آسمان پر کتنے ستارے ہیں؟/ڈاکٹر حفیظ الحسن

بچپن کی بات ہے کہ پاکستان میں جب گرمیاں ہوتیں تو رات کو چھت پر ٹھنڈی سفید چادروں پر نرم بستر پر لیٹے ہم آسمان کی جانب تکتے تھے۔ چونکہ پاکستان میں لوڈشیڈنگ کافی ہوتی تو رات کو آسمان زیادہ صاف دکھائی دیتا۔ چاند اور اسکے پاس ایک روشن ستارہ، دُبِ اکبر، دُبِ اصغر، قطبی ستارہ، اور کئی اور ستارے۔ گردن گھما کر دیکھنے پر ہر طرف ستارے ہی ستارے نظر آتے۔ کچھ روشن تو کچھ محض اتنا ٹمٹماتے کہ غور سے دیکھنے سے نظر آتے۔ آسمان ایک جہانِ حیرت تھا۔ نیند آنے تک ہم ایسے ہی آسمان کو تکتے اور سوچتے کہ یہ ستارے کتنی دور ہونگے، یہاں کونسی دنیائیں ہونگی، یہ قریب سے کیسے دِکھتے ہونگے وغیرہ وغیرہ۔

ستارے گننا اُردو میں ایک محاورہ ہے جس کے معنی محبوب کی جدائی میں رات بھر جاگنا ہے۔ تو جاگ کر ستارے ہی گنے جاتے ہونگے۔ مگر سائنسدانوں کی محبوب تو سائنس اور کائنات ہے سو وہ بھی راتوں کو جاگ کر اپنی اس محبوبہ کے بارے میں جانتے ہیں۔ جدید دوربینوں سے، زمینی مشاہدہ گاہوں سے۔

تو کیا سائنسدان یہ جان چکے کہ آسمان پر جو ستارے ہم بچپن میں دیکھتے تھے وہ کتنے ہیں اور اس بھری کائنات میں کل کتنے ستارے ہیں؟

اتنی وسیع کائنات میں تمام ستارے گننا آسان نہیں ۔ مگر ہم علمی اندازے سے یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ یہ کم و بیش کتنی تعداد میں ہونگے۔

ایک اندازے کے مطابق زمین سے محض انسانی آنکھ سے آسمان پر دکھتے ستاروں کی تعداد 5 سے 6 ہزار کے قریب ہے مگر ہم زمین پر کسی ایک جگہ پر ٹھہر کر اس تعداد سے بھی بے حد کم ستارے ایک وقت میں دیکھ سکتے ہیں۔

انسانی آنکھ کی ایک حد ہوتی ہے۔ ہم بے حد مدہم روشنی نہیں دیکھ سکتے۔ زمین کی فضا سے گزرتے بہت سے ستاروں کی روشنی جذب ہو جاتی ہے جو ہم تک نہیں پہنچ پاتی۔ دوسرا زمین پر موجود لائیٹس کی وجہ سے آسمان پر مدہم ستارے نظر نہیں آتے۔ البتہ گاؤں میں یا ایسی جگہ جہاں انسان کی بنائی روشنیاں کم ہوں وہاں آسمان پر بے حد ستارے نظر آتے ہیں۔
اسی لیے ہم بے حد تاریک اورفضائی آلودگی سے صاف جگہوں پر مشاہدہ گاہ بناتے ہیں جیسے کہ چِلی کے کسی صحرا میں، یا امریکہ جزیرے ہوائی کے کسی پہاڑ پر یا پھر خلا میں۔

تو اب تک ہم نے ان تمام جدید سائنسی دوربینوں سے کائنات میں موجود ستاروں کی تعداد کا کیا اندازہ لگایا ہے؟

ستارے دراصل کہکشاؤں میں ہوتے ہیں۔ ستاروں کی تعداد سے پہلے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ کائنات میں کتنی کہکشائیں ہونگی۔

یہ اندازہ یوں لگا سکتے ہیں کہ خلا کے کسی ایک چھوٹے سے حصے میں دور تک دیکھیں کہ کتنی کہکشائیں موجود ہیں۔ پھر اس ایک تصویر میں موجود کہکشاؤں کو گنیں۔ پھر یہ حساب لگائیں کہ خلا کو چاروں طرف، خلا کے ہر حصے کو دیکھنے کے لئے کتنی تصاویر چاہیے ہونگی؟ اور پھر ایک تصویر میں موجود کہکشاؤں کو ان تمام تصاویر کی تعداد سے ضرب دیں تو ہمیں ایک اندازہ ہو گا کہ کائنات میں کل کتنی کہکشائیں ہیں۔

تو اسکا جواب ہے تقریباً 2 ٹریلین کہکشائیں !  یعنی 2ہزار ارب کہکشائیں۔

اب ہر کہکشاں میں کتنے ستارے ہونگے؟ ہم بہتر اندازے سے بتا سکتے ہیں کہ ہماری کہکشاں ملکی وے میں سورج ، سورج سے چھوٹے اور بڑے کتنے ستارے ہونگے۔ یہ اندازہ ہم ستاروں کی روشنی، اُنکی بناوٹ، اُنکی عمر اور دیگر عوامل سے جان کر لگا سکتے ہیں۔ سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ ہماری کہکشاں ملکی وے میں تقریباً 100 ارب ستارے ہو سکتے ہیں۔

اب ہم اگر یہ فرض کریں کہ کائنات کی باقی کہکشاؤں میں بھی کم سے کم اتنے ہی ستارے ہونگے جو ہماری کہکشاں میں ہیں تو ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کائنات میں جو ہمیں دکھتی ہے، اس میں کل کتنے ستارے ہونگے۔تو یہ تعداد ہو گی: 2 ٹریلین کہکشائیں ضرب 100 بلین ستارے۔
یعنی کائنات میں کل ستاروں کی تعداد اندازاً 200,000,000,000,000,000,000,000 ستارے!!!
یعنی دو کے آگے 23 صفر!! اس تعداد کو انسانی دماغ تصور نہیں کر سکتا۔۔آسانی کے لئے زمین پر ریت کے زروں سے بھی تقریباً 26 گنا زیادہ!!

یہ ایک محتاط اندازہ ہے۔ ستاروں کی اصل تعداد اس سے بھی کئی گنا زیادہ۔ہو سکتی ہے۔ کائنات کے آدھے ستارے تو بھٹکتے ستارے ہیں جو کسی کہکشاں کا حصہ ہی نہیں۔ جو اکیلے کائنات کی وسعتوں میں سرگرداں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو اگلی مرتبہ آپ جب رات میں آسمان کی طرف دیکھ رہے ہونگے تو عین ممکن ہے اُسی وقت ان لاتعداد ستاروں میں سے کسی ایک ستارے کے گرد کسی سیارے پر، کسی اور مخلوق کا فرد بھی، ٹھنڈی سفید چادر پر لیٹا اپنے آسمان کی جانب دیکھ کر، کائنات میں ہمارے وجود سے بے خبر شاید یہ سوچ رہا ہو کہ کیا وہ اس کائنات میں اکیلا ہے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply