پاکستانی نوجوان، سی ایس ایس اور دیگر خواب۔۔صدام جمالی

جب سے حالیہ سی ایس ایس (Central Superior Service) امتحانات کا نتیجہ آیا ہے جس میں مختلف باصلاحیت نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے میدان مارا ، ہر طرف ان کی کامیابی کے چرچے سنائی دے رہے رہیں۔ سب سے نمایاں خبر جس نے سوشل میڈیا پر کافی جگہ گھیری ہوئی ہے وہ ان پانچ بہنوں کی کہانی ہے (جنہیں شیر بہنیں بھی کہا جاتا ہے ) جنہوں نے اس امتحان میں یکے بعد دیگرے مسلسل کامیابی کا انوکھا ریکارڈ قائم کیا اور شاید وہ واحد خاندان ہے جس میں تمام عورتیں بیوروکریٹ بنی ہوں۔

امتحان میں کامیابی کے نتائج آنے کے ساتھ ہی مبارک باد وں کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے زیادہ مبارک باد کی مستحق یہی پانچ بہنیں ٹھہریں۔ تقریباً تمام پاکستانی بشمول لبرل حلقوں کی جانب سے انہیں خوب سراہا گیا اور بعض ترقی پسند حلقوں کی جانب سے اسے معاشرے میں عورتوں کے کیلئے عمومی سطح پر ایک نمایاں کامیابی قرار دیا گیا ۔ اس وقت یہ پانچ بہنیں جنہیں سی ایس ایس بہنوں کا لقب بھی ملا ہے ، ہر طرف خبروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔

جہاں ایک طرف کامیاب ہونے والے امیدواروں کی تعریف اور انکے لیئے نیک تمناؤں کا سلسلہ جاری ہے، وہیں پر دوسری جانب ان کی کامیابی پر تنقید اور سی ایس ایس امتحانات کی افادیت پر اعتراضات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مختلف قسم کے سوالات جنم لیتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ جیسے کہ بعض حلقوں کی جناب سے یہ اعتراض اٹھایا جاریا ہے کہ ان پانچ بہنوں میں ایسی کون سی صلاحیت ہے جس کہ بطور انہوں نے اس مشکل امتحان میں پہ در پہ کامیابی حاصل کی جبکہ کئی انتہائی قابل پاکستانی اس میں فیل ہوتے نظر آئے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک نقطہ یہ بھی اٹھایا گیا کہ آیا سی ایس ایس امتحان کسی انسان کی قابلیت اور محنت کا تخمینہ لگانے کیلئے درست اور موزوں طریقہ ہے ؟

اس سوال کے کئی جواب ہو سکتے ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق انسان کی قابلیت کو پرکھنے کیلئے کوئی ایک واحد امتحان ایسا نہیں جو ہر لحاظ سے انکی صلاحیتوں کا درست تعین کرے۔ ہر انسان ایک منفرد سوچ اور تربیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کی قابلیت اور صلاحیت بھی اسی حساب سے دوسرے انسانوں کے برعکس مختلف ہوتی ہیں۔ لہٰذہ تمام انسانوں کو ایک ہی پیمانے میں رکھ کر تولنا ناانصافی ہوگی ۔ اسی طرح مختلف طبقہ ہائے فکر کی جانب سے سی ایس ایس امتحان کا طریقہ کار اور اس کے نتائج پر تنقید سننے میں آئی ہے ۔

دسری جانب وہ لوگ بھی ہیں جو اس امتحان میں کامیابی کو ایک قابل فخر عمل سمجھتے ہیں اور یہ موقف رکھتے ہیں کہ ایک انسان سی ایس ایس کے مختلف مراحل ، مضامین کے تحریری امتحانات و انٹرویو سے گزر نے کے بعد ہر لحاظ سے کامیابی کا مستحق ہوتا ہے۔ اس کامیابی کے پیچھے دن رات کی محنت، کئی ساری کتابیں پڑھنا ، ان سے اکھٹی کی گئی معلومات کو ایک مفصل انداز میں مضمون کی صورت میں ایک خاص دورانیئے کے اندر پیش کرنا شامل ہوتا ہے جو کسی معمولی ذہن کے بس کی بات نہیں۔ لحاظہ سی ایس ایس امتحان پاس کرنے والے افراد انتہائی قابل ذہن کے مالک ہوتے ہیں اور انکی کامیابی پر وہی لوگ شک کرتے ہیں جو ان سے کم درجے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا پھر دوسروں کی کامیابی سے حسد ، بغض و کینہ رکھتے ہیں۔

چونکہ اس بارے مختلف طبقہءِ فکر کی مختلف آراء ہیں، لحاظہ کسی ایک رائے کو مستند یا حتمی تسلیم کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اگر سی ایس ایس امتحان کو محض ایک کھیل سمجھا جائے تو ان نوجوانوں کے جذبات کی توہین ہوگی جو سالہا سال اس کیلئے انتھک محنت کرتے ہیں اور اپنے ماں باپ، خاندان ، اساتذہ اور عزیز و اقارب کا سر فخر سے بلند کرتے ہیں ۔
مگر دوسری جانب کچھ حلقوں کی طرف سے یہ تنقید سننے میں آتی ہے کہ پاکستان میں سی ایس ایس امتحان پاس کرنے والوں کو غیر معمولی حد تک اہمیت دی جاتی ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ چاہے آپ کتنے ہی قابل اور ذہین کیوں نہ ہوں، اگر آپ سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے میں ناکام رہے تو آپ کی صلاحیت پر شک کیا جا سکتا ہے۔ معاشرے میں جو مقام ایک سی ایس ایس افسر کا ہوتا ہے، وہ مقام ایک ڈاکٹر، انجنیئر، فنکار ، سیاست دان حتیٰ کہ ایک استاد کو بھی حاصل نہیں ہوتا۔ جو کہ ایک لحاظ سے باقی شعبوں سے تعلق رکھنے والے قابل انسانوں کی توہین ہے۔ یہی رویہ اکثر اوقات ان نوجوانوں کی لیئے انتہائی مایوس کن ثابت ہوتا ہے جو آیا سی اسی ایس کے امتحان میں پاس نہیں ہوتے یا دوسری وجوہات کی بناء پر کسی اور شعبہ زندگی سے منسلک ہوجاتے ہیں۔

پاکستان میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بحث طول پکڑتی جارہی ہے کہ آیا سی ایس ایس امتحانات ہی کسی انسان کی قابلیت جانچنے کا واحد ذریعہ ہیں؟ میری ناقص رائے میں اس کا جواب ہوگا “نہیں”۔ میری کوشش ہوگی کہ اس کیلئے موثر دلائل پیش کر سکوں ۔ سب سے پہلے میں پڑھنے والوں کی توجہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب مرکوز کرانے کی کوشش کروں گا جہاں اکیسویں صدی میں کسی بھی انسان کی قابلیت کا معیار جانچنے کے مختلف طریقے زیر استعمال لائے جاتے ہیں ۔ امید یہ ہے کہ ان طریقوں پر روشنی ڈالنے سے ہمیں اپنے کامیابی کے معیار کو جانچنے اور پرکھنے میں مدد ملے گی۔

سب سے پہلے ہم ان امتحانات کی بات کرتے ہیں جو کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں قابلیت جانچنے کا اہم ذریعہ ہوتی ہیں۔ اگر مغربی ممالک کی بات کی جائے تو مندرجہ ذیل امتحانات میں آپ کا اسکور یا نتیجہ آپ کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں کافی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں :
1۔ GRE General and GRE Subject
2۔ SAT exam
3۔ IELTS
4۔ TOEFEL
5۔ CCNA
6۔ CCNP
مندرجہ بالا امتحانات میں سے پہلے دو امتحانات امریکہ اور دیگر ممالک میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے جامعات میں داخلہ لینے والے امیدواروں کی جانچ پڑتال کا اہم ذریعہ ہوتی ہیں۔ اگر ان امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل ہو تو آپ فل برائیٹ Fullbright جیسے اسکالر شپ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ FullBright وظیفہ دنیا میں ایک اہم مقام رکھتا ہے اور اسے حاصل کرنے والے امیدوار امریکہ کے بہترین اداروں میں اعلیٰ تعلیم کیلئے جاسکتے ہیں ۔

اس کے ساتھ ہی اگر آپ انگریزی زبان میں اپنی مہارت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں تو IELTS یا TOEFEL امتحان میں اچھے نتائج کی صورت میں پوری دنیا میں آپ کی انگریزی زبان بولنے، سننے ، لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت کو جانا اور مانا جاتا ہے ۔
آخری دو امتحانات CCNA اور CCNP کا تعلق شعبہ کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی Information Technology سے ہے ۔ ان امتحانات میں نمایاں کامیابی کی صورت میں آپ کو دنیا کی مشہور ترین کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کی کمپنی میں نوکری کا موقع مل سکتا ہے۔

اوپر دی گئی معلومات سے آپ کو آشنا کرنے کا مقصد وہ فرق واضح کرنا تھا جو ہمارے قابلیت کے معیار اور مغربی ممالک کے معیار کے درمیان ہے ۔ حیرت انگیز طور پر اوپر دیئے گا امتحانات میں سی ایس ایس کا ذکر کہیں موجود نہیں۔ یہاں میرا مقصد سی ایس ایس میں کامیاب ہونے والے دوستوں کی دل آزاری ہر گز نہیں ۔ بلاشبہ آپ سب انتہائی قابل لوگ ہیں اور ہمارے ملک سمیت کسی بھی ملک کی انتظامیہ کو چلانے میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوتے ہیں۔ پڑھے لکھے اور قابل افراد ملک کے انتظامی امور اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی، امن و امان کی صورتحال اور دیگر بنیادی ضروریات جیسے تعلیم اور صحت کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور امید ہے کہ سی ایس ایس امتحان میں پاس ہونے والے نوجوان اس ملک اور معاشرے کو اپنی قابلیت کی بناء پر ایک اچھے رخ کی جانب موڑنے کی کوشش کریں گے ۔

تحریر کا مقصد صرف یہ باور کرانا تھا کہ سی ایس ایس امتحان انسانی قابلیت کو جانچنے اور پرکھنے کا واحد معیار ہر گز نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا بھر میں سی اسی ایس امتحان میں کامیابی کے اسی طرح چرچے ہوتے جس طرح پاکستان میں ہوتے ہیں۔ واشنگٹن کا ڈپٹی کمشنر بھی فیس بک اور ٹویٹر پر اتنا ہی مشہور ہوتا جتنا اسلام آباد یا کوئٹہ کے ڈی سی صاحب ہیں۔ مگر اس ناچیز کو وہاں کے انتظامی امور سنبھالنے والے افراد میں سے شاید ہی کوئی فیس بک اور ٹویٹر پر اتنا مشہور و معروف نظر آیا ہو۔ اگر وہاں کی مشہور شخصیات کی فہرست نکالنے کی کوشش کریں تو سائنسدان، ڈاکٹر ، جامعات کے پروفیسر ، لکھاری اور تحقیق دان ہی ٹویٹر اور فیس بک پر راج کرتے دکھائی دیں گے ۔ امید ہے یہ تحریر پڑھنے کے بعد سی ایس ایس پاس نہ کرنے والے افراد دلبرادشتہ ہونے کے بجائے اپنی دیگر قابلیتوں اورصلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر توجہ دیں گے اور اپنے آپ کو معاشرے کا اتنا ہی اہم حصہ سمجھیں گے جتنا ایک اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر یا تحصیلدار ہوتا ہے ۔
اس کے ساتھ ہی سی ایس ایس میں کامیاب ہونے والے حضرات جو اس وقت افسر شاہی کا حصہ ہیں، اس احساس کے حامل ہوجائیں کہ ان کے علاوہ ملک کے دیگر شعبہ جات میں اپنی خدمات سر انجام دینے والے افراد جیسے ڈاکٹر، انجنیئر ، لکھاری اور استاد وغیرہ بھی اپنی صلاحیتیوں کے حساب سے اتنے ہی قابل احترام وتحسین ہیں جتنا ایک بیوروکریٹ ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستان میں
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پاکستانی نوجوان، سی ایس ایس اور دیگر خواب۔۔صدام جمالی

  1. meri naqis rai k mutabik ye system colonies k leay bnaea gya tha secondly is me qablieat ka myaar sirf english hy aur wo b classical type ke js mulk ke 70% abadi village me rehti ho jo urdu b km smjhty hain un k masail k hl k leay English zda log hain…… amazing……

Leave a Reply