم کی پرورش کے ساتھ دانشوروں اورعالموں کی قدر کی جا تی تھی۔

ایسے ہی ایک عالم ابن حزم بھی ہیں جن کا پورا نام علی بن احمد بن سعید بن حزم، کنیت ابو محمّد ہے اور ابن حزم کے نام سے شہرت پائی۔ آپ اندلس کے شہر قرطبہ میں پیدا ہونے اور عمر کی 72 بہاریں دیکھ کر 452 ہجری میں فوت ہوئے۔ابن حزم تقریباّ  چار صد کتب کے مؤلف کہلاتے ہیں۔ آپ کی وہ کتابیں جنھوں نے فقہ ظاہری کی اشاعت میں شہرت پائی وہ المحلی اور” الاحکام” فی اصول الاحکام ہیں۔ المحلی فقہ ظاہری اور دیگر فقہ میں تقابل کا ایک موسوعہ ہے۔ یہ کئی اجزاء پر مشتمل ایک ضخیم فقہی کتاب ہے جس میں فقہ اور اصول فقہ کے ابواب شامل ہیں۔ المحلی کا اردو زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے موخرالذکر کتاب کا مو ضو ع اصول فقہ ہے اگر یہ دونوں کتابیں نہ ہوتیں تو اس مسلک کا جاننے والا کوئی نہ ہوتا۔ ظاہری مسلک کے متبعین نہ ہونے کے با وجود یہ مسلک ہم تک جس ذریعہ سے پہنچا ہے، وہ ذریعہ یہ دونوں کتابیں ہی ہیں ابن حزم سے پہلے دنیا میں ارسطو کا فلسفہ مشہور تھا کہ علم کے ماخذ پانچ حواس ہیں مگر ابن حزم نزدیک وہ چھ ہیں ایک حس حق اور سچ کی ہے جو رب ودیت کرتا ہے انسان کی راہنمائی کے لئے۔

ابن حزم کی شخصیت ہمہ جہت تھی، جو بہ یک وقت محدث بھی ہیں اور مؤرخ بھی، شاعر بھی ہیں اور فقیہ بھی، بہت سی کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور حکومت ِبنواُمیہ کے منصب ِوزارت پر فائز بھی فلپ- کے   نے ابن حزم کو اندلس کی اسلامی تہذیب کا سب سے بڑا عالم اور سب سے اچھوتا مفکر نیز مجموعی اعتبار سے دنیائے اسلام کے دویا تین زرخیز ترین اذہان اور نہایت بھرپور مصنفین میں سےایک قرار دیا ہے ۔ابن بشکوال نے قاضی ابوالقاسم صاعد بن احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ابن حزم تمام اہل اندلس میں اسلامی علوم کا سب سے بڑا امین تھا اور زبان دانی ، بلاغت ، شاعری ، سوانح اور تاریخی واقعات سے بہرہ وافر پانے کے ساتھ ساتھ وہ عام وسعت علمی میں بھی سب سے بڑھ کر تھا۔ اس کے بیٹے ابورافع الفضل کا کہنا ہے کہ اس کے پاس اس کے والد کے قلم سے لکھی ہوئی چار سو جلدوں کے قریب تالیفات موجود تھیں علامہ ابن حزمؒ کا تصورِ اجتہاد: علامہ ابنِ حزمؒ کا اجتہاد اور استنباطِ مسائل کا منہج جمہور فقہا کے تصور سے الگ اور مختلف ہے۔

امام ابنِ حزمؒ کتاب و سنت کی نصوص کے ظاہری الفاظ کی بنیاد پر استنباطِ احکام کے قائل ہیں۔ وہ علل و حکمتوں کی تلاش و جستجو کے قائل نہیں، جب کہ جدید و معروضی مسائل کے حل کے لیے منصوص مسائل کی علت و حکمت کی تلاش و تعیین انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر پیش آمدہ جدید مسائل کے احکام معلوم نہیں ہوسکتے۔ نصوص کے ظواہر سے استدلال و تمسک کرنا گویا عقل و فکر کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے۔ ان کے بعض تفردات اور جمہور فقہا کی روش سے انحراف کے باوجود ان کے دیگر مثبت کاموں کی تعریف بھی کی گئی ہے۔

ابنِ حزم نے اولیا پرستی، قبر پرستی تصوف کے عقائد، دیگر بدتوں اور علم نجوم کو بھی ہدف تنقید بنایا ۔ اس نے عیسائیوں اور یہودیوں کے عقائد سے بھی بیزاری کا اظہار کیا ہے ۔ اب حزم فکر اسلامی میں ایک متنازع  شخصیت ہیں ۔ اور آج بھی ان کے حق اور رد میں دو فکری دبستان موجود ہیں اور ابن حزم کے علمی فکریات کے بہت سے سوالات ہنوز الجھے ہوئے ہیں۔ ابن حزم رحمہ اللہ كا مسئلہ تو وہ امام اور مجتہد تھے اور وہ تقليد كو حرام قرار ديتے ہیں۔

ابن حزم تمام حقائق عام کو تخلیق اصل قرار دیتے ہیں نہ کہ محض کسی عین کی نقل یا ثبوت صفت ہستی کا اضافہ ۔۔ ابن حزم کا دعویٰ کہ شے اور شے کی ذات یا عین کے دوسرے سے متہائن ہستیاں نہیں ہیں۔شے میں بعین وہی ذات جوہر ہے اور وہ جوہر جو ذات عین بعین وہ : شے” ہے۔امام ابن حزم نے قیاس اور اجماع کے اصولوں کو رد کیا، آٹھویں صدی کے امام ابن تیمیہ(رح) نے فقہی مذاہب کی قطعیت سے انکار کیا اور دسویں صدی کے علامہ سیوطی نے تقلید کو رد کر کے اجتہاد کو از سر نو زندہ کیا۔بحوالہ (علامہ اقبال کا تصور اجتہاد -اقبال اکادمی لاہور.-ص-١٩)

علامہ ابن حزم ؒ اپنی کتاب “الإحكام فی أصول الأحكام” میں علم کی اہمیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ‘‘مرد ہوں یا عورتیں، آزاد ہوں یا غلام، ان باتوں سے ناواقف رہ جانے کی گنجائش کسی کے لیے نہیں ہے۔ ان کے اوپر فرض ہے کہ وہ بالغ ہوتے ہی یہ سیکھنے لگیں، یا اگر بالغ ہونے کے بعد اسلام لائے ہوں تو اسی وقت سیکھنا شروع کردیں۔ جو لوگ کسی دیہات میں ہوں اور وہاں دین کے احکام سکھانے والا کوئی نہ پائیں، تو ان سب پر فرض ہے کہ وہ اس جگہ کا سفر کریں جہاں کوئی عالم ہو جو انھیں دین کی تعلیم دے یا اپنے یہاں کسی عالم کو بلائیں جو وہاں رہ کر انھیں دین کی تعلیم دے، اور اگر حاکم اس صورت حال سے واقف ہو تو وہ ان کے یہاں کسی عالم کو تعلیم دینے کے لیے بھیجے۔’’

Advertisements
julia rana solicitors

امام ابن حزم جو کہ محدث، مولف ،فقیہ، شاعر، فلسفی، ادیب، مصلح، مجدد، متکلم، اور مؤرّخ کے طور پر جانے جاتے ہیں اور “فقہ ظاہری” کے سب سے بڑے امام ہیں اپنی منفرد آراء کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ان کی کتب سے دنیا کی لائبریریز اور کتب خانے بھرے پڑے ہیں ۔ان کے قلمی مخطوطے تک محفوظ ہیں اپنی کتب میں متقدمین پر تنقید کی وجہ سے علمائے اندلس نے ان کی کتب جلانے کا فتوی دیا تھا۔اندلس کے شہر “اشبیلہ” میں ان کی کتب کو جلایا گیا اور قاضئ شہر کی موجودگی میں سر عام نذرِ آتش کیا گیا۔اسی پس منظر میں ابن حزم نے درج ذیل قطعہ لکھا تھا۔
“فإن تحرقوا القرطاس لا تحرقوا الذي
تضمنه القرطاس بل هو في صدري
يسير معي حيث استقلت ركائبي
وينزل أن أنزل ويدفن في قبري
دعوني من إحراق رقٍ وكاغدٍ
وقولوا بعلم كي يرى الناس من يدري
وإلا فعودوا في المكاتب بدأة
فكم دون ما تبغون لله من ستري”
“اگر تم کاغذ کو جلا بھی دو گے تو جو چیز کاغذ پر لکھی گئی ہے تم اسے نہ جلا سکو گے،
بلکہ وہ تو میرے سینے میں دل پر لکھی گئی ہے
وہ میرے ساتھ چلے گی
جہاں بھی میری سواری جائے گی،
اور میرے ساتھ ہی پڑاؤ ڈالے گی
اور آخر؛
میری قبر میں دفن ہو جائے گی
ہو سکے ، تو ایسا کرو کہ کاغذ اور کتابیں جلا کر
تم لوگوں کو کہو کہ بس تمہیں علم رکھتے ہو،
اور میری تحقیر کرو؛
تا کہ لوگ دیکھ لیں کہ کون علم و فضل رکھتا ہے
اور کون جاہل ہے،
اگر تم پھر بھی کامیاب نہ ہو سکو،
تو دوبارہ سے مبتدئ طالب علم بن کر درسگاہوں میں لوٹ جاؤ
اور میں تو عاجز سا بندہ ہوں،
جو عیب تم مجھ میں تلاش کرتے
ہو وہ تو تھوڑے ہیں
ان کے علاوہ بھی کئی عیب ہیں مجھ میں
جن پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا ہے
یہ عیسائی عالموں کی طرح کیا کرتے پھرتے ہو،
جب وہ قرآن کے دلائل و برہان سے عاجز آجاتے ہیں
تو اسے جلانے لگ جاتے ہیں”.
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply