خیالات کا توازن/ڈاکٹر حفیظ الحسن

کوئی بھی معاشرہ خیالات کے توازن کی فضا پر قائم ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ سنگ و خشت مقید ہوں اور سگ آزاد۔۔

ہمارے ہاں ریاست کسی خاص نظریے کو پالتی ہے، بڑا کرتی ہے، اس میں تمام وسائل جھونکتی ہے۔ اس سے دیگر نظریات اور فریقین کے لیے مقابلے کی فضا کم یا ختم ہو جاتی ہے ۔ پھر جب ریاست کا پہلا تجربہ ناکام ہوتا ہے تو پرانا تجربہ پرانی تنخواہ پر واپس لایا جاتا ہے۔ میوزیکل چیئر کا یہ کھیل دہائیوں سے جاری ہے۔ نہ تم بدلے نہ ہم بدلے نہ رنگِ آسماں بدلا کے مصادق اس تمام ایڈونچر میں ترقی کا قیمتی وقت گزر جاتا ہے۔

توازن کی فضا کیسے قائم ہو سکتی ہے؟ ریاست کا ایک اُصولی موقف اپنا کر کہ کسی خاص نظریے یا انکے علمبرداروں کی پشت پناہی چھوڑ دی جائے۔

کیا ایسا ممکن ہے؟

جی ہاں ایسا ممکن ہے۔ اگر ہم مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ دیکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس مسئلے کا ادراک انہیں بخوبی رہا ہے۔ تبھی اس مسئلے کا حل وہاں نکالا گیا تاکہ وہاں کے ممالک کو اندرونی ایڈونچرز سے بچا کر ایک مستقل راہ پر گامزن کیا جائے جہاں ابہام نہ ہو۔

ان ممالک نے یہ طے کیا کہ ریاستی مشینری نظریات سے بالاتر ہو کر کام کرے گی۔ ایسی ریاستوں کو جو نظریات سے بالاتر ہو کر کام کرتی ہیں، کو عرفِ عام میں سیکولر ریاست کہتے ہیں جہاں ریاست خود نظریات کی جنگ یا دفاع میں شامل نہیں ہوتی تاہم شہریوں کو اپنے نظریات کے پرچار اور ان پر عمل درآمد کی مکمل آزادی دیتی ہے۔

اب ذرا غور کیجئے اور بتائیے کہ بھارت میں اقلیتوں کو اور انکے نمائندوں کو ایک سیکولر ریاست چاہیے جبکہ ہمارے ہاں وہی اقلیت جب اکثریت میں بدلتی ہے تو گنگا اُلٹی بہنے لگتی ہے۔ وہ سیکولر ریاست کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے اسے گالی گردانتے ہیں۔

ریاستوں کا یہ ہرگز کام نہیں کہ وہ کسی نظریے کے لیے چاہے وہ روشن خیال ہو یا انتہا پسندانہ، کا پرچار کرے اور اسکی سہولت کار بنے۔ ریاست کا کام ایک ایسی متوازن فضا قائم کرنا یے جہاں ہر طرح کا نظریہ پنپ سکے۔ اس توازن کی فضا میں جب مقابلہ برابر کا ہو گا تو وہی نظریہ قائم رہے گا جو معاشرے کی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہو گا۔ یہاں یہ ضروری نہیں کہ یہ نظریہ ہمیشہ ایک رہے کیونکہ معروضی حالات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے ہیں اور نظریات کے ارتقاء ، انکے موثر ہونے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

سیکولر ریاست کا مطلب نظریات سے بالاتر غیر جانبدار ریاست ہے۔ یہ جو ہمارے ہاں لوگوں کو سیکولر ریاست کا مطلب کچھ اور بتایا جاتا ہے اور لوگ چونکہ سوچنے سمجھنے اور تحقیق کی صلاحیت کھو کر محض موقلد ہیں، اس لیے انہیں جو بیچا جائے، بکتا ہے اور ریاست اپنے نئے پرانے نظریات کی پوٹلی سے بار بار عوام کو چوہے سمجھ کر تجربات کرتی ہھرتی ہے، اس چکر میں ملک پیچھے سے پیچھے ہوتا جا رہا ہے، نسلوں کی نسلیں گمراہ ہو رہی ہیں اور بے چاری عوام ترقی کے خواہاں ہونے کے باوجود ترقی نہیں کر پاتی کیونکہ وہ ذہنی حصار میں جکڑے ہوئے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply