اُلٹی چھلانگ۔۔رزاق لغاری

ہم اکثر و بیشتر چیزوں کو ایک ہی پہلو سے دیکھنے کے عادی ہیں حالانکہ ہر چیز کے پہلو یا زاویے ایک سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن ہم چیزوں کو اپنے مطابق دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں چیزوں کو چیزوں کے مطابق دیکھنے کا ہنر آنا چاہیے۔ چیزوں میں کبھی بھی کوئی برائی نہیں ہوتی ،برائی یا غلطی اس کے استعمال میں ہو سکتی ہے اکبر بادشاہ نے ایک بار اپنے خاص درباری بیربل سے کہا کہ بادشاہ کو کبھی تبدیل نہیں ہونا چاہیے بادشاہ ہمیشہ بادشاہ رہنا چاہیے حتیٰ کہ بادشاہ کو کبھی موت بھی نہیں آنی چاہیے بیربل نے کہا عالی جناب آپ نے درست فرمایا لیکن اگر ایسا ہوتا تو آپ کبھی بھی بادشاہ نہ بن پاتے کیوں کہ بادشاہوں کا یہ سلسلہ آپ کے پیدا ہونے سے کافی پہلے سے چلا آ رہا ہے تو پھر آپ کیوں کر بادشاہ بن پاتے۔

اکبر نے اس اصول کو اپنی بادشاہی سے منسوب کر کے بنانا چاہا یہ نہیں سوچا کہ یہ اصول خود میرے خلاف ہوتا اگر یہ اصول واقعی میں کوئی اصول ہوتا۔ اور ہمارے ملک کا المیہ بھی یہی ہے کہ ہر بادشاہ نے ہر اصول اپنی ذات کو منسوب کر کے بنایا ہے یہاں ادارے ، قانون اس لیے نہیں بنائے جاتے کہ ان سے وطن عزیز کو کوئی فائدہ ہو بلکہ ان سے ان بنانے والے کو کیا فوائد ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں قانون اصول بدل دیے جاتے رہے ہیں جب ایک کسی قانون کو بدلے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ دوسرے کو بھی یہی راستہ فراہم کر رہا ہے کہ وہ بھی ان قوانین کو یا اصولوں کو بدل سکے۔ حالیہ صورت حال سے ان چیزوں کو سمجھنا بالکل آسان ہو گیا ہے جب ایک آدمی سڑکوں  کو بلاک کرکے دھرنے کی روایتوں سے اسمبلی میں پہنچا ہے تو کیا مضائقہ ہے کہ دوسرا ایسے نہ کرے اور حال ہی میں یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ دوسروں نے بھی اس اصول سے جیت حاصل کی ہے اب اگر اس بنائے ہوئے اصول کو وہ خود بنانے والا ہی غلط کہہ اور سمجھ رہا ہے کیوں کہ جب اس نے   شروعات کی تھی تو وہ اصول وہ طریقہ اس وقت صحیح تھا کیوں کہ وہ اس نے اپنے سے منسوب کر کے بنایا تھا۔

اسی طرح ابھی تازہ تازہ ایک ووٹنگ سسٹم متعارف کرایا جا رہا ہے اس کا نتیجہ بھی یہی نکلنا ہے کیوں کہ یہ ملک کے مفاد کو سامنے رکھ کر نہیں بنایا جا رہا بلکہ یہ بھی کسی فرد یا ادارے کے حق میں بنایا جا رہا ہے اور پھر اس کا رونا بھی کیا رونا ہوگا جب اسے کوئی اور فرد یا کوئی اور ادارہ اپنے حق میں استعمال کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک  انگریزی اخبار میں چھپا ایک واقعہ ہے کہ آسٹریلیا سڈنی کی ایک جیل میں ایک قیدی اپنی قید کی زندگی سے اکتا گیا تھا اور وہ ہر حال میں وہاں سے نکلنا چاہتا تھا ایک مرتبہ اس نے ایک جراتمندانہ اقدام کیا، جیل میں باہر سے ایک ٹرک آیا اس نے موقع جان کر جیسے تیسے اس ٹرک میں چھپ کر سوار ہوگیا کچھ دیر بعد وہ ٹرک اس جیل سے باہر کی طرف چل پڑا ،دس سے پندرہ منٹ چلنے کے بعد وہ ٹرک کہیں جا کر رک گیا اس قیدی نے ابھی باہر کی طرف دیکھا ہی تھا اسے معلوم ہوا کہ وہ ٹرک ایک جیل سے نکل کر دوسری جیل میں آکر رک گیا تھا وہ ایک جیل کا ٹرک تھا جو جیل سے جیل جانے کے امور انجام دیتا تھا وہ قیدی جیل کی زندگی سے بہت ڈرا ہوا تھا اس کے ذہن میں ایک ہی چیز سوار تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح جیل کی بند دنیا سے آزاد ہوکر باہر کی کھلی دنیا میں پہنچ جائے اس قیدی کے لیے فقط ایک چیز تبدیل ہوئی کہ وہ ایک جیل سے دوسری جیل میں آن پہنچا کیوں کہ اسے باہر جانے کے لیے فقط ٹرک درکار تھا، لیکن وہ یہ بھول گیا تھا کہ ٹرک کے علاوہ اسے یہ بھی جاننے کی ضرورت تھی کہ جس سواری پر وہ سوار ہو رہا ہے اس نے آگے کہاں جانا ہے۔

Facebook Comments

رزاق لغاری
ایک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply