کتوں پر ایک مضمون۔۔۔معاذ بن محمود

یہ سوشل میڈیا ہے مگر آج کل یہاں کت خانے کا عالم ہے۔۔ بہت سے کتوں کے درمیان اکا دکا انسان بھی دکھائی دے گا مگر اس حال میں کہ کتوں کے آگے بے بس۔ کتوں کی خاص خوبی ان کا بھونکنا ہے۔ کتا چونکہ جانور وفادار ہے لہذا اسے کوئی غرض نہیں کہ اس کا مالک تاجر ہے، سیاستدان ہے یا کھلاڑی۔ کتے کا کام فقط مالک کے لیے بھونکنا ہے۔

کتے کو ہڈی سے زیادہ مالک کے دو بول منظور رہتے ہیں۔ مالک جانے کتنے ہی وعدے کر کے مکر جائے، کتنے ہی جھوٹ بولتا رہے، کتے کے کتے پنے سے بچنے کے لیے پیار کے دو بول ہی کافی رہتے ہیں۔ مالک اگر سیاستدان ہو تو ان کتوں کے لیے سیاسی بیانات بھی کافی ہوتے ہیں۔ کتے کو مالک کی آواز سن کر خود بخود سکون آجاتا ہے۔ کتے کی تربیت میں حملہ کرنا شامل کر دیا جائے تو وہ مالک کے اشارے پہ حملہ کرنا سیکھ جاتا ہے۔ کتے کا کتا پن بڑھ جائے تو وہ حملے کے لیے مالک کے اشارے کا انتظار بھی نہیں کرتا۔

کتے پالتو بھی ہوسکتے ہیں اور غیر پالتو بھی، خاندانی بھی اور کراس بھی، دیسی بھی ہوسکتے ہیں اور ولائیتی بھی۔ غرضیکہ کتوں کی کئی اقسام ہیں۔ انسان مانتے ہیں کہ کتوں کی بدترین قسم وہ ہے جو سوچنے سمجھنے سے عاری ہے۔ ایسے کتے ناپسندیدہ انسانوں پر بھونکنے پہ ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ کاٹنے کو بھی دوڑتے ہیں۔ ایسے کتوں کو پاگل کتا مانا اور جانا جاتا ہے۔ عموماً یہی کتے انسانوں کے آگے کتا پن دکھانے کا سبب بنتے ہیں۔ کتے اپنے دشمن میں کسی قسم کی تخصیص نہیں کرتے۔ کتوں کے لیے مرد، عورت، بہن یا بھائی سب پہ بھونکنا اور سب کو کاٹنا جائز ہوتا ہے۔ کتوں کے لیے بڑوں چھوٹوں پہ بھونکنے کی بھی کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ کتے پاگل ہوں تو اپنے باپ سے بڑی عمر کے انسان پر بھی بھونک سکتے ہیں اور اگر پٹہ بندھا ہو تو اپنی اولاد کا کتا پن بھی برداشت کر جاتے ہیں۔

کتے جب جب انسانوں پہ بھونکے انسان کو خوف آیا۔ البتہ انسان اگر بہادر ہو تو ان کے بھونکنے کی پرواہ نہیں کرتا۔ ایسے میں انسان انہیں پتھر مارتا ہے اور یہ چیاؤں چیاؤں کرتے نو دو گیارہ ہوجاتے ہیں، مگر بھونکنا نہیں بند کرتے۔ اپنے غول کے ساتھ ملتے ہیں اور پھر چیاؤں چیاؤں شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ کتے گلیوں محلوں میں کھڑے انسان کی کمزوریوں کا انتظار کرتے ہیں تاکہ انہیں اپنی تھوتھنیاں اور نوکیلے دانت دکھا کر ڈرا سکیں۔ انسان کی کمزوری عموماً اس کا خاندان ہی ہوتا ہے لہذا یہ کتے ڈھونڈ ڈھونڈ کر بہادر انسان کے خاندان پہ اپنی  جھاگ اڑاتے ہیں، دانت دکھاتے ہیں اور بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھاتے ہیں۔ ایسے میں انسان کی بہو بیٹی اگر بہادر ہو تو ٹھیک ورنہ یہ انہیں غائب ہوجانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایسے کتے میری نظر میں صرف کتے ہی نہیں نامردی کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ حافظ صفوان صاحب کی ماہرانہ رائے میں ایسے کتوں کو لینڈی کتوں میں شمار کیا جانا چاہیے اور انہیں نجیب الطرفین کتوں سے الگ سمجھنا چاہیے۔ لینڈی کتے کی اصطلاح کو مزید پڑھنے کے لیے فیروز اللغات یا فیروز الرجال حافظ صفوان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مہذب معاشروں میں پاگل کتوں کو گولی ماری جاتی ہے البتہ ہمارے یہاں انہیں سرمایہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ مخالفین پر بھونکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاگل کتوں کا شافی علاج اب تک مکمل طور پر موجود نہیں البتہ ایک آزمودہ نسخہ ہے جس کے ذریعے کتوں کے بھونکنے کی صلاحیت ختم کی جاسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق کتوں کی دم کے عین نیچے سرسوں کا تیل لگادیا جائے تو یہ بھونکنے کے لیے درکار پریشر بنانے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ یوں ان کا بھونکنا بند ہوجاتا ہے اور کاٹنے کا کانفیڈینس بھی اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ ایسے کتوں کا ایک اور علاج انہیں مزید بھونکنے پر مجبور کرنا ہے۔ یوں گویا بھونکتے بھونکتے یہ کتے اپنے حسد کی آگ میں جلنے لگتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

راقم کے نزدیک یہی ان کتوں کی سزا ہے۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply