سانحہ جڑانوالہ اور اسلام /خنساء طاہر کمبوہ

اسلام آفاقی مذہب ہے جس کی تعلیمات اور اساسی تصورات عدل، انصاف اور مساوات پہ مبنی ہیں ۔یہ دین فطرت اور ایسا آفاقی مذہب ہے جس کی نرم ٹھنڈی چھاؤں میں غیروں کو بھی راحت و آرام ملا ہے ۔
اسلام کی تعلیمات انسانی زندگی کی ہر گوشے کا احاطہ کرتی ہیں دیگر مذاہب میں دیکھیں گے تو انسان کو فضول افکار اور نظریات کے سوا کچھ حاصل نہیں ہے۔یہ واحد مذہب ہے جو دوسرے تمام مذاہب سے منفرد ہے ۔ جہاں یہ بندے کو خدا سے جوڑتا ہے وہیں بندگانِ خدا سے بھی رشتہ استوار کرتا ہے۔
یہ صرف ان لوگوں کیلئے نہیں جنہوں نے اسلام کی دعوت کو قبول کیا ، بلکہ یہ تمام انسانیت اور مخلوقات کو راہ اور پناہ دیتا ہے۔
مخلوقِ خدا اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حقوق العباد کا باب دے کر اپنے بندوں کے حقوق ادائیگی کا پابند بنا دیا ہے ۔
انسان کی پیدائش کے بعد سب سے پہلے اسکا واسطہ اپنے اردگرد کے لوگوں سے پڑتا ہے جسکو ‘معاشرہ’ کہتے ہیں
معاشرے میں پنپنے کو جن باتوں کا ہونا ضروری ہے وہ حسن معاشرت، صلہ رحمی اور خدمت خلق ہے اسلئےاسلام نے سب سے پہلے مسلمان کو حسن معاشرت اور صلہ رحمی کی ترغیب دی ہے۔
جس طرح عمل کے بغیر علم کا ہونا ، انسانیت کے بغیر انسان کا ہونا ادھورا عمل ہے اس طرح حسنِ معاشرت کے بغیر مسلمان و مومن ہونا بھی ادھورا عمل ہے ۔۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ معاشرے میں تو غیر مسلم کے بھی آئیں گے انکے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جائے؟؟
ہمارے ہاں ہر تھوڑے عرصے بعد مذہب کے نام پہ ایک اشتعال انگیز فضاء پھیل جاتی ہے، جس کے زد میں مسلمان خود اور غیر مسلم پہ آجاتے ہیں۔ اسی طرح سانحہ جڑانوالہ بھی مذہبی اشتعال کے بناء پہ ہوا ہے۔
ایسا وہی لوگ کرتے ہیں جو اسلام کی تعلیمات سے ناواقف ہیں ۔
عیسائی برادری کا عمل بھی غلط رہا ہے تو مسلمان بھی سراسر غلطی پہ ہیں ۔
اسلام کے مزاج میں اشتعال نہیں ٹھہراؤ ہے، اسلام کبھی بھی یہ حکم نہیں دیتا قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا جائے۔
ایسے مسلمان نہ صرف یہ کہ دوسرے مسلمانوں کے لیےمسئلہ بن جاتے ہیں بلکہ خود اسلام کی بدنامی کا بھی سبب بن جاتے ہیں۔غیر مسلم ان کا یہ رویہ دیکھ کرسمجھتے ہیں کہ ان کادین اسلام اس طرح غیر اخلاقی سلوک کا حکم دیتا ہے۔
ان سخت گیر قسم کے مسلمانوں کے ماحول کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے اس رویے کےپیچھے صرف مذہبی عنصر ہی کارفرمانہیں ہے بلکہ بعض نفسیاتی،معاشرتی اور اقتصادی عوامل بھی شامل ہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں ایسے کئی مواقع آئے لیکن انہوں نے نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ علیہ السلام کے فیصلے کا انتظار کیا۔ یہ عمل تو یہی ثابت کرتا ہے کسی بھی قسم کے سنگین حالات میں اسلام و ریاست کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔۔
ایک ہی ملک و ریاست میں رہتے ہوئے اقلیتیوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو ایک مسلمان کو ہیں۔
غیر مسلم یا اہل کتاب مسلمان حکومت میں ذمی ہوتے ہیں اور انکی جان ،مال ،عزت اور حقوق کا تحفظ مسلمانوں اور اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
رسول اکرم کا فرمان ہے“ جس نے کسی معاہد و ذمی (اقلیتی برادری) پر ظلم کیا، اسے ستایا، اس کی کوئی چیز اس کی دلی مرضی کے بغیر لی وہ جان لے کہ قیامت کے روز میں اس کا وکیل ہوں گا۔ اور پھر میں ہی غالب رہوں گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی میں جب غیرمسلم ذمی تھے انکے ساتھ حسن معاشرت کے کئی واقعات ہیں۔
اور بحثیت مسلمان ہمارا بھی تمام انبیاء پہ ایمان ہے اور انکا احترام ہمارے ایمان کا حصہ ہے تو اس احترام کا تقاضا یہ ہے کہ انکے پیروکاروں پہ ظلم نہ ہو۔
انکا اہل کتاب ہونا اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی ہے وہ جس کو چاہے ہدایت سے فیضیاب کرے اور جس کو چاہے محروم رکھے۔۔
قرآن وحدیث کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ معاملات میں مسلمانوں کا رویہ رواداری پر مبنی ہونا چاہیے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ ہرانسان قابل احترام ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی دین اورکسی بھی رنگ ونسل سے ہو۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ:
وَلَقَد كَرَّمنا بَنى ءادَمَ( سورة الإسراء)
“اور ہم نے آدم علیہ السلام کی اولاد کو تکریم عطا کی ہے۔‘‘
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو معزز ومکرم بنایا ہے،اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ انسان کی خدائی تکریم کا لحاظ رکھیں، اگر اس انسان کا تعلق اقلیتوں سے ہے۔ تو انکی مذہبی آزادی کو مسخ نہ کریں ، انکی مقدس کتابوں اور مقدس مقامات کی بھی عزت و تکریم کریں۔
اس سلسلے حضرت عمر فاروق کی واقعے کو مشعل راہ بنائیں
○حضرت عمر کے عہد خلافت میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو شہر کا دورہ کرتے ہوئے آپ نے کلیسائے مریم کے قریب نماز ادا کی۔ اس موقع پر انھیں تھوکنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو انھوں نے اپنے کپڑے میں تھوکا۔ آپ سے کہا گیا کہ آپ اسی گرجے میں ہی تھوک دیتے، کیونکہ یہاں تو اللہ کے ساتھ شرک کیا جاتا ہے۔ سیدنا عمر نے جواب میں فرمایا کہ اگر یہاں اللہ کے ساتھ شرک کیا جاتا ہے تو کثرت سے اللہ کو یاد بھی تو کیا جاتا ہے۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ترجمہ ابو شعیب، ۷/ ۲۱۲)
اور آج مسلمان کا عمل بھی دیکھئے عیسائیوں کے گرجا گھر کو نذرِ آتش کردیا گیا۔
زبور و بائبل کی آتش سوزی کی گئی جو کہ ایک افسوس ناک اور قبیح عمل ہے۔ان مقدس کتابوں میں دروبدل کرلی گئی ہے لیکن انکی نسبت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ہے۔ اس نسبت کا احترام کرنا ضروری ہے
خواتین اور بچوں کا بےگھر ہونا بھی قابلِ مذمت ہے۔
یہ نفرت انگیز احتجاج مسلم معاشرے میں بسنے والے انسانوں کی انسانیت پہ سوالیہ نشان ہے۔
اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی دیکھئے بخاری شریف میں ہے کہ
○آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے ایک یہودی کا جنازہ گزرا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے احترام میں کھڑےہوگئے۔کسی نے تعجب سے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو یہودی کا جنازہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ کیا وہ انسان نہیں تھا؟

Advertisements
julia rana solicitors

ان تعلیمات کی روشنی میں ہمیں بھی اپنے رویوں پہ غور کرنا چاہیے کیونکہ سانحہ جڑانوالہ جیسے واقعات ریاست اور اسلام کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں ۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply