پاکستان میں مڈل کلاس کا مستقبل۔ملک ستار

میرے حالیہ کراچی کے ٹرپ کے دوران میں نے ایک بہت ہی disturbing اور alarming sign دیکھا جس کی طرف بہت سارے لوگوں کا دھیان نہیں گیا۔۔اور نہ ہی اس اہم ایشو   پر  کبھی بات ہوئی ہے( ویسے بھی ہم لوگ اہم ایشو پر کب بات کرتے ہیں؟)میں جہاں بھی گیا، جس میں میرا PC ہوٹل میں stay سے لے کر کراچی کے ٹاپ کلاس ریسٹورنٹ یا ٹاپ کلاس شادی کے فنکشن، میں نے جو ورکنگ فورس دیکھی، وہ ساری کی ساری لوئر کلاس کے لوگ نظر آئے جس میں PC ہوٹل میں کام کرنے والے سپروائزر تک شامل تھے ( ظاہر سی بات ہے مینجر یا ٹاپ مینجمنٹ کے علاوہ، سب کے سب لوئر کلاس کے لوگ) اس پر بھی المیہ، ان لوئر کلاس   کی اکثریت بھی نان کراچی کے لوگ۔۔

یعنی کہ ہمارے ملک میں یہ concept ہی نہیں ہے کہ مڈل کلاس کے طبقے نے ہوٹل یا شادی کے فنکشن میں waiter, دوکانوں میں سیلز مین یا لڑکیاں، اور تو اور جو شادی کے فنکشن میں وڈیو فوٹوگرافر جو کراچی کے مشہور نام، وہ بھی مڈل کلاس گھرانے سے نہیں۔۔اکثریت banquet hall کا مینیجر بھی مڈل کلاس کا نہیں۔فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے بھی ایک مخصوس کلاس سے تعلق،ٹرانسپورٹ کا کاروبار، کپڑے، درزی، بوتیک میں کام کرنے والے لوگ بھی لوئر کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ہسپتال میں نرسنگ کا شعبہ لوئر کلاس, پولیس کا سپاہی۔۔اسی طرح آپ کوئی  بھی زندگی کا کاروبار اٹھا لیں، مڈل کلاس کے لوگ ان کاروباروں میں ورکنگ فورس کا حصہ نہیں، ہاں البتہ آفس میں نوکریوں کا حصہ بہرحال ہیں۔

دوسری اہم بات، ہمارے ہاں یہ concept ہی نہیں  کہ بچہ دوران تعلیم کوئی ، کام کرے یا سیکھے ۔اگر مڈل کلاس گھرانے میں کسی والدین کے چار بچے ہیں اور وہ اسکول یا کالج جاتے ہیں، وہاں تصور نہیں کہ یہ بچے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کوئی  سائیڈ جاب بھی کریں۔۔دوسری طرف مغربی ممالک میں ہر بچہ دوران تعلیم کوئی  نہ کوئی  سائیڈ جاب یا کام کرتا نظر آتا ہے۔(میرے اپنے دونوں بیٹے گرمیوں کی چھٹیوں میں کہیں نہ کہیں کام کرتے رہے ہیں)

کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں  کرسکتا جب تک اس معاشرے  کی مڈل کلاس اس معاشرہ کی ترقی کا حصہ نہ بنے ۔پاکستانی مڈل کلاس طبقے  کا خواب بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر، فنانشل، بینکنگ، جیسی fields میں ڈالنا اور پھر یورپ، امریکہ , کینیڈا یا آسٹریلیا جیسے ملکوں میں جاکر بس جانا شامل ہے۔اس میں دس فیصد لوگ تو کامیاب ہوجاتے ہیں مگر 90 فیصد مایوسی کا شکار ہوکر ساری عمر دھکے کھاتے گزر جاتے ہیں ۔۔۔کیونکہ ہماری مڈل کلاس سوائے افسری یا بڑے status کی جاب کے علاوہ کچھ اور سوچتی ہی نہیں، جس کی وجہ سے ان کو کاروبار کرنے کا تجربہ ہی نہیں، جس کی وجہ سے وہ انتہائی پرکشش اور پیسے بنانے کے تمام مواقع سے محروم ہے۔

اس سارے عمل میں پاکستان کے  سارے کاروبار چند خاص مخصوس طبقے  کے ہاتھ میں چلے گئے۔۔کیونکہ کراچی کی مڈل کلاس جو پڑھی لکھی ہے، نے اپنے بچوں کو سوائے پڑھائی  اور یورپ امریکہ کے خوابوں کے کچھ بیچا ہی نہیں  تو دوسرے لوگوں نے اس کمی کو پُر کردیا، مگر یہ لوئر کلاس کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے ان شعبوں میں وہ تبدیلی، جدت اور ترقی نہیں  لاسکے جو آنی چاہیے تھی۔۔۔اسی لیے زندگی کے اکثر شعبے اور کاروبار میں وہ perfection یا بہتری نہیں آئی  جو آنی چاہیے تھی۔دوسری اہم بات ہر چیز دوسرے ملکوں کی کاپی ہے، اپنی کوئی  creativity نہیں ہے، اس کی وجہ بھی مڈل کلاس کا ان شعبوں کا حصہ نہ بننا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک امریکہ سوشل سائنٹسٹ Rainer Zitleman اپنی کتاب “The Wealth Elite ” میں لکھتا ہے کہ اس نے درجنوں امریکی millionaires پر اسٹڈی کی اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ان سب نے دورانِ تعلیم پارٹ ٹائم کام کیا تھا۔اگر آپ نے بھی اپنے بچوں کو مستقبل بہتر بنانا ہے تو ان کو شروع سے work experience پر لگائیں۔۔۔باہر کے ممالک میں وہ growth اور چارم نہی جو پہلے تھا۔۔۔پاکستان میں ابھی بھی بہت مواقع اور growth ہے , جس کا ملک میں رہنے والی مڈل کلاس کو اندازہ ہی نہیں۔۔۔اگر اس کا اندازہ ہے تو صرف elite کلاس کو ہے، اسی لیے وہ اپنے بچوں کو صرف پڑھنے یا شاپنگ کے لیے باہر بھیجتے ہیں اور خود اس ملک کی بے پناہ growth کا فائدہ لوئر کلاس کو استعمال کرکے اٹھا رہے ہیں اور اس کے قصوروار مڈل کلاس خود ہی۔۔ امریکہ میں Amazon, Apple, Dell, Microsoft کے مالک سب مڈل کلاس کے لوگ تھے اور دوران تعلیم سب نے نوکریاں کیں  اور بعد میں دنیا کے امیر ترین لوگ بنے۔۔پاکستانی مڈل کلاس دورانِ تعلیم نوکری کو توہین سمجھتی ہے، اور بعد میں لوئر کلاس سیٹھ کے نوکر بن کر نوکری کرتے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply