خوشیاں روٹھ گئیں۔۔۔ایم۔اے۔صبور ملک

بہت دل کرتا ہے کہ کسی ایسی شادی کی تقریب میں شرکت کروں،جہاں مصنوعی پن اور دکھاوے کی بجائے خا لص محبت،چاہت اور اخلاص سے گندھے ہوئے لوگ موجود ہوں،جہاں شرکت کرتے ہوئے یہ احساس نہ ہو کہ ابھی کھانا کھلے گا اور ہم کھانا کھا کر لفافہ   دولہا،دلہن یا اہل خانہ کے ہاتھوں میں تھماکر چل دیں گئے،جہاں جھوٹے نگوں کی ملمع کاری،چہرے پر مصنوعی سی مسکراہٹ لئے کوئی صرف ہماری حاضری لگا نے کی بجائے ہم سے گھل مل کرگلے لگا کر اخلاص سے باتیں کرے،بُرا ہو اس کارپوریٹ کلچر کا جس نے ہم سے ہماری تہذیب وتمدن،ہمارے تہواروں کی روایتی خوشیاں،ہمارے شادی بیاہ کے رسم ورواج کے طور طریقے اور پکوان چھین لیے۔

ایک وقت تھا جب شہروں اور دیہات میں شادی بیاہ کے موقع پر ہفتہ بھر پہلے سودا سلف خرید لیا جاتا تھا،محلے بھر کی عورتیں مصالحے پیسنے اور چاول صاف کرنے کی غرض سے شادی والے گھر کی خواتین کے ساتھ مل کر سارے اُمور سرانجام دیا کرتی تھیں،اور رات میں لڑکی کی سکھیاں کرائے پر ڈھولک  منگوا کر رخصتی کے گیت،ماہیے اور ٹپے گایا کرتی تھیں اور ادھر دولہا کے یار بیلی شادی کارڈ تقسیم کرنے،پکوان والے کے ساتھ معاملات طے کرنے اور رات کو دولہا کے ہاں بھانڈ میراثیوں کی جگتوں سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے،آج کل کی طرح شادی ہال،مارکیز یا بینکوئٹ ہال کی بجائے کھلے میدان،گلی یا پھر سڑک پر شامیانے قناتیں لگا کر شادی کا اہتما م کیا جاتا تھا،جہاں ایک جانب دیگوں میں کھانا پک رہا ہوتا تھااور ان کی اشتہا انگیزخوشبو سے پوار علاقہ مہک اُٹھتا تھا،اُدھر دیہات میں بارات کا شب بسری کے لیے  انتظام ہوتا تھا جس کے لیے پورے  گاؤں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں،محلے یا گاؤں کی ایک بچی کی شادی کو گویا پورے محلے یا گاؤں کی بچیوں کی شادی تصور کیا جاتا تھا اور اس کے لیے  ہر کوئی اپنی اولاد کی شادی کی طرح کام کرتا،دیہات میں باراتیوں کی تواضع گڑ والے چاولوں،دیسی مرغ،دیسی گھی سے بنے سوجی کے حلوے،خالص لسی اور دودھ سے کی جاتی جبکہ شہروں میں بیف پلاؤ،آلو گوشت اور زردہ وی آئی پی ڈش ہوتی تھی،ہر باراتی کو وی آئی پی کادرجہ حاصل ہوتا تھا،دولہا گھوڑے پر سوا ر ہو کر بارات لے جاتا تھا،دلہن  کا گھر قریب واقع ہونے کی صورت میں دلہن کو ڈولی میں بٹھا کر رخصت کیا جاتا تھا،بعد از شادی پورا محلہ اور گاؤں نوبیاہتا جوڑے کی حسب توفیق کھانے کی دعوت کرتا،دم رخصت تحفے تحائف دئیے بنا نہیں جانے دیا جاتا تھا،ایک گھر کا داماد گویا پورے گاؤں پورے محلے کا داماد ہوتا،اسی طرح نئی آنے والی دلہن کو بھی پورامحلہ اور گاؤں اپنی بہو بیٹی تسلیم کرتا،کوئی مصنوعی طور طریقہ یا دکھاوا دور دور تک نظر نہیں آتا تھا،شادی بیاہ کے موقع پر ناراض رشتے داروں،عزیز واقرباء کو جاکر منایا جاتا۔

گاؤں یا محلے کے کسی گھر کے فرد کی موت واقع ہوجانے کی صورت میں پوار محلہ اور گاؤں ملکر اہل خانہ کا غم بانٹتے تھے،تین دن میت والے گھر کھانا بھیجوایا جاتا تھا،شادی بیاہ کے برعکس ناراض رشتے دار،عزیز واقرباء اور دشمن بناکسی کی دعوت کے ازخود تما م تر اختلافات بھلا کر میت کی تجہیز و تکفین میں شرکت کرتے،ان دنوں اگر کسی کے ہاں کوئی خوشی کا موقع ہوتا تو یا تو وہ منسوخ کردیا جاتا یا پھر ایسی خاموشی سے سرانجام پاتا کہ میت والے گھر کوخبر بھی نہ ہوتی،ہمارے خطہ پوٹھوہار کے دیہات میں لڑکے کی شادی کے موقع پر شہروں کے برعکس بارات کے دوسرے د ن ولیمے  کا کوئی رواج نہیں ہوتا تھا،بس مہندی والے دن ہی تما م مہانوں کو کھانا دے دیا جاتا تھا،اور بارات کی شام شادی اختتام پذیر ہو جاتی تھی ۔

راقم کو اپنے بچپن میں ایسی ہی ایک شادی میں شرکت کا موقع ملا،جب بارات کے دوسرے دن شہروں کی طرح ولیمہ کے کوئی آثار نظر نہ آئے تو اپنے والد مرحوم سے اس حوالے سے دریافت کیا تو پہلی بار مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ گاؤں میں ولیمہ نکاح سے ایک دن قبل ہی ایڈونس میں دے دیا جاتا ہے،گویا نکاح سے پہلے ہی نکاح کا اعلان،خواب وخیال ہوئے وہ دن،ا ب تو شادی کارڈ ملنے کے بعد سب سے پہلے تویہ سوچا جاتا ہے کہ شادی کی دعوت دینے والاکس  حیثیت کا مالک ہے؟ شاد ی کس  ہال یا مارکی میں ہو رہی ہے؟کھانے کا مینو کیا ہے؟لفافے میں کتنی رقم دینی ہے؟ کیا کارڈ بھیجنے والا ہمارے گھر کی کسی تقریب میں شریک ہوا تھا؟کہیں اس کے ہمارے کسی ایسے رشتے دار یا عزیز سے تعلقات تونہیں جو ہم سے آج کل ناراض ہے؟کہیں شادی کے اوقات ہماری کسی دوسری مصروفیت  کی راہ میں حائل تو نہیں؟ شادی ولیمہ   بس حاضری لگا کر کھانے تک محدودرہ گئے ہیں،ہال میں گئے ،کھانا کھایا،لفافہ دیا اور چل دیے۔۔ زیادہ سے زیادہ دولہا یا دولہن کے ساتھ ایک سیلفی بنا لی۔۔

رہی موت ،میت تو وہاں بھی مرنے والے کی حیثیت دیکھ کر جنازے میں شرکت کی جاتی ہے،ابھی پچھلے دنوں راقم کا دو مختلف جنازوں میں جانا ہوا،پہلا جنازہ ایک غریب شخص کا تھا جہاں اہلیان شہر نے بمشکل شرکت کی اور صفوں کی تعداد صرف 5،چند دن بعد  ایک او ر جنازے پر گیا جو ایک صاحب حیثیت کا تھا،یقین کریں لوگوں کا  کوئی شمار نہیں،ہماری منافقت کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہوگی،کیا امیر کیا غریب موت سب کو آنی ہے،قبر دونوں کی ایک جیسی،کفن ایک جیسا،لیکن طبقاتی تقسیم نے یہاں بھی اپنا جلوہ دکھا دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم گلہ کرتے ہیں کہ پہلے جیسی خوشیاں نہیں،سکون نہیں ملتا،بے چینی ہے،اللہ کے بندو کہاں سے ملے چین وسکون ،خوشی کوئی بازار میں تھوڑی ہی ملتی ہے جو پیسے دے کر خرید لی جائے،اگر ایسا ہوتا تو امیر آدمی ہمیشہ خوش دکھائی دیتا جبکہ سب سے زیادہ بے سکون امیر انسان ہی ہوتا ہے،خوشیاں روٹھ گئی ہیں،کیونکہ ہم نے خود کو ایک مصنوعی خول میں بند کردیا ہے،اس خول کے باہر سب کچھ ویسا ہی ہے،بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مصنوعی خول سے باہر نکلا جائے۔یقین کریں سب کچھ لوٹ آئے گا،خوشیاں بھی سکون بھی چین و آرام بھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply