سوشلزم میں فوج کا سوال۔۔شاداب مرتضی

پاکستان میں فوج کے کردار کے معاملے پر سوشلسٹ لیفٹ کے ایک حلقے کی رائے یہ ہے کہ اصل مسئلہ نظام کا ہے۔ نظام بدلے گا تو ریاستی اداروں کا کردار بھی ٹھیک ہوجائے گا۔ لہذا، فوج کے کردار کا سوال ضمنی اور غیر اہم ہے۔ اس کے برعکس ہمیں فوج سے (سپاہیوں سے) سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ دوسری طرف، سوشلسٹ لیفٹ کے ایک اور حلقے کا خیال یہ ہے کہ اصولی طور پر تو فوج نہیں ہونا چاہیے لیکن جب تک دوسرے ملک فوج رکھیں گے ہم بھی فوج رکھنے پر مجبور رہیں گے۔ اس حلقے کا خیال ہے کہ فوج سے متعلق سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ سپاہیوں کے حالات بہتر ہوجائیں۔ فوج کے طبقاتی اور سیاسی کردار کا سوال ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

دونوں نکتہِ نظر اس بات کے ادراک سے محروم دکھائی دیتے ہیں کہ ہم تاریخ کے جس دور میں جی رہے ہیں وہ سرمایہ دارانہ طبقاتی سماج کا دور ہے اور اس میں سرمایہ دارانہ طبقاتی ریاست کے ادارے حکمران سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی تعمیل اور ان کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے فوج کا ادارہ بھی کوئی استثناء نہیں رکھتا۔ اس لیے، موجودہ، طبقاتی، سرمایہ دارانہ ریاست میں فوج کا سوال اپنی ٹھوس، حقیقی شکل میں اسٹینڈنگ آرمی کا، عوامی سے کٹی ہوئی ستقل پیشہ ور فوج کا، سوال ہے، یعنی یہ سوال کہ موجودہ سرمایہ دارانہ طبقاتی ریاست میں اسٹینڈنگ آرمی کا کردار کیا ہے اور کیا سوشلزم میں بھی سرمایہ داری نظام کی طرح ہی اسٹینڈنگ آرمی کی ضرورت ہوگی یا نہیں؟

سرمایہ داری پر مبنی طبقاتی سماج میں فوج اور ریاست کے رشتے کے بارے میں لینن کہتا ہے: “اسٹینڈنگ آرمی اور پولیس ریاستی اقتدار کے سب سے اہم آلے ہیں۔۔۔ وہ مرکزی ریاستی اقتدار جو سرمایہ دارانہ سماج کی خاصیت ہے، مطلق العنانیت کے اقتدار کی شکست کے دور میں وجود میں آیا۔ دو ادارے اس ریاستی مشینری کی سب سے نمایاں خاصیت ہیں: بیوروکریسی اور اسٹینڈنگ آرمی۔ مارکس اور اینگلز نے اپنی تحریروں میں باربار یہ دکھایا ہے کہ یہ سرمایہ دار طبقہ ہے جس سے یہ ادارے ہزاروں دھاگوں سے بندھے ہوئے ہیں۔” (لینن، ریاست اور انقلاب).

اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ طبقاتی سماج میں، سرمایہ دارانہ ریاست میں، فوج کا ادارہ سرمایہ دار طبقے کے مفادات سے، ریاست کے طبقاتی مفاد سے، کٹا ہوا، اس سے الگ تھلگ، اس سے بیگانہ، نہیں ہوتا بلکہ اس کے تابع ہوتا ہے، انہیں پورا کرتا یے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اسٹینڈنگ آرمی سرمایہ دار طبقے کے استحصال کوبزور طاقت قائم رکھتی ہے۔

لینن مزید کہتا ہے: “اگر ہم موقع پرست یا سرمایہ دارانہ امن پرست نہیں بن گئے ہیں تو ہم یہ بات نہیں بھول سکتے کہ ہم ایک طبقاتی سماج میں جی رہے ہیں جہاں سے نکلنے کا راستہ طبقاتی جدوجہد کے سوا کچھ اور نہیں اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ ہر طبقاتی سماج میں، خواہ وہ شخصی غلامی پر مبنی ہو، کسان غلامی پر یا موجودہ اجرتی غلامی پر، استحصالی (ظالم) طبقہ ہمیشہ مسلح ہوتا ہے۔ حتی کہ سوئٹزرلینڈ جیسی سرمایہ دارانہ جمہوری ریاست میں بھی
نہ صرف اسٹینڈنگ آرمی بلکہ جدید ملیشیاء بھی مزدور طبقے کے خلاف مسلح سرمایہ داروں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ ایسا ابتدائی سچ ہے جس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں۔” (لینن، مزدور انقلاب کا فوجی پروگرام).

اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ دار ریاستوں میں اسٹینڈنگ آرمی مزدور طبقے کے خلاف سرمایہ داروں کا مسلح بازو ہوتی ہے، کوئی ایسا غیرجانبدار ریاستی محکمہ یا ادارہ نہیں جسے سرمایہ دارانہ نظام یا سرمایہ دارانہ ریاست کے مفاد سے جدا کر کے، اس سے الگ تھلگ کر کے، دیکھا جائے۔

اسٹینڈنگ آرمی کا ذمینداروں اور سرمایہ داروں سے کیا تعلق ہوتا ہے اس بارے میں لینن کہتا ہے: “سرمایہ دار بیوروکریسی کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، جو عوام سے بالاتر وجود رکھتی ہے تاکہ پولیس اور اسٹینڈنگ آرمی کو محفوظ رکھا جائے، جو عوام سے کٹی ہوئی ہے اور جسے غیر منتخب شدہ جرنیل اور افسران کمانڈ کرتے ہیں۔ اور یہ جرنیل اور افسران جب تک منتخب شدہ نہیں ہوں گے تب تک قریباً ہمیشہ ہی یہ زمیندار اور سرمایہ دار ہوں گے۔ دنیا کی تمام جمہوری ریاستوں کے تجربے سے اتنا تو ہم جانتے ہیں۔” (لینن، کسان نمائندوں کی کل روسی کانگریس کے مندوبین کو لکھا گیا کھلا خط).

اس کا مطلب یہ ہے کہ اسٹینڈنگ آرمی براہِ راست زمینداروں اور سرمایہ داروں سے، استحصالی طبقوں سے، جڑی ہوتی ہے۔ اس کے افسران اکثر  زمیندار یا سرمایہ دار ہوتے ہیں۔

اسٹینڈنگ آرمی کا جمہوریت سے کیا تعلق ہے؟ لینن اس کا جواب اس طرح دیتا ہے: “ہماری پارٹی، طبقاتی شعور رکھنے والے مزدوروں اور غریب کسانوں کی پارٹی، ایک مختلف طرح کی جمہوری ریاست کے لیے کام کر رہی ہے۔ ہم ایک ایسی جمہوری ریاست چاہتے ہیں جہاں لوگوں پر دھونس جمانے والی کوئی پولیس نہ ہو؛ جہاں تمام افسران، نیچے سے اوپر تک، منتخب شدہ ہوں اور عوام جب چاہیں انہیں عہدے سے ہٹا سکیں، جنہیں اتنی تنخواہیں دی جائیں جو ہنرمند مزدور کی اوسط اجرت کے برابر ہوں، جہاں تمام افسران اسی طرح منتخب ہوں اور جہاں عوام سے کٹی ہوئی اور عوام سے اجنبی طبقوں کی ماتحت اسٹینڈنگ آرمی کو مسلح عوام سے، مسلح میلیشیاؤں سے بدل دیا جائے۔” (لینن، کسان نمائندوں کی کل روسی کانگریس کے مندوبین کے نام کھلا خط).

اس کا مطلب یہ ہے کہ اسٹینڈنگ آرمی جمہوریت کے آدرشوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ حقیقی، عوامی جمہوریت میں، محدود اور اپاہج سرمایہ دارانہ جمہوریت کی طرح، اسٹینڈنگ آرمی کی نہیں بلکہ عوامی فوج کی ضرورت ہوتی ہے، ایک ایسی فوج کی جس کے افسران عوام سے منتخب شدہ ہوں، جنہیں عوام جب چاہیں عہدے سے ہٹا سکیں، جن کی تنخواہ ہنرمند مزدور کی اوسط اجرت کے برابر ہو۔

سوشلسٹ انقلابوں میں اسٹینڈنگ آرمی کی جانب کیا رویہ اختیار کیا گیا؟ پیرس کمیون کی مثال لیں۔ مارکس کہتا ہے: “کمیون نے اخراجات کے دو سب سے بڑے زریعوں کو، اسٹینڈنگ آرمی کو اور ریاستی عملداریت کو تباہ کر کے سرمایہ دارانہ انقلابوں کے اس نمائشی فقرے کو، سستی حکومت کو، حقیقت میں بدل دیا۔” اس بارے میں لینن کہتا ہے کہ “کمیون کا پہلا حکم نامہ اسٹینڈنگ آرمی کو ختم کرنا اور اس کی جگہ مسلح عوام کو دینا تھا۔” (ریاست اور انقلاب).

روسی انقلاب میں دسمبر 1917 کو بالشویک پارٹی نے فوج کے لیے حکم نامہ جاری کیا جس میں فوج کو عوامی وزیروں کی سوویت کے ماتحت کیا گیا، آرمی یونٹوں کو یونٹ کے سپاہیوں کی کمیٹیوں اور متعلقہ سوویتوں کے ماتحت کیا گیا اور فوج کے افسران کے انتخاب کا اصول وضع کرتے ہوئے یہ حکم دیا گیا: “رجمنٹ کی سطح تک تمام کمانڈروں کا انتخاب متعلقہ یونٹ یا یونٹوں کے سپاہیوں کے عام ووٹ سے کیا جائے گا۔ رجمنٹ کی سطح سے اوپر کے کمانڈروں کو، بشمول کمانڈر-ان-چیف کو، ان فوجی یونٹوں کے سپاہیوں کی کمیٹیوں کی کانگریس کے زریعے منتخب کیا جائے گا جن کے لیے ان کمانڈروں کا انتخاب ہونا ہے۔”

سوشلسٹ انقلاب میں اسٹینڈنگ آرمی کو ختم کیے بغیر، اس میں “اصلاح” کرکے، چند برے جرنیلوں اور افسروں کو خارج کر کے، اسے ایسی فوجی قوت میں بدلنے کے بارے میں جو سوشلزم کے، محنت کش عوام کے، مفادات سے مطابقت رکھتی ہو، لینن کہتا ہے: “ہرجگہ، تمام ملکوں میں اسٹینڈنگ آرمی کو بیرونی دشمن کے خلاف اس قدر استعمال نہیں کیا جاتا جس قدر اسے اندرونی دشمن کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر جگہ اسٹینڈنگ آرمی رجعت کا ہتھیار، محنت کے خلاف جدوجہد میں سرمائے کی خادم، عوامی آزادیوں کی جلاد، بن گئی ہے۔ اس لیے ہمیں آزادی کے اپنے عظیم انقلاب میں محض جزوی مطالبوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ آؤ برائی کو اس کی جڑ سے اکھاڑ دیں۔ آؤ اسٹینڈنگ آرمی سے مکمل پیچھا چھڑا لیں۔۔۔مغربی یورپ کے تجربے نے دکھایا ہے کہ اسٹینڈنگ آرمی کس قدر زیادہ رجعت پرست ہے۔” (لینن، مسلح افواج اور انقلاب).

اس بارے میں اسٹالن کہتا ہے کہ “ہم عوامی ریاست کے حق میں ہیں، اسٹینڈنگ آرمی، بیوروکریسی اور پولیس فورس کے بغیر۔ اسٹینڈنگ آرمی کی جگہ ہم منتخب افسروں کے ساتھ نیشنل گارڈ کا مطالبہ کرتے ہیں۔” (اسٹالن، قانون ساز اسمبلی کے انتخابات).

کیا سوشلسٹ انقلاب کا، اس کی کامیابی کا دارومدار، انحصار، اس بات پر ہے کہ اسٹینڈنگ آرمی اس کا ساتھ دیتی ہے یا نہیں؟ اس بارے میں ٹراٹسکی ازم کا جواب اثبات میں ہے۔ مثلاً ، ٹراٹسکی اس معاملے پر کہتا ہے: “اپنی اصل اہمیت میں، ایک انقلاب ریاست کے کنٹرول کی لڑائی ہے۔ اور اس کا براہِ راست دارومدار فوج پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے تمام انقلابوں نے شدت کے ساتھ یہ سوال اٹھایا: فوج کس کی طرف ہے؟ اور، کسی ایک یا دوسری طرح سے، ہر معاملے میں، اس کا جواب دینا پڑا۔” (لیون ٹراٹسکی، روسی انقلاب کی تاریخ؛ جلد اول؛ زارشاہی کا خاتمہ).

کیا یہاں یہ بنیادی مارکسی-لیننی اصول دہرانے کی ضرورت ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کا دارومدار بنیادی طور پر فوج پر نہیں بلکہ مزدور اور کسان طبقوں کی طاقت پر ہوتا ہے؟ انقلاب کو فوج پر منحصر کرنے کا تصور مزدور انقلاب کا، سوشلسٹ انقلاب کا، تصور نہیں بلکہ سوشلزم کے نام پر فوجی انقلاب کا تصور ہے جس میں انقلاب سے قبل اسٹینڈنگ آرمی کا تعاون اور انقلاب کے بعد ریاستی اقتدار قائم رکھنے کے لیے اسی “اصلاح شدہ” اسٹینڈنگ آرمی کی مدد پر انحصار کرنا ضروری ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سوشلسٹ انقلاب کا یہ ٹراٹسکائی تصور مارکسزم-لینن ازم کے سوشلسٹ انقلاب کے تصور سے نہ صرف میل نہیں کھاتا بلکہ اس کا مخالف ہے۔

جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ جب ہم سرمایہ دارانہ ریاست میں انقلاب کی بات کرتے ہیں اور انقلاب سے فوج کے تعلق کا سوال اٹھاتے ہیں تو اس کا مطلب سوشلسٹ، انقلابی فوج نہیں ہوتی، کیونکہ وہ تو اس وقت موجود ہی نہیں ہوتی، بلکہ اس سے مراد موجودہ اسٹینڈنگ آرمی ہوتی ہے۔ یعنی، اپنی ٹھوس شکل میں سوال یہ ہوتا ہے: کیا اسٹینڈگ آرمی انقلاب کا ساتھ دے گی؟

انقلاب اور اسٹینڈنگ آرمی کے تعلق کے بارے میں  ٹراٹسکی کے دیگر خیالات بھی اس بات کی مزید تصدیق کرتے ہیں۔ وہ روسی انقلاب کے لیے یہ اہداف مقرر کرتا ہے: “فوج کے ساتھ، کسانوں کے ساتھ، اور شہری سرمایہ داروں کی نچلی محنت کش پرتوں کے ساتھ، انقلابی تعاون قائم کرنا۔ مطلق العانیت کا خاتمہ کرنا۔ فوج کی تعمیرِ نو اور جزوی بیدخلی کے  ذریعے مطلق العنانیت کی مادی بنیاد کا خاتمہ کرنا۔” (لیون ٹراٹسکی، ہمارا انقلاب، سوویت اور انقلاب).

سو، ٹراٹسکی کا خیال ہے کہ پرانی، اسٹینڈنگ آرمی کے ساتھ انقلابی تعاون کرنا چاہیے، اسے ختم نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس میں جزوی تبدیلیوں کے  ذریعے اس کی “تعمیرِ نو” کر کے اسے برقرار رکھنا چاہیے۔ انقلاب میں اسٹینڈنگ آرمی ختم کر کے اس کی جگہ عوامی فوج قائم نہیں کرنا چاہیے۔

ایک اور جگہ، روسی انقلاب میں اسٹینڈنگ آرمی کے کردار کے بارے میں، ٹراٹسکی زیادہ واضح انداز سے اپنی اصلاح پسند، پیٹی بورژوا، سرمایہ دارانہ اسکیم کا اظہار کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے:”سپاہیوں کی صفوں میں شاہی مطلق العنانیت کے خلاف بغاوت اولین طور پر کمانڈنگ اسٹاف کے خلاف بغاوت تھی۔ ایک فوج ہمیشہ اس سماج کی نقل ہوتی ہے جس کی وہ خدمت کرتی ہے، اس فرق کے ساتھ، کہ وہ سماجی رشتوں کو ایک مرکوز کردار دیتی ہے، ان کی مثبت اور منفی دونوں خصوصیات کو لے کر۔ شاہیت پسند اور جمہوریت پسند افسروں کے درمیان دراڑ اور بدگمانی فوج کی بحالی کے بجائے اس کے انتشار کی طرف لے جاتی ہے۔ حتی کہ بہت سے جانباز افسران، جو سنجیدگی سے فوج کی قسمت کی فکر کرتے تھے، انہوں نے کمانڈنگ اسٹاف کی عمومی صفائی پر اصرار کیا۔” (لیون ٹراٹسکی، روسی انقلاب کی تاریخ؛ جلد اول؛ زارشاہی کا خاتمہ).

الغرض، ٹراٹسکی کے مطابق، اسٹینڈنگ آرمی کے کمانڈنگ اسٹاف کی “صفائی” کردینا، رجعت پرست افسروں کو بیدخل کردینا، اور “جمہوریت پسند” افسروں کو ان کی جگہ لانا، یہ اسٹینڈنگ آرمی کو “انقلابی” فوج میں بدلنے کے لیے کافی ہے۔ اسٹینڈگ آرمی ختم کرنا ضروری نہیں۔

اس بارے میں لینن کی رائے کیا تھی؟ ٹراٹسکی کے بالکل برعکس، فوج کے سوال پر لینن، جسے ٹراٹسکائی ٹراٹسکی کا “نظریاتی رفیق” کہتے نہیں تھکتے، ایک بالکل متضاد اسکیم پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: “مزدور ایسی فوج نہیں چاہتے جو عوام سے الگ کھڑی ہو،وہ جو چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ مزدور اور سپاہی ایک ایسی ملیشیاء میں ضم ہوں جو تمام عوام پر مشتمل ہو۔ اس میں ناکامی سے استحصال کے آلے کی قوت قائم رہے گی۔۔۔۔ استحصال کے پرانے اداروں کو، بیوروکریسی، پولیس اور اسٹینڈنگ آرمی کو، تمام عوام کو مسلح کرنے سے، ایک آفاقی ملیشیاء سے، بدل دینا ہی وہ واحد راستہ ہے جو کسی ملک کو (سرمایہ داری) کی بحالی کے خلاف ضمانت دے سکتا ہے۔” (لینن، ایک مزدور ملیشیاء).

اسٹینڈنگ آرمی کو قائم رکھنے اور اسے انقلابی فوج میں بدلنے کے لیے ٹراٹسکی “کمانڈنگ اسٹاف کی صفائی” کی ترکیب پیش کرتا ہے جبکہ اس کے بالکل برخلاف لینن کا خیال یہ ہے کہ اسٹینڈنگ آرمی کو ختم کیا جائے اور اس کی جگہ عوامی فوج تشکیل دی جائے تاکہ انقلاب کا دفاع کیا جا سکے۔

لینن مزید وضاحت کرتا ہے: “عوام سے بالاتر پولیس فورس کے زریعے، بیوروکریٹوں کے زریعے، جو سرمایہ داروں کے وفادار خدمت گزار ہیں، اور سرمایہ داروں اور زمینداروں کی ماتحت اسٹینڈنگ آرمی کے زریعے کی جانے والی پبلک سروس – یہ سرمایہ دارانہ پارلیمانی جمہوریاؤں کا آئیڈیل ہے جو سرمائے کی حکمرانی کو دوام بخشنے کے لیے ہے۔ (اس کے برعکس) ایک عوامی ملیشیاء کے  ذریعے پبلک سروس، جو مرد و خواتین پر مشتمل ہو، ایک ایسی ملیشیاء جو جزوی طور پر بیوروکریٹوں کی جگہ لینے کے قابل ہو، یہ چیز، اور منتخب شدہ آفس اور تمام پبلک افسروں کو بیدخل کرنے کے اختیار کے اصول کے ساتھ، مزدوروں کی اجرت کے مطابق انہیں تنخواہ دینے کے ساتھ، “مالک طبقے” کے، سرمایہ دارانہ معیارات کے ساتھ نہیں، یہ ہے مزدور طبقے کا آئیڈیل۔” (لینن، ایک مزدور ملیشیاء).

لینن کا خیال ہے کہ اسٹینڈنگ آرمی کو فورا ختم کردینا چاہیے مگر ٹراٹسکی اسٹینڈنگ آرمی کو برقرار رکھنے کے لیے اسے آہستہ آہستہ ملیشیاء میں بدلنے کا منصوبہ پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے:”اسٹینڈنگ آرمی سے ملیشیاء میں بتدریج منتقلی کے دور میں، علاقائی-معاشی ضلعوں کو لازما دونوں کی بنیاد بننا چاہیے، سوویت علاقائی-انتظامی نظام کی بھی (خطہ، ضلع، اوزید، ولوست) اور مقامی فوجی اداروں کی بھی (وزارتیں -کمیساریتیں)۔” (لیون ٹراٹسکی، عالمی لیبر سروس کی جانب منتقلی).

ٹراٹسکی کا خیال ہے کہ جب تک اسٹینڈنگ آرمی ملیشیاء میں تبدیل نہیں ہوجاتی تب تک ہر ضلعے میں سوویتوں کو ، یعنی عوامی حکومتی اداروں کو، اور مقامی فوجی اداروں کو، یعنی اسٹینڈنگ آرمی کو، ایک دوسرے سے الگ رکھا جائے، یعنی، فوج سوویتوں کے تابع نہ ہو، فوج کی کمانڈ عوامی حکومت کے کنٹرول میں نہ ہو بلکہ اس سے آزاد اور خودمختار ہو۔ کوئی بھی اس بات پر حیران ہو سکتا ہے کہ اسٹینڈنگ آرمی، جو پہلے ہی عوام سے کٹی ہوئی فوج ہوتی ہے، اسے عوامی حکومت کے کنٹرول سے الگ اور آزاد رکھ کر، عوامی فوج میں کیسے بدلا جا سکتا ہے؟ اسٹینڈنگ آرمی کو آہستہ آہستہ عوامی فوج میں بدلنے کے بارے میں ٹراٹسکی کی یہ ترکیب بھی بنیادی طور پر اسٹینڈنگ آرمی کو مختلف حیلوں بہانوں سے برقرار رکھنے کی اصلاح پسند ترکیب ہے۔

حالانکہ، جیسا کہ اوپر بتایا گیا، بالشویک حکومت نے دسمبر 1917ء میں اسٹینڈنگ آرمی کو ختم کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا، تاہم ٹراٹسکائی عناصر نے اسٹینڈنگ آرمی برقرار رکھنے کے لیے مزاحمت جاری رکھی۔ مثلاً ، اس معاملے پر جاری بحث مباحثے میں مشہور ٹراٹسکائی جرنیل، تکاشیفسکی کا مؤقف کچھ یوں تھا: “ملیشیاء سسٹم کے حمایتی پوری دنیا میں سوشلسٹ انقلاب کو پھیلانے کے سوویت یونین کے موجودہ فوجی مشن پر بالکل بھی دھیان نہیں دیتے۔ سوشلسٹ انقلاب اور سوشلسٹ زندگی کی مالامال قسموں کو بزور کسی ایک فریم ورک میں محدود نہیں کیا جا سکتا۔ وہ لامحالہ پوری دنیا میں پھیلیں گی اور ان کی بڑھتی ہوئی قوت تب تک برقرار رہے گی جب تک دنیا میں ایک بھی سرمایہ دار باقی ہے۔۔۔ایک بات، بہرحال، یقینی ہے: اگر سوشلسٹ انقلاب کسی ملک میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کے پاس وسیع ہونے کا مسلمہ حق ہوگا، اور یہ پڑوسی ملکوں میں اپنا فوری غلبہ محسوس کرواتے ہوئے پوری دنیا کا احاطہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کا سب سے طاقتور آلہ، فطری طور پر، اس کی فوجی قوت ہوگی۔”

سو، جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جنرل تکاشیفسکی عوامی فوج (ملیشیاء) کے خلاف ہے اور اس کے نزدیک سوشلسٹ انقلاب کا انحصار اسٹینڈنگ آرمی پر ہے تاکہ سوشلسٹ ملک فوجی طاقت کے  ذریعے دنیا کے دوسرے ملکوں پر سوشلزم مسلط کر سکے۔ سوشلزم کو دوسرے ملکوں میں امریکی جمہوریت کی طرح “ایکسپورٹ” کرنا اور وہ بھی فوجی طاقت کے زریعے، کیا واقعی حقیقی، مارکسی-لیننی سوشلزم میں اس کی گنجائش ہے؟ اس بارے میں فریڈرک اینگلز کہتا ہے: “فتحیاب مزدور طبقہ اپنی جڑیں کاٹے بغیر بیرونی اقوام کو بزور طاقت کسی بھی قسم کا فیض نہیں پہنچا سکتا۔” (اینگلز، ویانا میں کارل کاؤتسکی کو خط).

اس بارے میں لینن کہتا ہے:” حقیقی بین الاقوامیت کی ایک اور صرف ایک قسم ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے ملک میں انقلابی جدوجہد اور انقلابی تحریک کی ترقی کے لیے دل و جان سے کام کیا جائے اور تمام دوسرے ملکوں میں، بلا استثناء، صرف اور صرف اس جدوجہد کی (پروپیگنڈہ، ہمدردی اور مادی امداد کے زریعے) مدد کی جائے۔ اس کے سوا جو بھی ہے محض دھوکہ اور خیالی پلاؤ ہے.” (لینن، ہمارے انقلاب میں مزدور طبقے کے فرائض).

“انقلاب کو ایکسپورٹ کرنا،” اسٹالن کہتا ہے، “احمقانہ بات ہے۔ ہر ملک اپنا انقلاب خود کرے گا اگر وہ کرنا چاہتا ہے، اور اگر وہ نہیں کرنا چاہتا تو انقلاب نہیں ہوگا۔” (اسٹالن، رائے ہارورڈ کو دیا گیا انٹرویو).

Advertisements
julia rana solicitors

سو، ہمارے سامنے سوشلزم میں فوج کے سوال پر دو بالکل مختلف، متضاد، نظریے ہیں۔ ایک مارکسی-لیننی انقلابی نظریہ ہے جس کے مطابق فوج کے سوال پر سوشلزم کا پروگرام یہ ہے کہ اسٹینڈنگ آرمی کو ختم کیا جائے اور اس کی جگہ عوامی فوج (عوامی ملیشیاء) قائم کی جائے، فوج یا کسی بھی دوسرے زریعے سے انقلاب کو دوسرے ملکوں میں ایکسپورٹ نہ کیا جائے۔ دوسرا نظریہ اصلاح پسندی اور مہم جوئی کا پیٹی بورژوا سرمایہ دارانہ، ٹراٹسکائی نظریہ ہے جو اسٹینڈنگ آرمی میں تھوڑی سی تبدیلیاں کر کے اسے برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اس کی جگہ عوامی فوج تشکیل دینا نہیں چاہتا، جو انقلاب کی کامیابی کو اسٹینڈنگ آرمی سے مشروط کرتا ہے اور جو فوجی طاقت کے زریعے انقلاب کو دوسرے ملکوں میں ایکسپورٹ کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply