چینی یا امریکی /اظہر سید

اسٹیبلشمنٹ مخمصے کا شکار ہے ۔امریکی سفیر کو گوادر کا دورہ کراتی ہے اور ساتھ میں سی پیک کو تعطل کا شکار بنانے اور ریاست کو دیوالیہ کرانے کی گھنٹی باندھنے کیلئے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی پتلی گردن کا انتخاب بھی کرتی ہے ۔
اچھے اور برے طالبعلموں کی پالیسی دو کشتیوں کی سواری تھی ۔اسٹیبلشمنٹ کے ہر دور کے “گزشتہ چالیس سال” مالکان بظاہر اب بھی دو کشتیوں کی سواری کے رومانس میں مبتلا ہیں ۔حالات اب دو کشتیوں کی سواری  کیلئے سازگار نہیں ۔امریکی کشتی یا چینی کشتی اس کا فیصلہ جلد بدیر کرنا ہی پڑے گا ۔

جی ایچ کیو اور پینٹاگون کا رومانس مالکوں کے تحفظ کا باعث تو بنا لیکن اس رومانس کے نتیجہ میں ریاست دیوالیہ ہو گئی اور افراتفری کا شکار بھی ۔آپریشن 2018 سہ جہتی آپریشن تھا ۔بظاہر نواز شریف کو سی پیک کے ثمرات سمیٹنے سے روکنا تھا معاشی ترقی سے ناقابل تسخیر ہو کر ترکی ماڈل کا اردگان نہ بن جائے ۔دوسری جہت سی پیک تھا ۔کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا ،آپریشن 2018 کا ہدف سی پیک تھا لیکن نواز شریف کو گرانے کا منطقی نتیجہ سی پیک کے تعطل کی صورت میں نکلا ۔کوئی بھی یہ بات تسلیم نہیں کرے گا ،آپریشن 2018 کی تیسری جہت تیزی سے ٹیک آف کرتی پاکستانی معیشت تھی ۔

نواز شریف کی فراغت سے سی پیک نشانہ بنا اور معاشی تباہی سے ایٹمی اثاثے اور میزائل ٹیکنالوجی خطرے میں آئی ۔

پانی خطرے کے نشان سے اوپر گیا تو کہیں کہیں  ذمہ داری سے بچنے کی تگ و دو شروع ہوئی اور نوسر باز سے نجات کیلئے اپوزیشن کے ترلے منتیں شروع ہوئے ۔

بظاہر نوسر باز سے نجات حاصل کر لی گئی لیکن سائفر پر ایک جھوٹ پر مبنی بیانیہ بنانے کی مکمل اجازت دی گئی اور اسوقت تک گرفتار نہیں کیا گیا جب تک اس نے جنرل باجوہ کا نام لے کر فوج کو اچھی طرح بدنام نہیں کر دیا ۔

سپریم کورٹ میں چار ججوں کا ٹولہ اور مالکوں میں جنرل باجوہ ،فیض حمید اور دیگر باقیات دو کشتیوں کی سواری کرتے رہے ۔ریاست کی لٹیا ڈبوتے رہے ۔چینیوں کے سینہ پر مونگ دلتے رہے ۔ملک کو نادہندگی سے بچانے کے نام پر پی ڈی ایم حکومت سے سخت فیصلے کروا کر انہیں ولن بناتے رہے ۔

اب فیصلہ کن گھڑی ہے تو اب بھی فیصلہ نہیں کیا جا رہا چینی کیمپ میں جانا ہے یا امریکی کیمپ میں مستقل رہائش رکھنا ہے ۔

حکومت اور وزارت دفاع نے فیض آباد دھرنہ فیصلے کے خلاف اپیل واپس لے کر پیغام دیا ہے اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ریٹائرڈ ڈی جی آئی ایس آئی سے کوئی سروکار نہیں ۔

بظاہر یہ دلیل ہے اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہو چکی ہے لیکن معاملہ جنرل فیض حمید کا نہیں بلکہ اس پوری لاٹ کا ہے جو 2018 آپریشن کے خالق تھے اور اس لاٹ کی سربراہی سابق چیف جنرل باجوہ کر رہے تھے ۔

جنرل فیض حمید کی گردن پتلی بنا کر ناکامی کی گھنٹی ان کے گلے میں باندھنے سے کام نہیں چلے گا ۔کھیل میں چینی اور روسی بھی شامل ہیں۔

نواز شریف ،زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کا 2018 کے آپریشن میں شامل ججوں اور دو جنرلوں کے احتساب کا مطالبہ اصل میں سی پیک پر سرمایہ کاری بحال کرنے کی چینی شرط ہے اور صرف جنرل فیض حمید پر زمہ داری ڈالنے سے کام نہیں چلے گا ۔

آج بارہ ربیع الاوّل کے روز جو خودکش حملے ہوئے ہیں وہ بتاتے ہیں کھیل پوری شدت سے جاری ہے ۔اس کھیل میں کون جیتے گا اسکا نتیجہ اسوقت نکلے گا جب چینی یا امریکی کیمپ کا انتخاب کر لیا جائے گا ۔
پینٹا گون کی جڑیں اس ملک میں بہت گہری اور دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔جس سطح کا انفراسٹرکچر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ریاست کے تمام اداروں میں پھیلا ہوا ہے اسی طرح کا انفراسٹرکچر پینٹاگون کا بھی تو ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حافظ صاحب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی قیادت اس مرحلہ میں کر رہے ہیں جب ریاست دیوالیہ ہو چکی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے سابق مالکان کو قصور وار ٹھہرا کر سزا دینے کا چیلنج ان کے سامنے ہے ۔یہ بہت بڑا چیلنج ہے ۔جہاں جنرل ایوب ،جنرل یحیٰی ،جنرل ضیا اور جنرل مشرف کو تحفظ دیا گیا وہاں جنرل باجوہ کو تحفظ ملے گا کہ نہیں یہ وہ ملین ڈالر سوال ہے جس کے جواب میں چینی یا امریکی کیمپ میں جانے کا فیصلہ چھپا ہوا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply