جاوداں رکھنا ہے وطن کو قیامت کی سحر ہونے تک/شائستہ مبین

آزادی” جسے ہم ہمیشہ ایک “نعمت” قرار دیتے رہے ہیں ، لیکن اسے نعمت سمجھنے میں آج بھی قاصر ہیں۔ ہمیں آج تک آزادی اور نعمت دونوں الفاظ کا مفہوم سمجھ نہیں آیا ۔

 

 

 

 

 

فضا میں اڑتا پرندہ ا   ور پنجرے میں قید پرندہ الگ الگ کیفیت سے گزر رہے ہوتے ہیں ، ہم نے کب جانا کہ جب ہم پنجرے میں قید تھے تو ہمارے آباو اجداد میں سے کئی  فضا میں اُڑنے کی حسرت سینے میں لیے دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ اس مملکت خداداد کی ٹھنڈی میٹھی چھاؤں میں بیٹھنے کیلئے ہمارے پرکھوں نے اپنا آپ خنجروں، چھروں، کدالوں کی نذر  کر دیا، خون سے لت پت ریل گاڑی جب “ہندوستان” سے الگ ہوئے نئے نئے”پاکستان” کے کسی اسٹیشن پر رکتی تھی تو اس ریل گاڑی سے خون کے ٹپکنے کے علاوہ کسی ذی روح کی آواز نہیں آتی تھی۔ لہو میں لت پت خاموشی اسٹیشن کی سراسیمگی میں مزید اضافہ کرتی تھی۔ اس گاڑی میں کٹی پھٹی لاشوں کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں آزادی کے دیپ جلنے سے پہلے ہی بجھتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ آج ہم پاکستان میں اس آزادی کے دن کو “باجے” بجا کر ان آنکھوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں , تف ہے ہم پر۔

ہم سب جانتے ہیں یہ آزادی ہم نے بہت مشکل سے بہت قربانیوں کے بعد حاصل کی ہے لیکن اتنی مشکل سے حاصل کی ہوئی  اس آزادی کو ہم غلاموں کی طرح کیوں بسر کر رہے ہیں؟ ہم آزاد ہیں تو ہم اپنے حقوق کیلئے بولتے ہوئے کیوں گھبراتے ہیں؟ ہم آزاد ہیں تو ظلم کے خلاف کیوں نہیں کھڑے ہوتے؟ ہم آزاد ہیں تو ہم سچ کا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟ ہم آزاد ہیں تو دوسروں کو آزاد کیوں نہیں رہنے دیتے، ان کی سوچ، نظریے ،فکر کو برداشت کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم آزاد ہیں تو دل سے من سے غلام کیوں ہیں؟ ہم ذہن سے آزاد کیوں نہیں؟

یہ پاکستان تو ہم نے اسی لیے حاصل کیا تھا نا کہ یہاں آزادی صحیح معنوں میں حاصل ہوگی اسی لیے تقسیم ہندوستان کے وقت کئی  اقلیتیں بھی ہجرت کر کے یہاں آ بسیں تھیں کہ یہاں ان کو بھی مذہب، سوچ، نظریے کی آزادی ہوگی؟ یہاں تو آزادی کی جگہ شدت پسندی نے لی ہوئی ہے، ستر دہائیوں پر محیط یہ “آزادی “ہماری جڑوں میں بیٹھ گئی  ہے ، قوم کی جگہ ایک بے لگام ہجوم نے لے رکھی ہے جو کسی راہبر سے محروم ہے ،بس چلے جا رہا ہے۔ 14  اگست کو یہ ہجوم سبز اور سفید رنگ پہن کر سڑکوں پر باجے لیکر نکلے گا، جشن کے نام پر غل غپاڑہ ہوگا، موٹر سائیکلوں کے سائلنسر کی آوازیں قوت سماعت سے یوں ٹکرائیں گی جیسے بم دھماکے کی آواز ہو، آتش بازی سے پتہ چلے گا کہ ہماری آزادی کا مطلب یہ پُھل جھڑیاں ہیں جو 76  سالوں سے چھوڑی جا رہی ہیں۔ عمارتوں کو بتیوں سے سجانے پر چھ چھ لاکھ انعامات رکھے جائیں گے، سب سے بڑا پرچم لگائیں گے، کیک کاٹیں گے اور پھر اگلے دن یہ ہی پرچم پیروں سے روندتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے۔ کس بات کا جشن ہے؟ اس بکھری ہوئی قوم ، برباد قومی ساکھ، دنیا میں بے وقعتی اور تباہ شدہ معیشت کے سوا کیا ہے ہمارے پاس جس پر فخر کیا جائے؟ جشن منانے کیلئے قومیں خود کو اس قابل بناتی ہیں دنیا میں وقار اور مقام حاصل کرتی ہیں پھر جشن منانے کا حق ادا ہوتا ہے۔

جو ملک بجلی، پانی اور معیشت کے بحران سے گزر رہا ہو کیا وہ آزادی کو یوں منانے کا اہل ہے؟ آزادی منانی ہے تو معیشت کی پالیسیاں بہتر کیجیے، تعلیمی اداروں کی بہتری پر توجہ کیجیے، آگاہی دیجیے، سوچ کو بلند کرنے کے طریقے بتائیے، مساوی حقوق مہیا کیجیے، سائنسدانوں کی قدر کرنا سکھائیے۔ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے ملک تعلیم اور سائنس میں ہم سے سبقت لے چکے ہیں، وہ خلاؤں کو تسخیر کر رہے ہیں اور ہم آج بھی واہگہ بارڈر پر اپنے سپاہی کی ٹانگ ہمسایہ ملک کے سپاہی سے زیادہ اونچی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔

اگر ہم نعرہ لگاتے ہیں کہ “یہ وطن ہمارا ہے ہم ہیں پاسباں اس کے” تو یقین کیجیے کوئی  نجات دہندہ نہیں آئے گا ہم خود ہی اس کشتی کے نا خدا ہیں ۔ کوئی  حکومت کوئی  لیڈر کوئی  معجزہ کارآمد نہیں جب تک ہم خود جاگ نہیں جاتے۔ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرا کر ہم اس ملک کو سنبھالنے کی نگہداشت سےبَری الزماں نہیں ہو سکتے ۔ صرف نعرہ لگانے سے یہ وطن ہمارا نہیں ہو جاتا اس کو اپنانے کیلئے اس کے غلط کو ٹھیک کرنے کی زمہ داری بھی اٹھانی پڑتی ہے۔ اس وطن کو” زندہ باد” رکھنے کیلئے اس کیلئے اپنی جاہلیت کی قربانی دینی ہوگی، اس کو روشن اور حسین رکھنے کیلئے اپنی گمراہی کے اندھیرے سے نکلنا ہوگا۔ یہ زمیں پھول اور یہ وطن چاند تب ہوگا جب ہم اس کے سبز ہلالی پرچم کی عزت و تکریم کرنا سیکھ جائیں گے۔ یہ آزادی نعمت اس وقت ہوگی جب ہمیں اس کا شکر ادا کرنے کا طریقہ آتا ہوگا۔ اپنی نئی  نسل کو 14  اگست کا مطلب سمجھانا ہوگا جس کی بنیاد تحریک پاکستان اور اس سے جڑی لازوال قربانیوں سے منسلک ہے ، ہمارے اس عزم دیرینہ کی بنیاد پاکستان کی بقا اور ترقی کیلئے مزید قربانیوں کے عہد سے وابستہ ہے ۔ ان کو بتانا ہوگا کہ 14 اگست 1947 ارض کشور حسین پر جب سبز ہلالی پرچم لہرایا گیا تو یہ صرف ایک پرچم نہیں تھا اس کی سلوٹیں ایثار اور قربانی سے عبارت تھیں۔ ان کو بتانا ہے کہ تحریک پاکستان کے راہنما شدید جدوجہد کے بعد کیسے نظریے کو وجود، زمین کو جغرافیہ اور قوم کو معجزائے زندہ عطا کر گئے۔ شاندار تاریخ، جاندار تحریک اور جناح کے عظیم نظریے کے حامل پرچم و زمین پاکستان جو ہمارا یقین بھی ہے اور ایمان بھی، جو ہمارا عزم بھی ہے اور حوصلہ بھی۔ اس کی شان ہم نے بڑھانی ہے۔ اے اہل وطن جشن ! آزادی ضرور منائیں لیکن اس عہد کے ساتھ کہ آپ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا منفرد کردار نبھائیں گے۔

خدائے ذوالجلال ہماری ارض پاک، ہمارے سبز پرچم پر رحمت رکھے! آمین

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان زندہ باد، آزادی مبارک

Facebook Comments

شائستہ مبین
شائستہ مبین ماہر نفسیات لیکچرار، کوہسار یونیورسٹی مری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply