انٹرنیٹ اور ہماری نئی نسل

ہم اگرچہ ترقی یافتہ نہیں مگر سوشل میڈیا نے ہمیں ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے دنیا سمٹ کر ہمارے قریب آ گئی ہے۔ ہم کم وقت میں بہت سے کام کرسکتے ہیں۔ نصابی تعلیم ہو، روزگار کا حصول ہو، اندرون و بیرون ملک داخلہ لینا ہو، بزنس کی معلومات ہوں، انٹرنیٹ پر ہر مضمون پہ علم کا ذخیرہ موجود ہے اور ہماری دسترس میں ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کے جہاں مثبت اثرات ہیں وہاں منفی بھی ہیں۔ انٹرنیٹ سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے ہماری نسلیں برباد ہو رہی ہیں۔

اسلام نے جو اصول ہمارے لیے مرتّب کیے تھے ان میں ہمارے دین اور رشتوں کی بقا تھی۔ مشرقی روایات اور اسلامی اطوار نے ہمیں اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ مذہب، شرافت، حیا، خلوص، محبت سے ہمارے ضابطۂ حیات کی تکمیل ہوتی تھی۔ رشتوں کا تقدس تھا۔ والدین کی خدمت، اساتذہ اور بزرگوں کا احترام ہماری تربیت میں شامل تھا۔ ماں بچوں کو نماز، قرآن، دعائیں، اٹھنے بیٹھنے کے طریقے اور بڑوں سے ادب تمیز سکھاتی تھی۔ ان کے ہر فعل و حرکات و سکنات پر ماں کی نظر ہوتی تھی۔ استاد قوم کو علم کے زیور سے آراستہ کرتے تھے۔ تعلیمی سرگرمیوں کے باوجود ہم معاشرے سے کٹے ہوئے نہیں تھے۔ ہمسایوں سے، رشتہ داروں سے میل جول، بیماروں کی احوال پرسی، مہمان کی خاطر داری، گھریلو اور بیرونی کاموں میں ماں باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیے ہمارے پاس کھلا ٹائم تھا۔ مہمان اگر بے وقت بھی آ جاتے تھے تو ان کے لیے دال ساگ حاضر تھا۔ دو کمروں کے گھر میں آٹھ دس افراد کے قیام کا بندوبست ہو جاتا تھا۔ لیکن اب ہماری روایات بدل چکی ہیں۔ ہم اپنی مشرقی روایات کی زنجیروں کو توڑ کر مغرب کی زنجیروں میں بندھ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کی چکا چوند نے ہماری چشمِ بصیرت چھین لی ہے۔ دل و دماغ پر پردہ پڑ گیا ہے۔ ضمیر پر برائیوں کی چھاپ ہے۔

اب نہ ماں ہے نہ استاد اور نہ بڑے بزرگ۔ شرم و حیا کے وہ پردے جو بچوں اور بڑوں کے درمیان حائل تھے تار تار ہو چکے ہیں۔ ہم ترقی کے نام پر لادینیت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ریڈیو، سینما، سٹیج ڈرامے تو پہلے بھی تھے لیکن گھر سے نکل کر ان تک پہنچنا اکثریت کے لیے معیوب تھا۔ مغرب نے ٹی وی ایجاد کر دیا۔ گھر بیٹھے ڈراموں اور فلموں کی سہولت میسر ہوگئی۔ اور تو اور، میڈیا نے اپنے کلچر کے علاوہ دوسرے ممالک جیسے کہ انڈیا و ترکی وغیرہ کے کلچر کے ڈراموں کی یلغار کر دی۔ یہ ہمارے اخلاق پر کاری ضرب تھی جو کارگر ثابت ہوئی۔ اور پھر اسی پر اکتفا نہیں ہوا، اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے ڈش، کیبل اور انٹرنیٹ کا تحفہ دیا گیا اور پھر رہی سہی کسر انٹرنیٹ کے بے جا اور غلط استعمال نے پوری کر دی۔

اب نیٹ ہے اور ہماری نئی نسل۔ نہ دین سے رغبت، نہ سونے کا وقت نہ جاگنے کا اورنہ کھانے کا۔ بچے ہر وقت نیٹ پر موجود رہتے ہیں، ماں سے رشتہ ٹوٹ کر نیٹ سے جڑ گیا ہے۔ اب ان کی تربیت گاہ وہی ہے۔ خرافات سے بھرپور یہ تحفہ ہر بچے کی جیب اور بیگ میں موجود ہے۔ وہ کیا دیکھ رہے ہیں؟ کس سے باتیں کر رہے ہیں؟ کس سے دوستی کر رہے ہیں؟ ان کی سرگرمیاں کیا ہیں؟ والدین نگرانی کرنے سے قاصر ہیں۔ کچھ شوقین مزاج والدین اپنے آٹھ دس برس کے بچے کو بھی ایک بڑا سا موبائیل اور Tab گفٹ کر دیتے ہیں، اس سوچ سے بےخبر کہ یہ بچے کی معصومیت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ بچے بچپن میں ہی اپنی معصومیت کھو بیٹھتے ہیں۔ زندگی کی سچائیوں اور حقیقتوں سے بے خبر اچھائی اور برائی کی پہچان سے پہلے وہ جوان ہو جاتے ہیں۔ والدین ہوٹلوں اور کلبوں میں اور دعوتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ماؤں کی ٹیلیفون پر لمبی کالز اور انٹرنیٹ پر غیر ضروری مصروفیات کی وجہ سے بچے عدم توجہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بچے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر اپنی ایک نئی دنیا بناتے ہیں اور اُسی میں مگن رہتے ہیں۔ کھانے باہر سے کھائے جاتے ہیں۔

اب گھروں میں دل و جان سے کوکنگ کا شوق نہیں پالا جاتا۔ بچیوں کو نہ کچھ پکانے کا سلیقہ رہا اور نہ مہمان داری کا۔ گھر میں مہمان آ جائیں تو انھیں ہوٹلوں کی راہ دکھا دی جاتی ہے۔ مہمان اگر گھر میں قیام کرنا چاہیں تو ہائی جینٹری کے لیے بڑی مشکل پیش آ جاتی ہے۔ تین بیڈ روم، ڈرائنگ ڈائننگ، کامن روم، لاؤنج، سٹڈی روم کی گنتی کرنے کے بعد آٹھویں کمرے کی گنجائش بھی نہیں نکلتی کیونکہ وہاں ٹامی سوتا ہے اور اپنی خلوت میں کسی کا مخل ہونا پسند نہیں کرتا۔

بچے والدین کی چشم پوشی کی وجہ سے اپنی دلچسپیوں میں الجھے رہتے ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، موبائل ہاتھ میں، پورا وقت نیٹ کی سرگرمیاں۔ دل و دماغ کہیں اور ہوتا ہے بیٹھے کہیں اور ہوتے ہیں۔ یا کبھی پتھر کے بت کی مانند سامنے بیٹھے ہر چیز سے بے خبر ہوتے ہیں۔ کوئی بات کرے تو چونک جاتے ہیں۔ چمچہ ہاتھ میں پکڑ کر ہانڈی جلا دیتے ہیں۔ روٹی توے پر یا تو کچی رہ جاتی ہے یا جل جاتی ہے۔ نیٹ پر گیمز کھیلنے کے دوران گھر کے کسی بھی فرد کی بے وقت مداخلت سے غضب ناک ہو جاتے ہیں۔

والدین اور عزیز و اقارب سے ملاقاتیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی نے ہمیں اتنا مصروف اور خود پسند کر دیا ہے کہ ہمارے پاس کسی سے ملنے کا وقت نہیں رہا۔ محبتیں مفقود ہو گئی ہیں۔ اب سارے رابطے فیسبک پر ممکن ہیں۔ ہم نے کیا کھایا، کیا پہنا، کس کس سے بات کی، اور کس کس سے لڑائی کی، یہ سب معلومات فیسبک سے ملتی ہیں۔ اگر ہم کوئی بات بھولنا چاہیں تو لوگ فیسبک پہ یاد کروا دیتے ہیں کہ فلاں تاریخ، فلاں وقت میاں بیوی کی سخت جنگ چھِڑی تھی، فلاں دن ہمسایوں کے گھر تانک جھانک پر راجہ صاحب کی لتر پریڈ ہوئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا ہم واقعی ترقی پذیر دور میں داخل ہو چکے ہیں؟ جو کچھ سیکھنا ہے انٹرنیٹ موجود ہے۔ سارے بے ڈھنگے فیشن، بالوں کے سٹائل انٹرنیٹ سے سیکھیں۔ ایسے ایسے فیشن کہ صنف پہچاننے میں بھی مشکل درپیش آئے۔ عریاں لباس، عریاں فیشن، مغرب اور مشرق کی تمیز کو ختم کر رہے ہیں۔ ہم ایک اسلامی ملک میں غیر اسلامی انداز میں رہتے ہیں۔ کلمہ پڑھنے کے بعد دین کی اصل روح و اساس کو بھول جاتے ہیں۔ اپنی روایات پہ چلنا ہمیں باعثِ تضحیک لگتا ہے اور غیروں کی روِش پہ چلنا باعثِ فخر۔
ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا نے ہمیں ترقی یافتہ بنانے کا چکمہ دیا ہے۔ ہم ترقی تو حاصل نہیں کرسکے مگر اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے ہیں۔

Facebook Comments

نسرین چیمہ
سوچیں بہت ہیں مگر قلم سے آشتی اتنی بھی نہیں، میں کیا ہوں کیا پہچان ہے میری، آگہی اتنی بھی نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply