سارا قصور درندوں کا کہاں۔۔عامر عثمان عادل

سارا قصور درندوں کا کہاں
ہم خود بھی تو ظالم ہیں !
کوئی  ایسا دن نہیں کٹتا جب کہیں نہ کہیں کوئ پھول مسل دیا جاتا ہے کوئ کلی پامال کر دی جاتی ہے ۔
قصور کی زینب ہو یا نوشہرہ کی عوض نور کچھ بھی تو نیا نہیں ہوتا
زینب کی چمکتی آنکھیں زندگی سے بھرپور تھیں تو عوض کے چہرے پہ نور ہی نور
زینب کے چہرے پہ پریوں جیسی معصومیت تھی تو عوض نور کے گلنار چہرے پہ بہار کے سارے رنگ
ان دونوں پریوں کو چشم تصور میں لائیے اور ذرا یہ تصویر دیکھیے
کل صبح میں سکول جانے کے لئے گھر سے نکلا راستے میں یہ منظر دیکھ کر میں تو ٹھٹھک گیا ۔ یہ بچی گلابی شرٹ میں ملبوس عمر یہی کوئی نو دس برس ایک نانبائ کی دوکان سے نکلی اور سڑک پہ کھڑی ہو گئی ۔ میری گاڑی سے آگے ایک سوزوکی پک اپ رواں دواں تھی اس بچی نے اسے رکنے کا اشارہ کیا ڈرائیور نے بریک لگائی اور یہ لپک کر سوزوکی وین پہ سوار ہو گئئ ۔ بالکل تن تنہا ۔ ڈیڑھ دو کلومیٹر کا فاصلہ طے ہوا کہ اس نے انگلی سے شیشے کو تھپتھپا کر گاڑی روکنے کا اشارہ دیا گاڑی رکی یہ بچی اتری اور سامنے کالونی کی جانب چل دی ۔
امکان یہی ہے بچی ناشتے کے لئے کچھ لینے کو نکلی تھی
اب میں دل ہی دل میں سوزوکی والے کو دعائیں دے رہا تھا کہ کوئ بھلا مانس آدمی تھا جس نے بچی کو لفٹ دی اور اس کے کہنے پر ڈراپ بھی کر دیا
اور رہ رہ کر خیال اس بچی کے گھر والوں کا بھی آ رہا تھا جو کمال کا حوصلہ رکھتے ہیں کہ اکیلی بچی کو گھر سے اتنے فاصلے پر بھیج دیا
اب دوبارہ اسی منظر نامے کی طرف لوٹ آئیے جتنے بچے اور بچیاں درندگی کا شکار ہوئے ان کی اکثریت گھر سے اکیلے آتے جاتے ہی ایسے وحشیوں کا تر نوالہ بنے ۔ جہاں ان معصوموں نے کسی پر بھروسہ کیا یہ لٹ گئے برباد ہوئے مارے گئے
ماسوائے کسی انتہائ مجبوری کے کیا جواز ہے بچوں بالخصوص بچیوں کو گھر کی دہلیز اکیلے میں پار کرنے دینے کا
زیادہ تر بچے بچیاں ٹیوشن پڑھنے کے لئے یا پھر پارہ پڑھنے گھر سے نکلے اور پھر جنسی درندوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ گئے
قصور کی زینب بھی پارہ پڑھنے گھر سے نکلی
نوشہرہ کی عوض نور بھی گھر سے رب کی کتاب کا سبق لینے نکلی واپس دونوں ہی نہیں آئیں
ایک کا نوچا ہوا لاشہ کوڑے کے ڈھیر سے اور دوسری کا مسلا ہوا بے جان جسم پانی کی ٹینکی سے ملا
ریاست ، ادارے پولیس یہ سب تو بعد میں آتے ہیں
یہ بچے ہمارا کل اثاثہ ہیں ان کی حفاظت سب سے پہلے ہم پر واجب ہے ہم کیوں انہیں درندوں کی نذر کر دیتے ہیں
ہم بھی تو قصور وار ہیں
گھر کی دہلیز سے باہر جنگل شروع ہو جاتا ہے جہاں زندگی کی ضمانت ہے نہ کسی کے بچپنے کی
ہم بھی کتنے ظالم ہیں
اپنے زیور ، کرنسی قیمتی چیزیں سات پردوں میں چھپا چھپا رکھتے ہیں اور رب سے منتوں مرادوں سے مانگی اولاد کو خود بھیڑیوں کے آگے ڈال دیتے ہیں
ظالم تو ہم ہوئے ناں!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply