تعصب،اسٹیریو ٹائپس اور امتیازی سلوک/اظہر علی

پیچیدہ دنیا کو سمجھنے کے لیے انسانی دماغ کا یہی المیہ رہا ہے کہ وہ چیزوں کے درمیان مشابہت تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے. یہ کوشش کبھی کارگر ثابت ہوتی ہے تو کبھی خونریزی کی شکل اختیار کرتی ہے. اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ اسی خوبی کی بدولت ہی انسان نے اپنے کاگنیشن کے مدارج طے کیے ہیں.

دماغ کے سامنے والے حصے کو prefrontal cortex کہا جاتا ہے. اس حصے کا کام بشمول دیگر کاموں کے فیصلہ سازی کرنا، رائے بنانا اور مظاہر/واقعات کے گرد دائرہ کھینچ کر سابقہ مظاہر/واقعات کے ساتھ مشابہت تلاش کرنا ہے. یہ چیزوں کی درجہ بندی کرتا ہے اور اپنے محدود علم کی بنیاد پر مستقبل میں آنے والے واقعات سے اسے کنفرم کرتا ہے. نفسیات کی اصطلاح میں اسے confirmation bias کہا جاتا ہے. ہولے ہولے یہ گروپ بائس کی شکل اختیار کرتا ہے جسے بعد میں جا کر اِن گروپ بائس اور آؤٹ گروپ بائس میں تقسیم کیا جاتا ہے.

ان گروپ بائس کا مطلب یہ ہے کہ کیسے ہم خود کو اور دوسرے لوگوں کو، پیاز کی پرت در پرت کی طرح، تقسیم کرتے ہیں. اپنے گروپ ممبرز کی حمایت اور عزت و احترام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور دوسروں کی معمولی کوتاہی یا ذاتی غفلت کی اور اپنی insecurity کی بنیاد پر overgeneralize کرنے لگ جاتے ہیں. نسل، جنس، زبان اور علاقائی عصبیت کی یہ شکل بائس سے نکل کر پھر prejudice کی شکل میں سامنے آتا ہے اور اس prejudice کا اظہار پھر امتیازی سلوک کو وجود دے دیتا ہے. نتیجتاً بےسکونی اور بدامنی کی فضاء ہر سو پھیل جاتی ہے. اردگرد چیزیں پھر ویسی نہیں رہتی جیسی ہونی چاہیے ہوتی ہے.

1994 میں روانڈا میں ایک عظیم خونریزی کی ابتدا ہوتی ہے جسے تاریخ میں روانڈا کی نسل کشی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے. روانڈا کا اکثریتی ہوتو قبیلہ ٹوتسی قبیلے سے خائف تھا کہ وہ ان کا سیاسی اور معاشی غلبے کو ان سے چھین لیں گے. وقت گزرنے کے ساتھ ہوتو کے زعماء ٹوتسی قبیلے کے بارے منفی سٹیریوٹائپس پھیلاتے ہیں کہ وہ زیادہ privileged ہوتے جا رہے ہیں اور ہوتو قبیلے کا استحصال کررہے ہیں. دیکھتے ہی دیکھتے یہ ingroup bias ڈیپلی روٹِڈ prejudice کا شکل لیتا ہے اور دونوں قبائل کے مابین جنگ چھڑ جاتی ہے. اس جنگ کے نتیجے میں آٹھ لاکھ توتسی مارے جاتے ہیں اور اس سے کچھ زیادہ ہی کم ہوتو قبیلے کے افراد… پاکستان کا وجود بھی اس طرز کے دنگے فسادات سے مستثنیٰ نہیں ہے.

اس بحث سے نتیجہ کیا نکلتا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

تعصب انسان کی سرشت میں شامل ہے. اپنے شعور کے ابتدائی مراحل میں انسان کے لیے لسانی، نسلی، مذہبی، جنسی، علاقائی، نظریاتی اور پیشہ وارانہ تعصبات کو اپنے کنٹرول میں رکھنا مشکل تھا مگر اب چونکہ چیزیں بہترین طور پر نہ سہی بہت بڑے حد تک واضح ہوچکی ہے تو مزید کیوں منفی تعصبات کے گنگا میں نہایا جائے! جاہلیت کے ان بتوں کو خیر باد کہا جانا چاہیے اور معاشرے کی بہتری میں ہر رائے اور ہر نظریے کو خوش آمدید کرکے کھلے فکر وعمل سے اس پر بات اور عملی جامہ پہنانا چاہیے. یقین کریں، اجتماعی چیزیں پرسنل نہیں ہوتیں اور پرسنل چیزیں کبھی اجتماعی نہیں ہوتیں.
آخری جملہ آپ کی توجہ کا کچھ زیادہ ہی احتیاج رکھتا ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply