کرونا؛سعودی ماڈل یا ایرانی ماڈل۔۔ انعام رانا

پیر کی شام آفس میٹنگ کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ ہماری فرم کے ہر فرد کا دل ہی لرز رہا ہے۔ کرونا نے چائنہ کے بعد اٹلی میں جو تباہی پھیری ہے، اس نے یوں تو پوری دنیا  ہی کو خوفزدہ کر دیا ہے مگر لندن جیسے بڑے شہر کا اس سے خوف بجا بھی ہے۔ دنیا بھر سے لوگ اس شہر میں آتے ہیں، لاکھوں لوگ روزانہ پبلک ٹرانسپورٹ پہ سفر کرتے ہیں اور ہمارا وزیراعظم قرون وسطی کی “ہرڈ امیونٹی” جگا کر اس اَن دیکھے دشمن کا مقابلہ کرنے پہ تُلا تھا، چاہے اس تجربے میں کچھ لاکھ نا سہی کئی ہزار ہی بلی چڑھ جاتے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ متاثرین اور اموات کی تعداد بڑھ رہی  تھی۔ سو میں نے بدھ سے اپنی فرم کے دونوں دفتر بند کر دئیے اور “ورک فرام ہوم پالیسی” نافذ کر لی۔ کلائنٹس کو اطلاع دے دی گئی اور اب ہم وٹس ایپ، سکائپ یا فیس ٹائم جیسی ٹیکنالوجی اور آنلائن ورک سافٹ ویر کا فائدہ اٹھا کر گھر سے ہی کام کر رہے ہیں۔ میرے ایک دوست بیرسٹر نے میسج کیا کہ “جا اوئے تو کیسا راجپوت ہے اور کیسا مسلمان ہے، ذرا سے کرونا سے ڈر گیا”۔ عرض کی، راجپوت یا مسلمان کا پتہ نہیں مگر بطور ایک فرم کے ہیڈ ،میرے ساتھ کام کرتے 13،14 لوگ اور پھر کلائنٹس، ان سب کی ذمہ داری البتہ مجھ پہ ہے۔ کوئی ایک بھی اگر شکار ہوا تو میری “بہادری” اور “ایمان” نجانے کتنوں کو مصیبت میں ڈال جائے۔ اس کا جواب بھی خدا کو مجھے ہی دینا پڑتا۔ سو ایک “ڈرپوک لیڈر” ایک “بیوقوف لیڈر” سے بہتر ہے۔

تازہ تر یہ ہے کہ بورس صاحب بھی یکدم سنگینی کا احساس کر کے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ سکول جمعہ سے بند ہوں گے، چالیس سے زائد لندن کے ٹرین سٹیشن بند کر دئیے گئے ہیں اور مکمل لاک ڈاؤن کے امکانات روشن ہوئے جاتے ہیں۔ یورپ میں اٹلی نے “بہادرانہ لاپرواہی” کا مظاہرہ کیا تھا اور اب چار ہزار لاشوں کا صدمہ اٹھائے بیٹھا ہے۔ دعا ہے کہ میرے برطانیہ کو بورس کی بیوقوفی کی سزا کم سے کم ملے۔ آمین۔ خیر یہ تو کافروں کے ملک کی بات ہے، ان کا تو ایمان ہی کمزور ہے اور ہے بھی کم۔ مگر صورتحال میرے باایمان پاکستان کی بھی کچھ اچھی نظر نہیں آتی۔

خدا کا شکر ہے کہ ابھی پاکستان میں یہ دشمن اپنی آئی پہ نہیں آیا۔ پاکستان کی حکومت نے بروقت کچھ اقدامات کیے ،جن سے اس کے حملے کو یکدم آنے سے روکنا ممکن ہوا، وگرنہ چین کے ساتھ ہی تو ہم تھے۔ البتہ حقیقت یہ ہے کہ اب یہ میرے پاکستان میں آ چکا ہے۔ کچھ سعودیہ سے لائے، کافی ایران سے اور کچھ چین برطانیہ و دیگر ممالک سے۔ حکومت اچھی حکمت عملی سے کچھ کرنے کی کوشش میں ہے اگرچہ بہت زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پہ سندھ حکومت کو داد نہ دینا بھی ناانصافی ہو گی۔ جس بہترین طریقے سے سندھ حکومت اس وبا ء سے نپٹنے کی کوشش کر رہی ہے وہ پورے پاکستان کے لیے ماڈل سٹریٹجی ہے۔ بلاول بھٹو کے بیانات بھی بہت مدبرانہ سوچ لیے ہوئے ہیں کہ یہ وقت سیاست نہیں خدمت کا ہے۔ البتہ دکھ یہ ہے کہ ہمارے مذہبی رہنما اک بار پھر سستی اور ناکامی کی مثال بنے۔ عوامی یا سوشل میڈیائی سطح پر بھی وہ دوست جو شعور بیدار کرنے کی کوششوں میں مشغول ہونا چاہیے تھے، وہ اس بحث میں مبتلا ہیں کہ کیا جمعہ کی نماز روکی جا سکتی ہے یا نہیں؟ مسجد جانے سے روکنا جائز ہے یا نہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کو ایسی فضولیات میں اُلجھے دیکھ کر افسوسناک حیرت ہوتی ہے۔

میری خوش قسمتی ہے کہ میرے قارئین کو مجھ پہ یہ اعتماد ہے کہ میں مسلکی تعصب سے دور انسان ہوں۔ سو اسی اعتماد کی بنا پر میں شاید کُھل کر بات کر سکتا ہوں۔ دیکھیے صاحبو !ہمارے سامنے اس وقت دو ماڈل ہیں مسلمان ممالک کے۔ سعودیہ اور ایران۔ مذہبی آمریت تو خیر دونوں جگہ ملتی جلتی ہی ہے اور دونوں سے ہی اسلام کا فائدہ کم ہی ہوا اور مسلکی تعصبات کا پھیلاؤ زیادہ۔ مگر اس وقت خود کو فقط “کرونا اقدامات” تک محدود رکھتے ہیں۔ کرونا سعودیہ تک بھی پہنچا، مکہ میں چار کیس سامنے آئے اور فقط دو گھنٹے کے اندر اندر حرم خالی کروا لیا گیا۔ عمرہ بند ہو گیا۔ سارے حاجی واپس بھجوا دیے، اک شہر سے دوسرے شہر کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا گیا۔ اور اب تو حرمین کے سوا کسی جگہ جمعہ کی جماعت بھی منع کر دی گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ حرمین جہاں سے کرونا یا کوئی بھی وبا دنیا بھر میں پھیلنا سب سے زیادہ آسان ہے، اس کو کافی زیادہ کامیابی سے روک لیا گیا۔ دوسری جانب ایران ہے۔ پہلے تو حکومت نے سستی کی اور سنگینی کا احساس ہوتے ہوتے یہ دشمن حاوی ہونے لگ گیا۔ اور پھر جذباتی زائرین نے بیوقوفی کا مظاہرہ کیا کہ جب مقدس مقامات بند کیے گئے تو زبردستی دروازے کھلوا کر اندر پہنچ گئے۔ اس وقت صورتحال شدید خراب ہے اور خود ایرانی ہیلتھ آفیشلز ممکنہ نقصان کی دہائیاں دے رہے ہیں اور بہت زیادہ اموات کا خدشہ ہے۔ اللہ ہر جگہ انسانوں کو اپنی امان میں رکھے اور اس آزمائش کو جلد ٹالے۔ آمین۔

ایران کے زائرین اور سعودیہ میں موجود معتمرین، دونوں ہی ایمان رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے جن جگہوں سے وہ “شفایاب” ہونے جاتے ہیں وہاں ان کو بیماری کے ڈر سے منع کیا جائے تو ضرب “ایمان” پہ پڑتی محسوس ہوتی ہے۔ دونوں حکومتیں مذہبی آمر سہی مگر دونوں ہی مسلمان ہیں مگر ایک نے سستی کی اور دوسری نے شدید سختی۔ نقصان دیکھ لیجیے کہ کہاں زیادہ ہوا۔ بس یہ ہی ذہن میں رکھ کر ہمیں اپنے پاکستان کےلیے فیصلے کرنے ہیں۔ یاد رکھیے ، ہم دنیا میں بُرے ترین پبلک ہیلتھ سسٹم والے ممالک میں سے  ہیں۔ حال یہ ہے کہ ڈاکٹروں تک کے پاس ضروری کٹس نہیں ہیں۔ لوگ ہیں تو کرونا پہ گانے بنانے اور لطائف گھڑنے میں مشغول ہیں۔ اکانومی برطانیہ امریکہ  جیسوں کی لیٹ گئی ہے، تو ہماری کا جانے کیا بنے گا۔ ایسے میں فقط “ایمان” اور موت کا ایک دن معین ہے جیسے نعرے لگاتے ہوئے لوگوں کی موت کا سامان نہ کیجیے۔ بدقسمتی سے ہمارے مذہبی لیڈران میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ وہ کوئی واضح  مدبرانہ فیصلہ کر سکیں، کیونکہ معتقد ان پہ کمزور ایمان کا الزام لگا سکتے ہیں۔ اور ہماری حکومت خیر سے اوّل تو “اولی الامر” جیسی اخلاقی طاقت ہی نہیں رکھتی اور دوسرا شاید وہ بھی “ایمان” کے ہاتھوں مجبور ہے۔

نماز، جماعت، مسجد، جمعہ، صاحبو یہ تو بندے کو رب سے جوڑنے کی ایکسرسائز ہے، لوگوں کو  ایک بنا کر ان کے رب کے سامنے کھڑا کرنے کا نام ہے،رب سے تعلق مضبوط بنانے کی کوشش ہے۔ لیکن اگر “بہادرانہ بیوقوفی” کے ساتھ زمینی حقائق کو نظرانداز کرتے ہوے ضد کی گئی تو ایک درجن نمازی کئی لاکھ کو متاثر کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ اور پھر ہونے والا نقصان اس رشتے کو کمزور کرے گا ناکہ طاقتور۔

Advertisements
julia rana solicitors

سیدنا رسول کریم ص کی زندگی ہی ہمارا ایمان بھی ہے اور لائحہ عمل بھی۔ آقا ص نے کہا تھا لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو، ان کو مشکل میں نہ  ڈالو۔ اگر آپ مفتی ہیں، امام مسجد ہیں، فقیہہ ہیں، مذہبی لیڈر ہیں تو آپ کے سر پہ سینکڑوں یا ہزاروں یا لاکھوں کی ذمہ داری آتی ہے۔ مجھ پہ تو میری فرم کے چودہ لوگوں کی تھی اور میں خدا سے ڈر کر “ڈرپوک” ہو گیا ہوں۔ آپ کا کیا ارادہ ہے؟

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply