شوگر کا مرض کلچر کا حصّہ بن چکا ہے؟/ضیغم قدیر

بچپن میں اکثر شوگر کے مریض دیکھ دیکھ کر پریشان ہوتا تھا تب لوگوں کی زبان پر شوگر کا نام نیا نیا آیا ہوا تھا اور میں حیران ہوتا تھا کہ یہ کس بلا کا نام ہے؟ تب کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ یہ بیماری ہمارے کلچر کا حصہ بن جائے گی اور تقریبا ہمارے ہر خاندان کا ایک آدھ فرد اس کا شکار بن جائے گا۔

 

 

 

 

آج پاکستان میں تقریباً  ہر تیسرا شخص اس بیماری کا شکار ہے۔ اگر ہم نمبروں میں یہ بات کریں تو ان کی تعداد تین کروڑ تیس لاکھ سے اوپر چلی جاتی ہے۔ حالانکہ یہ مکمل درست نمبر نہیں ہیں بلکہ اصل تعداد اس سے بڑھ کر ہو سکتی ہے۔

شوگر کیا ہے؟ شوگر جس کو ہم میڈیکل ٹرمینالوجی میں ذیابطیس میلائٹس بھی کہتے ہیں دراصل کاربوہائیڈریٹس یا پھر شوگرز کو جسم کا حصہ بنانے میں خرابی کا نام ہے۔ اس بیماری میں ہمارے خون میں موجودد گلوکوز کا لیول لمبے عرصہ تک اوپر رہنا شروع کر دیتا ہے۔

عموما گوکوز کے اس ہائی لیول کی وجہ ہمارے جسم میں موجود انسولین، جو کہ اس گلوکوز کو زیر استعمال لانے میں مدد دیتی ہے، کے اخراج یا پھر اس کو زیر استعمال لانے میں خرابی ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں ایک ٹائپ ون ذیابطیس ہے جس کی وجہ ہمارے مدافعت کے نظام میں موجود کچھ خرابیاں ہو سکتی ہیں اور یہ بچپن سے ہی ہوتی ہے اور دوسری قسم ٹائپ ٹو ذیابطیس ہے جو کہ زندگی کے باقی حصے میں لبلبے کی بیماری کی وجہ سے کبھی بھی ہو سکتی ہے۔

ذیابطیس سے پیدا ہونے والی اضافی بیماریاں

ذیابطیس بذات خود ایک سادہ سی بیماری نہیں ہے بلکہ یہ اپنے ساتھ بہت سی دیگر بیماریاں بھی کھینچ لاتی ہے۔ عموما اگر آپ کو بچپن میں ذیابطیس نہیں تھی اور آپ کو بعد میں ہو رہی ہے تو اس میں آپ کی جنیٹکس کے ساتھ ساتھ رہن سہن کا بھی تعلق ہے جس کی وجہ سے ذیبابطیس ہوئی ہے۔

اگر ہم فقط ذیابطیس کے ساتھ آنے والی دوسری بیماریوں کے ‘تحفے’ کی بات کریں تو ان میں سب بڑا نمبر دل کی بیماریوں کا ہے اور اس کی وجہ سے آجکل سب سے زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔ آپ اکثر سنتے ہونگے کہ فلاں شخص بالکل ٹھیک ٹھاک تھا لیکن اچانک سے دل کا دورہ پڑنے سے سوتے ہوئے یا فلاں جگہ فوت ہوگیا تو عموما اگر ہم اس شخص کی میڈیکل ہسٹری دیکھیں تو اس میں ذیابطیس پہلے نمبر پر آئے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ ذیابطیس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں اندھا پن، گردوں کا ناکارہ ہوجانا اور ڈپریشن شامل ہیں۔ جبکہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ لوگ جو کہ خودکشیاں کرتے ہیں وہ اس بیماری کا بھی شکار ہو سکتے ہیں۔

یہاں پر سب سے زیادہ خوفناک بات یا پھر ذیابطیس کے ورثے میں ملنے والی بیماری پاؤں کا کاٹا جانا ہے۔ اور اس کے شکار لوگوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے جوکہ انجانے میں پاؤں پر چوٹ لگوا بیٹھتے ہیں جس کے بعد انفیکشن کی وجہ سےنوبت ان کے پاؤں جبکہ کچھ کیسز میں ٹانگ کاٹنے کی بھی آجاتی ہے۔

ذیابطیس اور دنیا

اس وقت دنیا میں تقریبا ً چھیالیس کروڑ لوگ اس بیماری کا شکار ہیں اور ان میں سے نوے فیصد وہ لوگ ہیں جو کہ ٹائپ تو ذیابطیس کا شکار ہیں۔ اور اگر ہم دنیا کے لحاظ سے پاکستان کی بات کریں تو مملکت خداداد اس وقت تیسرے نمبر پر موجود ہے وہیں پر پہلے اور دوسرے نمبر پر چین اور بھارت براجمان ہیں۔

ذیابطیس کے ان حد سے زیادہ کیسز کی بڑی وجوہات میں موٹاپا شامل ہے۔ موٹاپے کی وجہ ہمارا غیر صحتمند طرز زندگی ہے جس میں ہم جو جی میں آئے کھانا پسند کرتے ہیں اور چونکہ ہم ایک غریب ملک سے ہیں تو یہاں پر سب سے زیادہ کھانے کو وہی چیزیں ملتی ہیں جو کہ سستی ہوں اور ان سستی اشیا میں تیل میں تلی یا میٹھے سے بھر پور اشیا شامل ہیں۔

اب ان میٹھے یا تیل سے بھری غذائیں کھانے سے ہمارے پیٹ باہر نکلنا شروع ہو جاتے ہیں جو کہ موٹاپے کا آغاز بھی ہے۔ اس کو ہم مرکزی موٹاپا بھی کہتے ہیں جس میں ہمارے پیٹ کا حصہ باہر کی جانب نکلا ہوا ہوتا ہے۔

اگر ہم نمبرز کی بات کریں تو یہ نمبرز بھی کافی حیران کن ہیں اور پاکستان میں تقریبا ً تہتر فیصد یا پھر ہر دس میں سے 6.2 عورتیں اور 3.7 مرد اس کا شکار ہیں وہیں پر عام موٹاپے کی بات کریں تو اس لحاظ سے یہاں 57.9 فیصد لوگ اس کا شکار ہیں ان میں بھی مجارٹی خواتین کی ہے جن کا تقریبا 58 حصہ اس کا شکار ہے مطلب پاکستان میں دس میں سے ہر چھٹی عورت موٹاپے کا شکار ہے وہیں پر مردوں کی تعدا اس لحاظ سے تھوڑی کم ہے اور بیالیس فیصد مرد موٹاپے کا شکار ہے۔

اگر ہم کلچر کی بات کریں تو ہم ہر موٹے شخص کو صحتمند سمجھتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جبکہ وہیں پر ہر پتلے شخص کو کمزور سمجھ کر اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہر موٹا شخص صحتمند نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ بیماریوں کو دعوت عام دے رہا ہوتا ہے۔

پاکستان میں موٹاپے کی یہ زیادہ شرح لوگوں کی صحت سے آگاہی میں کمی اور اچھے غذائی اجزا سے دوری ہے جیسا کہ ہمارے ملک میں عام عوام باہر سے تلی ہوئی اشیا خرید کر کھانے کو صحتمند غذا کھانے پہ زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ وہیں پر اگر ہم آبادی کے لحاظ سے بات کریں تو پاکستان میں موٹاپے کی شرح سے لے کر ذیابطیس کے تناسب تک سب کچھ شہری علاقوں میں دیہاتی علاقوں سے زیادہ ہے۔

اگر ہم اس کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کریں تو ایک بات ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ عموما ً وہ لوگ جو نئے نئے شہر جاتے ہیں وہ باہر کی اشیا کھانے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور اپنا طرز زندگی ‘ماڈرن’ کرنے کے نام پر پراسیسڈ خوراک سے لیکر مرغن گھی میں تلی خوراکوں تک سب دھڑا دھڑ کھاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی صرف 1.6% آبادی ذیابطیس کا شکار ہے جبکہ شہری آبادی کا 15.1% حصہ اس بیماری کا شکار ہے۔

خراب لائف سٹائل یا پھر موت کو دعوت؟

آپ اپنے کسی بھی پرائیوٹ سکول میں پڑھنے والے بچے سے ایک سوال پوچھیں کہ بیٹا آپ نے آخری دفعہ سکول میں آدھے گھنٹے سے زیادہ فزیکل گیم کب کھیلی تھی؟ یا پھر کسی بھی میچور خاتون سے پوچھیں کہ وہ اپنی زندگی میں آخری دفعہ کب پانچ کلومیٹر تک چلی تھیں؟ تو آپ کو دونوں سے ایک ہی جواب سننے کو ملے گا کہ یاد نہیں، بلکہ خواتین تو یہ تک کہیں گی کہ مجھے تو اتنا بھی یاد نہیں ہے کہ میں آخری دفعہ ماسوائے شاپنگ کے گھر سے باہر کب نکلی تھی۔

لیکن آپ سوال بدلیں اور اب نیا سوال پوچھیں کہ آپ نے آخری دفعہ تلی ہوئی اشیا جیسا کہ سموسے، پکوڑے، پراٹھے یا پھر پراسیسڈ خوراک یعنی کہ برگر یا پیزا کب کھایا تھا تو مجارٹی کا جواب یہی ہوگا کہ آج صبح، کل یا ابھی کچھ دیر پہلے! یہیں سے آپ طرز زندگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم اپنے جسم کو صحتمند رکھنے کے بارے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ ایک صحتمند شخص کو روزانہ تقریبا ًدو کلومیٹر چلنا چاہیے۔

مجھے یاد ہے نانی اماں بتایا کرتی تھی کہ وہ سیالکوٹ سے جموں پیدل شاپنگ کرنے کے لئے جاتی تھیں۔ جموں کا سیالکوٹ سے فاصلہ تقریبا بیس سے بائیس کلومیٹر ہے اور اسی طرح وہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ مطلب تیس چالیس کلومیٹر تک کا فصلہ عموما ًپیدل طے کرنا پسند کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے ہماری نانی اپنی سہیلیوں اور بہنوں سمیت جو کہ یوں پیدل سفر کو ترجیح دیتی تھی تقریبا ًاسی نوے یا پھر پچانوے سال کی عمر کے بعد ہی فوت ہوئیں تھی۔ جبکہ ہمارے ہاں اس وقت عمر کی شرح بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہے۔

اسی طرح اگر ہم بات کریں کہ ہمارے ہسپتالوں میں دستیاب علاج کی سہولیات کیسی ہیں؟ تو اس وقت ہیلتھ کارڈ بند ہو چکا ہے وہیں پر ایک عام شخص کی روزانہ کی دیہاڑی نو سو سے پندرہ سو روپے یا پھر تین سے چار ڈالر ہے۔ اگر ہم ذیابطیس کے علاج کی بات کریں تو یہ حالیہ قیمتوں کے اضافہ سے پہلے دو سے تین ہزار روپے کا تھا وہیں پر اب یہ چار سے پانچ ہزار ماہانہ تک پہنچ چکا ہوگا جو کہ دو ہزار روپے کی شکل میں بھی غریب کی برداشت سے باہر تھا اور اب سوچ سے بھی باہر ہوگا۔ یہی وہ وجہ ہے کہ غربت کے شکار لوگ ذیابطیس کے پراپر علاج نا کروانے کی وجہ سے پچپن یا ساٹھ سال سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں اور ان کو دستیاب صحت کی سہولیات سے ہٹ کر اچھی غذا بھی میسر نہیں ہوتی ہے۔

کزن میرجز ذیابطیس کی وجہ ہیں؟

اگر ہم ماحولیاتی عوامل سے ہٹ کر دیکھیں تو آج ہمارے ہاں ہر دس میں سے آٹھ لوگ کزن میرجز کرتے ہیں۔ کزن میرج ہمارے کلچر کا حصہ بن چکی ہیں اور ہم ان پر تنقید برداشت نہیں کرتے جبکہ یہ کزن میرجز یا پھر ان بریڈنگ دراصل کسی خاندان کے لئے سلو پوائزن ہے جس کی وجہ سے اگلی نسلیں مکمل صحتمند نہیں پیدا ہوتی اور وہ کوئی نہ  کوئی جینیاتی بیماری رکھتی ہیں۔ پرانے زمانوں میں کزن میرجز کم ہونے کی وجہ سے ایسی بیماریاں کم منتقل ہوتی تھی جبکہ آج یہ زیادہ منتقل ہو رہی ہیں اور ان میں سے ایک ذیابطیس ہے جو کہ خاندان میں چل رہی ہے اور عموما ً ایسے بچے جن کے والدین میں سے ایک شخص اس کا شکار تھا وہ بھی اس کا شکار ہونے کا امکان رکھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سو اگر ہم معاشرتی اعتبار سے دیکھیں تو ذیابطیس ہمارے معاشرے کے پیچدہ ڈھانچے کا پیدا کردہ ایک پراڈکٹ ہے جس کو کنٹرول کرنے کے لئے کھانے کی عادات سے لیکر جینے کا سلیقہ تک بدلنے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply