یہ سب سہا/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے
میں ماسکو تو لوٹ آیا تھا لیکن مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ مقرب تاجک نے ایسا آخر کیوں کیا؟ یہ تو بالکل کسی ہندی فلم کی کہانی بن گئی تھی جس میں مینیجر چال چل کر پورے کاروبار پر قبضہ کر لیتا ہے اور سیٹھ کوڑی کوڑی کو محتاج ہو جاتا ہے۔ میں نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ کروں تو کیا کروں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

 

 

 

بددیانت شخص سے نمٹنا مشکل ہوتا ہے پھر میرے جیسے روادار شخص کے لیے تو ویسے ہی بہت مشکل تھا۔ اس قسم کا ایک معمولی واقعہ پہلے بھی ایک بار ہو چکا تھا۔ مینیجر سرگئی کی ملازمت کے دو برس پورے ہوئے تھے۔ میں نے ایک چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ سرگئی کے کام دوست ہونے کی تعریف کی تھی اور اسے پندرہ روز کی اضافی تنخواہ بھی دی تھی۔ چند روز بعد سہیل نے کہا تھا،” آپ سرگئی کی بلاوجہ تعریف کرتے ہیں۔ وہ بے ایمان ہے۔ روز اتنا بڑا تھیلا کندھے کے ساتھ لٹکا کر آتا ہے جو خالی ہوتا ہے لیکن جب وہ دفتر سے جاتا ہے تو اس کا تھیلا پھولا ہوا ہوتا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ اس کا کوئی ثبوت دو تو بات بنے۔ اگلے روز سہیل نے مجھ سے کہا تھا آئیں ثبوت دیکھ لیں۔ ایک کمرے میں سرگئی کا تھیلا رکھا تھا جس میں پیکڈ ہائی نیک شرٹس ٹھنسی ہوئی تھیں۔ میں نے اس میں سے ایک پیک نکال کر اس کے تھیلے کے اوپر رکھ دہا تھا اور زپ پھر سے بند کرکے سہیل سے کہا تھا،”تم سرگئی سے کچھ نہ کہنا، دیکھتے ہیں اس کا ردعمل کیا ہوتا ہے”۔ جاتے ہوئے اوپر دھرا پیک تھیلے میں واپس ڈال کر سرگئی بھرا ہوا تھیلا ساتھ لے کر چلتا بنا تھا۔ اگلے روز میں نے سہیل سے کہا تھا کہ آج بھی اگر وہ تھیلا بھر کر لے جانے لگے تو اس سے پوچھ لینا کہ کیا اس نے رسید بنا لی تھی۔ سہیل نے ایسا ہی کیا تھا اور سرگئی نے یہ کہہ کر کہ اوہ میں نے تو یونہی رکھ لی تھیں مگر اب میرا ارادہ بدل چکا ہے، شرٹس اپنے تھیلے سے نکال دی تھیں۔ دو روز بعدر اس نے خود ہی کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ظفر نے بتایا تھا کہ مقرب اپنے روسی مہمانوں کے ساتھ کراچی میں شاہراہ فیصل پر نرسری کے قریب کسی ہوٹل میں مقیم ہے۔ ظفر سے گلہ کیا تھا کہ اس نے مقرب کو یہ حرکتیں کرنے سے کیوں نہیں روکا تھا۔ ظفر کا موقف تھا کہ آپ نے خود ہی اسے خالی کاغذوں اور بلینک چیکس پر دستخط کرکے دیے تھے تو میں اسے کسی بھی حرکت سے بھلا کیسے روک سکتا تھا۔ مگر میرا کہنا تھا کہ میری غیر موجودگی میں دفتر کی نگرانی پر ظفر ہی مامور تھا۔ ظفر نے یہ ذمہ داری خود لی تھی۔ اس بات کا ظفر برا منا گیا تھا۔ مجھے شک تھا کہ کسی نہ کسی حوالے سے اس سارے معاملے میں مقرب اور ظفر شریک تھے۔
ندیم کا دفتر بھی نرسری میں تھا۔ نزدیک ہی دو بہتر ہوٹل تھے۔ میں نے ندیم کو فون پر صورت حالات سے آگاہ کیا تھا۔ ندیم نے مقرب کو تلاش کروا لیا تھا لیکن اس نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی تھی کی روسی گاہکوں کو تو وہ اپنے کسی اور کام کے سلسلے میں ساتھ لایا تھا۔
میں نے مناسب جانا تھا کہ سب سے پہلے روسی پارٹی سے رجوع کیا جائے۔ میں نے نینا سے مشورہ کیا تھا۔ نینا نے مشورہ دیا تھا کہ کونیتسن، وہ شخص جو مقرب کے ساتھ گیا تھا اور جو مجھ سے کپڑا خریدتا تھا، کو ایک خط لکھا جائے کہ مینیجر مقرب نے دھوکہ دہی کی تھی چنانچہ میری کمپنی اس کے خلاف فوجداری مقدمہ کروا رہی ہے۔ ان کے لیے بہتر ہوگا کہ مقرب کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھیں۔ نینا نے ایک لیٹر ہاتھ سے لکھ دیا تھا۔ چند روز بعد جب کونیتسن اور اس کا ایک اور روسی ساتھی پاکستان سے لوٹ آئے تھے، میں جا کر کونیتسن سے ملا تھا اور نینا کے ہاتھ کا لکھا خط اس کے حوالے کر دیا تھا۔ کونیتسن کا کہنا تھا کہ مقرب انہیں میری کمپنی کے توسط سے لے گیا تھا تاکہ کام آگے بڑھایا جا سکے۔
نینا کا مشورہ مناسب نہیں تھا جس پر میں عمل درآمد کر بیٹھا تھا۔ ظاہر ہے مقرب بھی ماسکو لوٹ آیا تھا مگر اس کے گھر کے فون سے بالکل جواب نہیں دیا جا رہا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے وہ، اس کی بیوی اور اس کی بیوی کا بیٹا سب گھر چھوڑ کر چلے گئے ہوں۔
ایسے میں ظفر اور شہزاد ہی تھے جو میرا غم کم کرنے میں مددگار تھے۔ کام ٹھپ ہو چکا تھا۔ مافیا باقاعدہ بھتہ وصول کر رہی تھی۔ مقرب کا پتہ نہیں چل پا رہا تھا۔ ایسے میں امتیاز چانڈیو کام آیا تھا جس نے کسی طرح مقرب کو ڈھونڈ نکالا تھا اور کسی اور جگہ پر میری اس کے ساتھ ملاقات کروائی تھی۔ مقرب شاکی تھا کہ کونیتسن سے کیوں کہا تھا کہ آپ اس کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کروا رہے ہیں۔ میرا جواب تھا کہ ایسے میں جب وہ اپنے طور پر پرچیز پارٹی پاکستان لے گیا۔ فارن ایکسچینج منتقل کیا اور دفتر لوٹا تک نہیں تو اور کیا کہا جا سکتا تھا۔ مقرب نے یہ کہہ کر کہ کل دفتر آ کر ساری باتیں تفصیل کے ساتھ کرے گا، جان چھڑوا لی تھی۔
اگلے روز وہ دفتر آیا تھا ۔ ایک شخص جس کی کل تنخواہ ڈھائی سو ڈالر تھی، اس کے پاس الیکٹرونک فون بک تھی جو ان دنوں ڈیڑھ دو سو ڈالر کی ملتی تھی۔دھوپ کا برانڈڈ چشمہ تھا۔ بہترین کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی کارستانیوں کا جواب دیتا اس نے یہ کہہ کر مجھے خائف کر دیا تھا کہ میں نے کئی برس سے ویلیو ایڈڈ ٹیکس ادا نہیں کیا۔ اگر وہ چاہتا تو ٹیکسیشن والوں کو مطلع کرکے مجھے اندر کروا سکتا تھا۔ مجھے ایک تو روسی زبان نہیں اتی تھی دوسرے م5 روسی قوانین نہیں جانتا تھا چنانچہ ڈر گیا تھا۔ مقرب نے کہا تھا کہ چند روز تک وہ سارا حساب لکھ کر دے دے گا اور اگر پیسہ منتقل کیا تو کسی مقصد کے تحت کیا تھا جو وہ لوٹا دے گا۔ دو ہی طریقے ہو سکتے تھے کہ یا تو اس کے خلاف رپورٹ درج کروائی جاتی۔ پولیس کارروائی تب کرتی جب ثبوت اکٹھے کرلیتی۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ اس پر اعتبار کیا جاتا تاکہ جو مل سکتا تھا وہ مل جاتا، چنانچہ میں نے دوسرا طریقہ اختیار کرنا ہی بہتر جانا تھا۔
یہ آخری بڑی غلطی تھی جو مجھ سے سرزد ہوئی تھی۔ اس کے بعد مقرب تاجک ایسے غائب ہوا تھا جیسے اسے آسمان نگل گیا ہو یا زمین کھا گئی ہو۔ میں، شہزاد اور ظفر کئی بار اس کے گھر گئے تھے لیکن کوئی دروازہ نہیں کھولتا تھا۔ اس کے گھر کا ٹیلی فون بند تھا۔ رات کو دفتر میں میں اکیلا ہوتا تھا کہ فون کی گھنٹی بجتی تھی ۔ ریسیور اٹھانے پر بھیانک چیخیں سنائی جاتی تھیں۔ ہیلو ہیلو کہنے پر کوئی جواب نہیں ملتا تھا مگر فورا” بعد پھر ہیبت ناک چیخیں اور ڈراؤنی آوازیں سنائی دینے لگتی تھیں۔
امتیاز چانڈیو پاکستان گیا ہوا تھا۔ مقرب کے آخری بار نمودار ہونے کے بعد شروع ہونے والے یہ ڈراؤنے فون بیس پچیس روز بعد یک لخت بند ہو گئے تھے۔ امتیاز چانڈیو جب ایک ماہ بعد لوٹا تھا تو اس کے ساتھ رابطہ ہوا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ مقرب تاجک اپنی بیوی بچے کے ہمراہ امریکہ چلا گیا تھا۔
میرے ناگفتہ بہ حالات کو دیکھ کر نینا نے کہا تھا کہ میں راتیں اس کے ہاں گذارا کروں اس لیے کہ مافیا کا بھتہ چکانے کے پیسے نہیں تھے، ایسا نہ ہو کہ وہ رات کو دفتر میں پٹرول بم سے آگ ہی لگا دیں۔ دوسری جانب شہزاد کی فیس ادا نہیں ہو پا رہی تھی۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ وہ کام شروع کر دے مگر وہ ڈٹ گیا تھا کہ وہ کام کرنے کے لیے ماسکو نہیں آیا تھا۔ ایک پاکستانی شخص جس نے مجھ سے بہت سا مال لیا ہوا تھا کبھی کبھار بڑی مشکل سے دو سو، تین سو ڈالر دے دیتا تھا جس سے میں اپنی گذر بسر بھی کرتا تھا اور شہزاد کو بھی کھانے پینے کے لیے کچھ دے دیتا تھا۔ شہزاد اکتا گیا تھا اور دل جلانے والی باتیں کرنے لگا تھا۔ ویسے بھی اس کی تعلیم پر توجہ نہیں تھی۔ میں نے کہیں سے کر کرا کر اسے ٹکٹ لے کر دیا تھا، یوں وہ پڑھائی وڑھائی چھوڑ گھر لوٹ گیا تھا۔
ایک گاڑی تاجک ہتھیا چکا تھا۔ میں نے دوسری گاڑی اونے پونے بیچی تھی اور مناسب جانا تھا کہ الماآتا جا کر رؤف تاتار سے عدالت کے ذریعے رقم وصول کرنے کی کوشش کی جائے۔ میں نے ظفر کے منجھلے بھائی نصراللہ کے ذمے لگایا تھا کہ وہ دفتر میں رہا کرے۔ کسی کے بیل بجانے پر دروازہ نہ کھولے اور خود ایک بار پھر بذریعہ ریل گاڑی شولپان کے ہاں جا پہنچا تھا۔ رؤف بھی مقرب تاجک کی مانند ملنے سے انکاری تھا بلکہ اس کی بیوی ہی فون اٹھاتی تھی اور کہہ دیتی تھی کہ وہ شہر میں نہیں۔
جب مقدمے کے بارے میں معلوم کیا تو پتہ چلا کہ مطلوبہ رقم کا دس فیصد جمع کروانا پڑتا تھا تب عدالت مقدمے کی کارروائی شروع کرتی تھی۔ اگر ساڑھے پانچ ہزار ڈالر ہوتے جو مطلوبہ رقم کا دس فیصد بنتا تھا تو میں الماآتا آتا ہی کیوں، ماسکو میں رہ کر جو مال موجود تھا اس کو اونے پونے بیچنے کی کوشش کرتا۔ تاہم الماآتا میں وہ ماسکو والی پریشانیاں نہیں تھیں۔ شولپان کے ساتھ وقت اچھا کٹ رہا تھا۔
ایک روز ظفر کے منجھلے بھائی نے فون کیا تھا کہ مافیا دروازے توڑنے کو ہے۔ اب وہ دفتر میں نہیں رہ سکتا۔ بتائیں میں کیا کروں؟ میں نے کہا تھا کہ جس پاکستانی شخص نے پہلے مال اٹھایا ہوا تھا۔ اسے بلا کر کہو کہ سارا مال اٹھا لے۔ جب مال نکال لیں تو تم دفتر کو تالا لگا کر نکل جانا۔
رؤف کے معاملے سے مایوس ہو کر اور ماسکو میں موجود سب کچھ لٹا کر میں الماآتا سے ہی پاکستان چلا گیا تھا۔ میں مریدکے میں چوہدری الیاس کے ہاں مہمان تھا۔ ایک روز ہمیں لاہور جانا تھا۔ الیاس کی کمر میں درد تھا اس نے مجھ سے گاڑی چلانے کو کہا تھا۔ جب لاہور کے نزدیک پہنچے تو الیاس نے کہا تھا،” یار وہ میمونہ کا فون آیا تھا آج اسے لاہور پہنچنا تھا، تمہارے خیال میں وہ کہاں آ سکتی ہے؟” میں سمجھ گیا تھا کہ الیاس، میمونہ کے ساتھ میرا سلسلہ جنبانی کرانا چاہتا ہے مگر مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں نے بے دلی سے کہا تھا،” مجھے کیا پتہ چوہدری۔ اس کے ماں باپ یہیں کہیں لاہور میں رہتے ہیں آجکل۔ ان کے ہاں ہی آئی ہوگی”۔ مینار پاکستان سے آگے لیڈی ولنگڈن ہسپتال کے سامنے ایک لیبارٹری کے قریب الیاس نے مجھے گاڑی روکنے کو کہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ یہ لیبارٹری میمونہ کی ایک شناسا خاتون کی تھی۔ الیاس نے مجھ سے کہا تھا آؤ چلو۔ میں نے انکار کر دیا تھا کہ میں بھلا کیوں جائے، تمہیں ہی میمونہ کی تلاش ہے تو خود جاؤ۔ خیر الیاس چلا گیا تھا لیکن ایک لمحے کے بعد لیبارٹری سے باہر نکل کر مجھے آنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ میں اپنی سیٹ پر جما رہا تھا۔ الیاس خود ہی چل کر آیا تھا اور ڈرائیور سیٹ کے شیشے کے قریب آ کر کہا تھا، “اوہ یار، شی ہیز گاٹ اے کڈ”۔ مجھے الیاس کے استعجاب پر بے اختیار ہنسی آ گئی تھی اور میں نے ہنستے ہوئے کہا تھا،” پھر میں کیا کروں بھائی؟”۔ الیاس بہت جز بز لگتا تھا۔ اس نے کہا تھا، کم از کم آریانا سے تو مل لو۔ میں اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے گاڑی سے اتر کر لیبارٹری کے اندر چلا گیا تھا۔ میمونہ نے ایک کالی سی کمزور بچی تھامی ہوئی تھی جو غالبا” ماہ ڈیڑھ ماہ کی تھی۔
میں نے آریانا کو پیار کیا تھا۔میمونہ نے مجھے سلام کیا تھا اور کھا جانے والی نظروں سے مجھے دیکھا تھا۔ میں نے سلام کو جواب دے دیا تھا۔ الیاس نے ممیمونہ سے کہا تھا چلو تمہیں کھانا کھلاتے ہیں۔ ہ سب گاڑی میں سوار ہو گئے تھے۔ میمونہ طنز کے تیز چلا رہی تھی۔ میں خاموش تھا۔ الیاس ہر بات کو مذاق میں ٹالنے کی کوشش کیے جا رہا تھا۔ ہم نے گلبرگ میں ایک ٹیک اوے چائنیز سے کھانا لے کر گاڑی میں ہی کھایا تھا۔ پھر الیاس نے کہا تھا اب کہاں چلیں یار؟ میں نے کہا تھا کہ ایک ہی جگہ جا سکتے ہیں ، غزالہ کے ہاں۔ الیاس نے کہا تھا چلو۔ میمونہ کی بچی بہت رو رہی تھی۔ اسے دودھ چاہیے تھا۔ ایک جگہ الیاس نے گاڑی رکوائی تھی اور خود نکل کر بچی کے لیے دودھ لینے چلا گیا تھا۔ اب میمونہ براہ راست مجھے ضیق کر رہی تھی۔ میرے لیے اس کا رویہ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ جونہی الیاس سپر سٹور سے لوٹا، میں چیختے ہوئے گاڑی سے نکلا تھا، ” خود ہی چلاؤ گاڑی، تم کیا میری بے عزتی کروا رہے ہو اس عورت سے”۔ بیچارہ الیاس کبھی میمونہ کو سمجھاتا کبھی مجھے پچکارتا۔ میں بھی کیا کرتا، الیاس بھی دوست تھا اور غزالہ بھی دوست چنانچہ پھر گاڑی چلانے لگا تھا۔ جب غزالہ کے گھر میں داخل ہوئے تو غزالہ، میمونہ کی بانہوں میں بچی کو دیکھتے ہی بولی تھی “اوئے یہ تو کس کے پلے کو لٹکا کر آ گئی ہے؟” اب دونوں سہیلیوں میں ٹھن گئی تھی مگر دو منٹ بعد ہی غزالہ بچی کو گود میں لیے اس کو پیار کر رہی تھی۔
اب غزالہ اور الیاس کی وہی تکرار شروع ہو گئی تھی کہ یار مرزا اپنے بچوں کی خاطر میمونہ سے صلح کر لو۔ ہمارے کہنے پر یہ اپنے شوہر سے طلاق لے لے گی۔ تم اس کے ساتھ پھر سے نکاح کر لو۔ میں ایک بار نہ کہہ دیتا تو سو دفعہ نہ ہوتی تھی اور ایک دفعہ ہاں کہنا تو بھی پکی۔ میں مسلسل انکار کر رہا تھا مگر میرے دونوں دوست بھی دھن کے پکے تھے۔
میں سگریٹ پینے کے لیے پورچ میں آ گیا تھا۔ چاند نکلا ہوا تھا۔ چنبیلی مہکی ہوئی تھی مگر میرا دل مضطرب تھا۔ میں سگریٹ پی رہا تھا اور آنکھیں نم تھیں۔ میں نے پھر سے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی کہا تھا،”یار تم لوگ کہو تو میں گردن نیچے رکھ دیتا ہوں، چھری چلا دو۔ اف بھی کر جاؤں تو کہنا تف ہے لیکن جو بات تم کہہ رہے ہو یہ مجھ سے آئندہ مت کہنا”۔ وہ مجھے جانتے تھے چنانچہ چپ ہو گئے تھے۔ الیاس اور میں، میمونہ اور اس کی بچیوں کو اس کے والد کے گھر ڈراپ کر آئے تھے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply