• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یومِ آزادی ،14 اگست کو کیوں ؟        -تحریر/   اختر شہاب

یومِ آزادی ،14 اگست کو کیوں ؟        -تحریر/   اختر شہاب

میں یہ مضمون کیوں لکھ رہا ہوں۔ کیوں گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش کر رہا ہوں اور اس بات سے کیا فرق پڑنا ہے کہ یومِ آزادی 14  اگست ہے  یا15  اگست؟ اصل میں  اس کی میرے نزدیک  ایک ٹھوس وجہ ہے کہ  میں  نہیں چاہتا کہ ہم ایسی  قوم مشہور ہو جائیں جو تاریخ کو مسخ کر نے میں شیر ہیں اورجو بقول کسے ‘‘غلامی کے آخری دن ’’ یعنی 14  اگست کو یومِ آزادی مناتے  ہیں لہٰذ ایہ جاننا ضروری ہے  کہ حقیقت کیا ہے  اور یوم آزادی 14   اگست کو منانے کی کیا وجہ ہے۔

 

 

 

 

پاکستان کی نئی نسل کویہ باور کرایا جاتا ہے  کہ پاکستان 14 اگست 1947ء بروز جمعرات بمطابق -27رمضان المبارک 1366ھ کو معرض وجود میں آیا۔ ۔ اُنھیں یہ بات اُن کے والدین ، اُن کی درسی کتب اور ٹیلیویژن بتاتا ہے۔ حکومت کے اعلان کے مطابق یہ قومی دن ہے ۔ سب لوگ ہر جگہ قومی پرچم لہراتے ہیں  ۔ یہ کام ہرعمر کے لوگ خوشی  سے کر رہے ہوتے ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ  نوجوانوں  ( جنہوں نے وہ وقت نہیں دیکھا ) کے ساتھ ساتھ بزرگوں کا بھی حافظہ جواب دے گیا ہے۔اگرچہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں ساٹھ ستر برس بعد بھی اپنے بچپن اور نوعمری کے واقعات اس طرح ازبر ہیں جیسے کل کی بات ہو۔لیکن بعض معاملات میں  ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارا  اجتماعی حافظہ انفرادی حافظے کے مقابلے میں کمزور ہو گیا ہو،    خاص طور پر جب ہم   اپنی تاریخ پڑھتے ہیں ۔ میں ایسا کیوں کہہ  رہا ہوں، آئیے اس کےلیے  چند حقائق پر نظرڈالتے  ہیں ۔

یہ تو ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اگست 1947 میں آزاد ہوا لیکن پاکستان کا یومِ آزادی 14 اگست ہے یا 15 اگست ،اس سلسلے میں ہمیں تاریخی حقائق کو دیکھنا پڑے گا  مثلاً  10اگست 1947کے نوائے وقت میں مسلم لیگی قیادت کی جانب سے قوم سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ 15اگست کو قیام پاکستان کے موقع پر چراغاں کریں ، نوافل پڑھیں اور غریبوں کو  کھانا کھلائیں۔13اگست1947کے نوائے وقت میں شائع ہوا کہ سردار شوکت حیات اور ممتاز دولتانہ نے قوم سے اپیل کی  ہے کہ 15اگست کوقیام پاکستان کے موقع پر چراغاں نہ کریں بلکہ صرف نوافل ادا کیے جائیں۔

انڈین انڈی پینڈنس بل جو 4جولائی 1947 کو متعارف کرایا گیا تھا ،18  جولائی 1947 کو شاہِ انگلستان نے انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ کی منظوری دی اس کے مطابق انڈیا سے 15 اگست کو برطانوی اقتدار ختم ہوجائے گا اور دو آزاد مملکتیں انڈیا اور پاکستان کے نام سے وجود میں آجائیں گی۔ 14 اگست کو وائسرائے ماؤنٹ بیٹن کراچی پہنچے اور دستور ساز اسمبلی کے سامنے شاہِ انگلستان کا پیغام پڑھ کر سنایا۔اقتدار کی منتقلی کی اس دستاویز پر دستخط کئے جس کا اطلاق  14 اگست  نصف  شب  بارہ بجے  سے ہونا تھا۔دونوں مملکتوں کو اقتدار شاہ برطانیہ کے انڈیا  میں نمائندے وائسرائے  لارڈ ماؤنٹ بیٹن   نے  منتقل کرنا تھا۔

ایک عذر یہ تراشا جاتا ہے کہ وائسرائے نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کو اقتدار14اگست ہی کو سونپ دیا تھا جب کہ بھارت کو 15کوسونپا گیا۔اس لیے ہم یوم ٓزادی بھارت سے ایک دن پہلے  مناتے ہیں۔یہ بات بھی درست نہیں ہے۔14 اگست کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کراچی میں دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’آج میں آپ سے وائسرائے کی حیثیت سے بات کر رہا ہوں ۔کل کا دن طلوع ہوتے ہی ایک ریاست پاکستان کی زمام کار آپ کے ہاتھوں میں ہو گی۔ اب سے چند گھنٹے بعد پاکستان ایک آزاد ملک کے طور پر وجود میں آ جائے گا۔اسی روز دہلی روانگی سے قبل ماؤنٹ بیٹن نے نئی ریاست کو تاجِ برطانیہ کی نیابت دینے کی دستاویز پر دستخط کیے اور شاہِ انگلستان کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ماؤنٹ بیٹن کی روانگی کے بعد بعض لوگوں نےگورنر جنرل محمد علی جناح کو مشورہ دیا کہ یونین جیک اتار کر پاکستان کا قومی پرچم لہرا دیا جائے۔لیکن جناح صاحب نے اس تجویز کو نامناسب قرار دیا۔نصف شب کو  نئی مملکت کے قیام کا اعلان ہوا ۔تاہم نئی مملکت کے قیام کا جشن  صبح تک مؤخر کردیا گیا۔ اس کے برعکس دِلّی میں نہرو نے جوتشیوں  کے مشورے سے نصف شب سے ذرا پہلے اپنی تقریر شروع کی۔

اگر یہ دلیل موثر ہے کہ 14 اگست کو ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے کراچی میں اقتدار کی منتقلی کی دستاویز پر دستخط ہوتےہی پاکستان وجود میں آگیا  تھا تو پھر کیا وجہ تھی کہ ایک اصول پسند محمد علی جناح نے گورنر جنرل کا حلف ،چیف جسٹس  میاں عبدالرشید سےلینے کے لئے 15  اگست کی صبح تک انتظار کیا۔14 اگست کو حلف اٹھانے میں کیا قانونی و انتظامی رکاوٹ تھی؟ ایک آئین و قانون پسند جناح نے پورے 24 گھنٹے تک ایک نو آزاد ملک کو بغیر حکومت کے کیسے رہنے دیا؟انہوں نے گورنر جنرل کی حیثیت سے اپنی پہلی تقریر میں بھی فرمایا کہ 15 اگست ایک آزاد اور خود مختار پاکستان کی پیدائش کا دن ہے۔آئینی اور قانونی طور پر پاکستان کا قیام جس قانون کے تحت عمل میں آیا ۔۔وہ آزادی ہند کا قانون  یعنی  ,Indian Independence Act -1947میں آج بھی درج ہے کہ 15 اگست 1947ء پاکستان کی پیدائش کا دن تھا۔

14 اگست کی شب گیارہ بجے لاہور ، پشاور اور ڈھاکہ سے آل انڈیا ریڈیو کی نشریات ختم ہوگئیں اور بارہ بجے شب لاہور ریڈیو سٹیشن سے ظہور آزر اور ڈھاکہ ریڈیو سٹیشن سے کلیم اللہ نے انگریزی میں اعلان کیا ’دس از پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس‘ جبکہ پشاور ریڈیو سٹیشن سے یہی اعلان آفتاب احمد بسمل نے اردو میں کیا۔ برطانوی ترانے “God Save the King”پر 15 اگست کو پابندی عائد کر دی گئی۔14 اگست رات گئے تک چونکہ ابھی پاکستان نہیں بنا تھا اس لئے یہ ترانہ بجتا رہا۔

14 اگست کے پاکستان ٹائمز کی نمایاں سرخی تھیIndependence Tomorrow اور 15 اگست 1947کے پاکستان ٹائمز کا اداریہ ان الفاظ کے ساتھ شروع ہوتا ہے   آج 15 اگست ہے۔آج طلوع آفتاب نے جہاں دنیا کو ایک نیا دن دیا ہے وہیں ہمارے لوگوں کو ان کی کھوئی ہوئی آزادی بھی لوٹا دی ہے۔  دل چسپ بات یہ ہے کہ اس اداریے کا  عنوان ہی ”  August 15 “تھا۔

15  اگست کی صبح ہی بانیِ پاکستان سےلاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عبدالرشید نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا حلف لیا اور پھر گورنر جنرل نے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان اور انکی چھ رکنی کابینہ سے حلف لیا اوربانی ء پاکستان نے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کا باضابطہ افتتاح کرتے ہوئے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ میں آپ کو مبارک باد دیتے ہوئے نہایت مسرت محسوس کر رہا ہوں۔ 15اگست پاکستان کی آزاد و خودمختار ریاست کا جنم دن ہے، یہ مسلمان قوم کے تکمیلِ مقصد کا دن ہے، جس نے مادرِ وطن کے قیام کے لئے گذشتہ چند برسوں میں عظیم قربانیاں پیش کیں۔قائد اعظم کا یہ بیان 15اگست کو شائع ہونے والے پاکستان ٹائمز، نوائے وقت ،ڈان سمیت 1947کے کئی اخبارات کے صفحات پر موجود ہے ۔ (بانیِ پاکستان کا یہ خطاب آج بھی قومی آرکائیوز اور یو ٹیوب پر موجود ہے)۔

اسٹینلے والپرٹ معروف محقق ہیں۔خود حکومت پاکستان نے ان سے کہہ کر قائد اعظم پر کتاب لکھوائی۔’جناح آف پاکستان‘ نامی یہ کتاب قائد اعظم پر لکھی گئی معتبر کتابوں میں سے ایک ہے۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان15اگست کو قائم ہوا۔

اسٹینلے والپرٹ ہی کی ایک اور کتاب ہے جس کا نام ہے  ‘‘ “A New History Of India اس کے صفحہ  349 پر وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان 15اگست کو بنا۔

پاکستان کے سابق وزیر اعلیٰ  چودھری محمد علی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب  “Emergence Of Pakistan”جس کا اردو ترجمہ‘ظہور پاکستان’ کے نام سے مارکیٹ میں موجود ہے،  کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ پاکستان 15 اگست کو  معرض وجود میں آیا۔ اس کے علاوہ کتاب کے اردو ترجمے کے صفحہ نمبر 287 پر درج ہے کہ:

15 اگست 1947 ، رمضان المبارک کے آخری جمعہ کا بابرکت اور مقدس دن تھا اس مبارک دن قائد اعظم نے پاکستان کے گورنر جنرل کا منصب سنبھالااور کابینہ نے حلف اٹھایا۔ستارہ و ہلال والا قومی پرچم لہرایا گیا۔پاکستان منصہ شہود پر آگیا۔

وہ مزید لکھتے ہیں ‘‘15 اگست کو قائد اعظم نے اہلِ پاکستان کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ اس عظیم موقع  پر مجھے سب سے زیادہ وہ بہادر مجاہد یاد آرہے ہیں جنھوں نے نصب العین کی خاطر سب کچھ حتیٰ کہ اپنی جانیں بھی خوشی سے قربان کر دیں تاکہ پاکستان کا قیام عمل میں آجا ئے ۔

وکٹوریہ شیفلڈ کی کتاب ہے ‘‘ Kashmir In The Crossfire ’’اس کے صفحہ 132پر وہ لکھتی ہیں کہ پاکستان 15اگست 1947کو معرض وجود میں آیا۔

کےکے عزیز کی کتاب ہے‘‘ Briton and Muslim India’’ اس کے صفحہ 183پر لکھا ہے کہ پاکستان 15 اگست کو وجود میں آیا ۔

عائشہ جلال اور سجاتا پوش کی مشترکہ کتاب  ”Modern South Asia” کے صفحہ 188اور210پر قیام پاکستان کی جو تاریخ درج کی گئی ہے وہ     15 اگست 1947ہے۔

ایس ایم برکی اور سلیم الدین قریشی کی کتاب  “The British Raj in India”کے صفحہ 609 ,622 , 642اور 518پر لکھا ہے کہ پاکستان 15اگست کو معرض وجود میں آیا۔

’’Mountbatten:   The Official  Biographyانڈیا کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے سوانح نگار فلپ زگلر اپنی کتاب  ‘‘

میں بھی پاکستان کی آزادی کے حوالے سے یہی لکھتے ہیں کہ پاکستان کی آزادی کا دن 14اگست نہیں بلکہ 15اگست ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کی ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان نے جناب لیاقت علی خان کی تقاریر کا ایک مجموعہ 1975میں شائع کیا۔ اس کتاب کے صفحہ 117پر لیاقت علی خان کی وہ تقریر درج ہے جو انہوں نے دستور ساز اسمبلی میں قومی پرچم کی تفصیلات بتاتے ہوئے کی۔وہ کہتے ہیں؛’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ 15اگست کو جب پاکستان قائم ہو تو اس کا اپنا قومی پرچم ہی نہ ہو‘‘۔

اس کے صفحہ 115پر لیاقت علی خان کی وہ تقریر ہے جو انہوں نے اس وقت کی جب وہ اسمبلی میں پرچم پیش کر رہے تھے اور قوم کو دکھا رہے تھے کہ یہ اس کا قومی پرچم ہے۔ انہوں نے کہا: ‘‘یہ پرچم پاکستان کا پر چم ہے۔ یہ پاکستانی قوم کا پرچم ہے۔یہ اس ریاست کا پرچم ہے جس نے 15اگست کو معرض وجود میں آنا ہے’’۔

1989کو پاکستان کی وزارتِ اطلاعات کے شعبے فلم اور مطبوعات کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والی کتاب  ”قائدِ اعظم محمد علی جناح تقاریر و بیانات’’ حیثیت گورنر جنرل پاکستان 1947-1948“کے صفحہ نمبر 55پر ”پُر امن بقائے باہمی“(Peace Within, and Peace Without) کے عنوان سے لکھا ہے:”15اگست 1947کو پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کے افتتاح کے موقع پر قوم کے نام نشری پیغام۔

‘‘میں انتہائی مسرت و شادمانی کے ساتھ یہ تہنیت آپ کی نذر کرتا ہوں۔15اگست آزاد اور خود مختار پاکستان کا یومِ آزادی ہے’’۔

لیاقت علی خان نے بھی قوم سے پہلا خطاب 15اگست کو کیا ۔صفحہ 185پر یہ خطاب بھی موجود ہے۔وہ کہتے ہیں؛’’کل جب 14اگست کا سورج غروب ہوا تھا تو پاکستان نام کی کوئی چیز بین الاقوامی سطح پر موجود نہ تھی مگر آج 15اگست سے ہم ایک حقیقت ہیں‘‘۔

چونکہ پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہی بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑ ۱ تھا لہٰذا  جولائی 1948ء میں جب پاکستان نے اپنی پہلی ڈاک ٹکٹ جاری کی تو اس ڈاک ٹکٹ پر بھی ظہور پاکستان کی تاریخ – 15 اگست 1947ءہی درج تھی۔

قانون کی اس کتاب میں ، جس کی دفعہ 302 کے تحت مجرموں کو پھانسی پر لٹکایا جا تا ہے ، آج بھی قیام پاکستان کی تاریخ – 15 اگست 1947ء ہی درج ہے

حکومتِ پاکستان کی شائع شدہ سال1948ء کی چھٹیوں کی فہرست میں یومِ آزادی کی چھٹی کا دن 15 اگست درج ہے ۔۔ پاکستان کی پہلی سالگرہ مشکلات کی وجہ سے یہ سالگرہ عظیم الشان طریقے سے تو نہ منائی جاسکی مگر سرکاری طور پر بہر حال منائی گئی۔15 اگست ۱۹۴۸ءکوچونکہ اتوار (چھٹی)کادن تھا لہٰذا فیصلہ ہوا کہ  آزادی کی  کچھ تقریبات  ۱۴  اگست کے دن کی جائیں گی  (جیساکہ اس دور میں مروج تھا)یاد رہے بابائے قوم اس وقت شدید بیماری کے عالم میں حکومتی معاملات سے لاتعلق ہو چکے تھے ورنہ وہ  ایسا ہرگز  نہیں ہونے دیتے۔

اس سالگرہ کے دو سال بعد یعنی 1950ء میں (Pakistan Panal Code E 1860)تعزیراتِ پاکستان میں ایک ترمیم کے ذریعے 123-شق،-Aکا اضافہ کیا گیا۔اس دفعہ کے مطابق پاکستان 15اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیا اور قیام پاکستان کے خلاف  پروپیگنڈا کرنے کی سزادس سال قید رکھی گئی۔

1950 میں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر تعلقات عامہ ن م راشد نے  ‘‘تھری ایئرز آف ریڈیو پاکستان’’ کے نام سے جو کارکردگی نامہ شائع کیا  اس کے مطابق اعلانِ پاکستان14 اور 15 اگست کی درمیانی شب ہوا۔ لیکن جب اسی ریڈیو پاکستان نے اپنے ہی رسالے آہنگ کا گولڈن جوبلی نمبر شائع کیا تو اس میں(غلط طور پر)  لکھا گیا کہ اعلانِ پاکستان13 اور14 اگست کی درمیانی شب کیا گیا۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ریڈیو سے پاکستان کے قیام کا اعلان 14 اور15  اگست کی درمیانی رات کو اس وقت کیا گیا ۔جب کیلنڈر پر15 شروع ہو چکا تھا۔1997میں جب آزادی کے 50سال کا جشن منایا گیاتو ایک جعلی ٹیپ تیار کی گئی جس میں ایک جعلی اعلان سنایا گیا اور ظاہر کیا گیا کہ یہ اعلان13اور14اگست 1947کی درمیانی رات کا ہے۔ یقین نہ آئے تو ریڈیو پاکستان کا ریکارڈ جا کر دیکھ لیجیے۔حقیقت واضح ہو جائے گی۔

پاکستان کا یومِ آزادی 15سے14اگست قائدِ اعظم کی وفات کے بعد ہوا۔پاکستان کے ایک سابق وزیرِ اعظم چوہدری محمد علی اپنی یادداشتوں میں یومِ آزادی 15اگست کو قرار دیتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم محمد علی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایسا نجومیوں کے کہنے پر کیا گیا کیونکہ نجومیوں نے لیاقت علی خان کو بتایا کہ 15اگست منحوس دن ہے۔کہا جاتا ہے کہ جون 1948 میں وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی صدارت میں کابینہ نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کا یومِ آزادی 14 اگست ہی تصور ہوگا۔تو کیا گورنر جنرل محمد علی جناح نے اس فیصلے کی توثیق کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی کے پاس کابینہ کے اس فیصلے کا گزٹ ریکارڈ موجود ہے؟

رہی  ہماری اور ہمارے بزرگوں کے بات حافظے کی تو یہ بات تو سب کو یاد ہے نا کہ  پاکستان جب قائم ہوا تو رمضان  کی ستائیسویں شب اورجمعہ الوداع کا دن تھا  ۔اس وقت 1947کا نوائے وقت،ڈان،پاکستان ٹائمز سمیت کئی اخبارات میرے سامنے رکھے ہیں اور ان کی پیشانی پر چھپی تاریخ کے مطابق 14اگست کو 26رمضان المبارک تھااور جمعرات کا دن تھا۔27رمضان اور جمعہ الوداع  15اگست کے دن تھا۔گویا پاکستان 14کو نہیں 15اگست کو قائم ہوا۔اگر  حافظے کا پہلا بیان  صحیح  ہے  تو ۱۴ اگست جھوٹ ہے اوراگر ۱۴,ا گست کو یوم آزادی مانتے ہیں  تو پھر تو رمضان  کی ستائیسویں شب اورجمعۃ  الوداع کا دن جھوٹ ہے کیونکہ کیلنڈر تو جھو ٹ بول نہیں سکتا۔اب فیصلہ  صرف یہ کرنا ہے کہ دو نوں میں سے کون سا جھوٹ صحیح کر یں؟ ؟

میرے یہ مضمون لکھنے  کے باوجود  بھی  کچھ حجتی لوگ  اس حقیقت کو نہیں  مانیں گے  اور نہ  ہی اب حکومت پاکستان اسے سرکاری طور پر ۱۴ اگست کو منانا  چھوڑے گی  حالا نکہ اپنا یوم آزادی ۱۵ اگست کی  بجائے ۱۴ اگست کو قرار دینے سے نہ  صرف ہم اپنے یوم آزادی کی تاریخ بدلنے کے مجرم ٹھہر تے ہیں بلکہ رمضان  کی ستائیسویں شب اورجمعۃالوداع کے اعزاز سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔

ہم یہ تو  طے کر سکتے ہیں کہ ہم نے یہ آزادی کی خوشی کس دن منانی ہے کیونکہ یہ ہمارا اپنا فیصلہ ہے مگر۔۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان بنا ہی 14کو تھا۔ہم تاریخ نہیں بدل سکتے۔یہ جرم ہے۔اس جرم سے بچنے کے لئے  ، میں وہ توجیح بیان کرنا چاہتا ہوں جس  نے مجھے  یہ مضمون لکھنے پر مجبور کیا  جسے اگر مان لیا جائے تو  اس سے دونوں طرف کے ناقد بھی  مطمئن ہوجائیں گےاور کسی کو بھی  جھوٹ صحیح کرنے یا اپنا حافظہ درست کرنے کے ضرورت بھی نہیں رہے گی ،   تاریخ بھی درست ہو جائے  گی اور  ہمارا یوم آزادی  14اگست کو منانے پر کسی کو اعتراض  بھی نہیں ہو گا ۔

 اس حساب سے  یوم آزادی  14اگست کو منانے کی ایک   بودی اور کمزور سی دلیل یوں دی جا سکتی ہے کہ  ‘‘اگرچہ  انگریزی تاریخ کے حساب سے پاکستان 15اگست کو ہی آزاد ہوا تھا  مگر  ہم اپنا  یوم آزادی  14اگست کو اس لئے مناتے ہیں کہ  اسلامی  دن چونکہ  مغرب کے بعد شروع ہو جاتاہے  ۔ اس لئے    15اگست اگرچہ  رات بارہ بجے کے بعد شروع ہوئی  لیکن اس سے پہلے ہمارا اسلامی دن یعنی رمضان  کی ستائیسویں  تاریخ  14اگست کی غروب مغرب کے بعد ہی شروع ہوچکا تھا  ۔  یوں  اس اسلامی دن کے لحاظ سے  ہمارا یوم آزادی  14اگست ہی بنتا ہے۔

(نوٹ : اس طرح رمضان  کی ستائیسویں شب کا اعزاز  تو مل جائے گا ، بس  جمعۃالوداع کے اعزاز سے بھی محروم ہوجائیں گے۔)

(یوں تو اسلامی لحاظ سے تو  اسے 27 رمضان  المبارک کو ہی منانا چاہیے مگر یہ پھر ایک نئی بحث شروع ہو جائے گی۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

References

( اس مضمون کو لکھنے میں   بی بی سی اردو،   وسعت اللہ خان اور آصف محمود صاحب  اور دوسرے  مضامین سے استفادہ کیا گیا ۔)

کتاب : تاریخ پاکستان کے متنازع  پہلو

https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2011/08/110814_baat_independence_a?ocid=wsurdu.chat-apps.in-app-msg.whatsapp.trial.link1_.auin

https://www.bbc.com/urdu/miscellaneous/story/2007/08/printable/070814_patition_wusat_sq.shtml

Advertisements
julia rana solicitors

https://dailypakistan.pk/asif-mahmood-14-august-or-15-august/

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply