شناخت۔۔۔جواد بشیر

بیٹا، باپ سے پہچانا جائے،یہ عمومی بات ہے،لیکن اگر باپ بیٹے کے نام سے پہچانا جائے تو یہ بات کم از کم مجھے تو ہضم نہیں ہوتی۔۔۔

خیر بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی،ہم سبھی کسی نہ کسی طرح  کاidentity crises شکار رہے ہیں،خود کی تلاش ایک ایسا سوال ہے جس کے بارے میں کچھ لوگ تو سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔

میں آج جس طرح کی شناخت کے بارے میں بات کرنا چاہ رہا ہوں،اس نے معاشرے میں بہت جلد مگر اپنی بہت گہری جگہ بنا لی ہے،کسی کے ذریعے خود کی شناخت،اپنی شخصیت اور ذات کو مسخ کردینے والا عمل ہے،کوئی ایسا کردار جو شہرت کی بلندیوں کو چُھو رہا ہو،اُس کے ساتھ تصویر یادوں کا حصہ بنانے کے لیے لی جائے تو ایک الگ بات ہے،ویسے میں تو اس بات پر بھی یقین نہیں رکھتا کہ یادیں بنانی چاہئیں،جو چیز آپ کو ماضی میں لے جائے اور حال سے بیگانہ کرکے حسرت پیدا کرے،وہ سوائے حسرتوں پر ماتم کرنے کے کچھ نہیں دیتی۔

بات کسی مشہور شخصیت سے جُڑی یاد بنانے کی نہیں ہے،بلکہ اُس کے ذریعے خود کی شناخت منوانے کی ہے،ہم جتنا لوگوں سے جُڑ کر اپنی شناخت بنانے کی کوشش کرتے ہیں،اُتنا ہی اور کھو جاتے ہیں،سوشل میڈیا پر لوگوں سے خود کو جوڑ کر اپنی شناخت کروانا مجھے کسی سے لیے ہوئے اُدھار جیسا محسوس ہوتا ہے،جس کو لینے کے بعد آپ کے ہاتھ شرمندگی کے سِوا کچھ نہیں آتا،آپ خود سے بھی نظریں نہیں ملا پاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پیدائش سے آپ کے ساتھ جُڑی باپ کی شناخت ہی کافی ہے،کسی اور کے ساتھ کھڑے ہوکر تصویریں بنوا کر اپنا قد اور چھوٹا مت کریں،کسی کے ذریعے پہچانا جاناگالی سے کم نہیں ہے،اور اگر آپ یہ کام یاد کے لیے یا ادب سے کررہے ہیں تو لوگوں میں اس کی تشہیر مت کریں۔

Facebook Comments

جواد بشیر
تحریر بارے اپنی رائے سے کمنٹ میں آگاہ کیجیے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply