مخمصہ/محمد اسد شاہ

ایک طرف سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تقریباً چار سالہ جلاوطنی کے بعد 21 اکتوبر 2023 کو اپنے وطن واپسی کا اعلان کر دیا ہے، اور دوسری طرف الیکشن کمیشن نے بھی اعلان کیا ہے کہ جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں عام انتخابات ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے پہلے سے جاری کردہ نظر ثانی شدہ شیڈول کے عین مطابق تازہ حلقہ بندیوں کی تفصیلات بھی جاری کر دی ہیں، نئی مردم شماری کی وجہ سے یہ لازم تھا کہ اگلے انتخابات سے قبل نئی حلقہ بندیاں ہوں، اور یہی فیصلہ پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت کے دور میں مشترکہ مفادات کونسل نے کیا تھا ، پھر پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں بھی مشترکہ مفادات کونسل نے اپنے اسی سابقہ فیصلے کی توثیق کر دی۔ اگرچہ آئین یہ کہتا ہے کہ اسمبلیوں کے خاتمے کے 90 دن کے اندر نئے انتخابات منعقد کروائے جائیں لیکن یہی آئین مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کو بھی مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔

دوسری طرف ہماری تاریخ آئین سازی اور اس پر عمل کے حوالے سے کبھی قابلِ فخر نہیں رہی، 76 سالوں میں سے 40 سال تو آئین شکن ڈکٹیٹرز کا قبضہ رہا۔ آج جو لوگ 90 دن کے اندر انتخابات کے لیے آئین کی دہائی دے رہے ہیں، خود ان کے اپنے ہاں آئین کے احترام کی مثالیں تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتیں۔ سب سے زیادہ شور پی ٹی آئی اور اس کی مستقل اتحادی جماعت اسلامی کی طرف سے مچایا جا رہا ہے، کیا پی ٹی آئی بتا سکتی ہے کہ جب اس نے جنرل پرویز مشرف کی غاصب اور قابض حکومت کی بیعت کی تھی تو یہ کون سے آئین کا احترام تھا؟

عمران خان نے 2002 کے بدترین فراڈ ریفرنڈم میں ایک آئین شکن جنرل (پرویز مشرف) کی حمایت میں کئی جلسے کیے، اور پھر اسی کا چیف پولنگ ایجنٹ بھی بن گیا تو یہ کون سا آئین تھا؟

2008 سے 2022 تک سیاست اور پھر اقتدار کی ہوس میں بعض حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں کے ساتھ مسلسل خفیہ اور اعلانیہ رابطے کس آئین کے تحت تھے؟

عمران نے خود اپنی تقاریر میں بارہا بتایا کہ مارچ 2022 میں جب پی ڈی ایم نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تو اس نے اپنے قریبی ساتھی کو بھیج کر جنرل قمر باجوہ کی منتیں کیں کہ وہ خفیہ کارروائیوں کے ذریعے اس تحریک کو ناکام بنوائے۔ کیا عمران اور ہم نواء یہ بتا سکتے ہیں کہ ایک وزیراعظم اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کا سامنا جمہوری اور آئینی طریقے سے کرنے کی بجائے سرکاری ملازمین کے ذریعے جبر کے ہتھکنڈے کیوں استعمال کر رہا تھا اور یہ کون سا آئین تھا؟

جب عمران کے کہنے پر  پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑی گئیں تو جسٹس عمر عطاء بندیال کے ذریعے صرف پنجاب میں ہی الیکشن کا حکم جاری ہوا ،اور خیبرپختونخوا کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔ کیا آئین خیبرپختونخوا میں لاگو نہیں ہوتا؟

اور بھی بے شمار سوالات پی ٹی آئی سے پوچھے جانا چاہئیں، لیکن کالم کی مختصر حدود اجازت نہیں دیتیں۔ جماعت اسلامی کبھی سید مودودی جیسے مفسر قرآن، جید عالم، مصلح اور مفکر کی پیروکار ہوا کرتی تھی- لیکن سراج الحق صاحب کی برکت سے، 2012 سے، یہ پوری جماعت، عام کارکن سے لے کر امیر جماعت تک، غیر اعلانیہ طور پر عمران خان کی بیعت کر کے عملاً اس کے شدید عشق میں مبتلا ہے۔ اس خاموش بیعت اور جذباتی عشق کے پیچھے کیا راز ہے، اہل نظر تو جانتے ہی ہیں، عوام پر بھی جلد یا بدیر آشکار ہو جائے گا۔ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر مستقبل میں کتب لکھی جائیں گی۔

جماعت اسلامی جب ایک آزاد اور خود مختار جماعت ہوا کرتی تھی تب یہ بھی ایک آئین شکن جنرل ضیاء کے سامنے زانوئے عقیدت طے کر چکی، پھر یہی جماعت دوسرے آئین شکن جنرل پرویز مشرف کے ساتھ معاہدوں میں بھی شامل رہی۔ اگرچہ جماعت اسلامی کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ اس معاہدے کے ذریعے آئین کی بحالی کی کوشش کر رہی تھی، لیکن خالص سوال تو تاریخ کے تختہ سیاہ پر لکھا ہوا آج بھی موجود ہے کہ “آئین جس شخص کو پھانسی پر لٹکانے کا تقاضا کرے، اس کے ساتھ مل کر کون سا آئین بحال ہوا کرتا ہے؟”

الیکشن کمیشن کے اعلان کے باوجود ملک بھر میں انتخابی گہما گہمی کا آغاز نہیں ہو پایا، یہ آغاز جن سیاسی جماعتوں کو کرنا تھا وہ سب پریشان ہیں، اکثریت کو اب بھی یہ یقین نہیں کہ انتخابات اعلان کے مطابق منعقد ہوں گے، ایک اور مسئلہ بدترین مہنگائی ہے جس نے اچھے بھلے سفید پوش لوگوں کا بھرم بھی اتار پھینکا ہے، مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت تقریباً تمام بڑی جماعتیں اس بدترین مہنگائی کی ذمہ داری ان چند طاقت ور سرکاری ملازمین پر ڈالتی ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر ملک کی منتخب وفاقی حکومت کے خلاف خصوصاً 2013 سے 2017 تک خفیہ اور اعلانیہ سازشیں کیں، عدالتوں، انتظامی افسران، سرمایہ کاروں، صنعت کاروں، میڈیا مالکان، پیمرا، صحافیوں، کالم نگاروں اور اینکر پرسنز تک پر غیر قانونی دباؤ اور لالچ کے حربے استعمال کر کے منتخب حکومت کو کم زور، غیر مقبول، غیر مستعد اور آخرکار ختم کروایا، اور تین بار کے منتخب وزیراعظم اور ان کے بہت سے اہم ساتھیوں کو انتخابی میدان سے جبراً باہر رکھ کر ایک متنازع اور مشکوک الیکشن کے ذریعے اپنے ایک ذاتی کارندے کو ملک کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر مسلط کیا۔

پھر چار سال تک ملک بھر میں کوئی ترقیاتی کام نہ ہوا۔ بلکہ ملکی معاشی ترقی کا اہم ترین منصوبہ سی پیک بھی بند کر دیا گیا، عمران خان نے تو ایک متنازع  آئینی ترمیم کے ذریعے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو بھی آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا، جس کا خمیازہ اب اس غریب قوم کو شاید صدیوں تک ادا کرنا پڑے،تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پر مشتمل سیاسی جوڑا البتہ اس طرف انگلی اٹھانے سے پرہیز کرتا ہے، وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ دونو جماعتیں اس ایجنڈے میں سرگرم تھیں جس کے تحت پانامہ سکینڈل کے نام پر ایک متنازع  مقدمہ چلوایا گیا، ان دونوں  جماعتوں نے اوپر بیان کردہ تمام “کارروائیوں” میں پہلے حصّہ ڈالا اور پھر حصّہ وصول کیا۔ اس نظری اور سیاسی تنازعے کے باوجود اصل مشکل یعنی مہنگائی وہیں کھڑی ہے اور عوام کے دریدہ دامن اور خالی پیٹ پر ہنس رہی ہے۔

انتخابی مہم کے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہے اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں انتخابات کسی قابلیت، خدمت یا کارکردگی کی بنیاد پر تو کبھی منعقد ہی نہیں ہوئے۔ ہمارے انتخابات میں سب سے بڑا اور اہم کردار دولت کا ہوتا ہے، یہ دولت حلال کی ہے یا حرام کی، اس پر کوئی نہیں سوچتا۔انتخاب کے دیگر عوامل میں ذات برادری، غنڈہ گردی، تھانہ کچہری، مالی مفادات، بدزبانی اور بدمعاشی شامل ہیں۔ ہر دفتر، ہر دکان، ہر بازار، ہر گلی اور ہر تھڑے پر بیٹھ کر سیاسی گالم گلوچ کرنے والے اس معاشرے میں اسلامی تعلیمات، اعلیٰ کردار، اخلاقیات، حقیقی شعور، ضمیر کی آواز، عمدہ کارکردگی، ملکی خدمت یا نظریاتی بنیادوں پر ووٹ ڈالنے والے لوگ شاید آپ کو ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں۔

سیاسی جماعتوں کا اصل مخمصہ “بیانیہ” ہے۔ مسلم لیگ نواز دوہری مشکل کا شکار ہے۔ کبھی اس کا بیانیہ “ووٹ کو عزت دو” تھا، لیکن 2022 میں شہباز شریف نے پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے کہنے پر وزارت عظمیٰ کا طوق اپنے گلے میں ڈال کر اس بیانیے کا کام تمام کر دیا۔ ان کی سولہ ماہ کی مختصر حکومت نے عمران خان کی چار سالہ کرپشن، نااہلی، ناکامی، مہنگائی اور تباہی کا ملبہ صاف کرتے کرتے اپنا دامن گندہ کر لیا۔ شہباز حکومت نے دس سالہ قبضے کا منصوبہ تو ناکام بنا دیا، ملک کو ڈیفالٹ سے بھی بچا لیا، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات بھی بحال کر لیے، لیکن عوام کو شعور دینے میں ناکام رہی۔ اب نواز شریف بعض کرپٹ اور قانون شکن ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے احتساب کا نعرہ بلند کر رہے ہیں تو پارٹی کے اندر بے چینی پھیل رہی ہے۔پارٹی میں بہت سے لوگ اب اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرنے سے ڈرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس اب ذوالفقار علی بھٹو کے نام اور سیاسی جوڑ توڑ کی مہارت کے علاوہ کچھ نہیں بچا، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کو اپنے اپنے سیاسی مراکز میں بھرپور سیاسی عصبیت حاصل ہے، اس لیے انھیں کسی بیانیے کی شدید ضرورت نہیں۔ جماعت اسلامی کے ووٹرز تعداد میں کم ہیں، لیکن وہ اپنا ووٹ جماعت اسلامی یا تحریک انصاف کے علاوہ کسی اور کو نہیں دیں گے۔ تحریک انصاف البتہ پریشان ہے، عمران خان پر کرپشن، ہر الیکشن میں کاغذات نامزدگی میں اپنے بعض ذاتی حقائق چھپانے، ملکی دفاعی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے، سفارتی دستاویزات کو پہلے سازش کا نام دینے اور پھر سازش کے اس الزام سے خود ہی مکر جانے، توشہ خانہ چوری، کارکنوں کے ذریعے عدالتوں اور پولیس پر حملے کروانے، اور حساس تنصیبات کو آگ لگوانے جیسے سنگین الزامات اور مقدمات ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

توشہ خانہ سے لیے گئے سرکاری تحائف کو کاغذات میں ظاہر نہ کرنے کے ایک مقدمے میں عدالت عمران کو تین سال قید اور پانچ سالہ نااہلی کی سزا سنا چکی ہے، تین سالہ قید کی سزا فی الحال معطل ہے، لیکن نااہلی کی سزا برقرار ہے۔ تحریک انصاف کے حامی عمران کی نااہلی کے دوران ہونے والے الیکشن پر سوالات اٹھا رہے ہیں، لیکن جب خود ان سے سوال پوچھا جائے کہ جب 2002, 2008 اور 2018 میں میاں محمد نواز شریف کو جبراً باہر رکھ کر الیکشن کروائے گئے تو ہر مرتبہ عمران خان نے اس پر خوشی کیوں منائی؟ تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں، بلکہ زیادہ جذباتی حامی تو لاجواب ہو کر گالم گلوچ اور بدزبانی پر اتر آتے ہیں۔ یوں ہر جماعت اپنے اپنے مسائل میں گھری ہوئی ہے اور پوری قوم مہنگائی کے بوجھ تلے آہیں بھر رہی ہے، الیکشن کیسے ہوں گے اور کس طرح ، یہ مخمصہ پورے منظر پر غالب ہے ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply