• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا لبرٹی چوک تحریر سکوائر بن سکتا ہے؟؟؟۔۔عاطف جاوید

کیا لبرٹی چوک تحریر سکوائر بن سکتا ہے؟؟؟۔۔عاطف جاوید

مارکسزم پڑھنا شروع کیا تو سب سے دلچسپ چیز جو اس موضوع میں ملی وہ جدلیات ہے ۔ جِسے انگریزی میں ڈائلیکٹکس کہا جاتا ہے ۔ جدلیات انسان کو ضدین کے ٹکراؤ کی ممکنہ حدود کو سامنے رکھ کر ایک تیسرا تجزیہ نکالنے کے قابل بناتی ہے ۔

اسی جدلیاتی اصول کے تحت طبقاتی جدو جہد نے اپنے 2013 کے پاکستان تناظر ڈاکیومنٹ میں واضح الفاظ میں لکھا تھا کہ “پاکستان آرمی کوئی  بھی براہ راست جبر کرنے و مارشل لاء  لگانے کی حیثیت کھو چکی ہے”۔

اس کی وجہ پاکستان آرمی کے درمیان مالیاتی سرمائے کی تقسیم کو لے کر بندر بانٹ کی لڑائی،، چپقلش ،عداوت اور کرپشن ہے ۔ آرمی اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہے اور اس قدر بدنام حالت میں وہ کبھی بھی براہ راست حکمرانی کرنے کا رسک نہیں  لے سکتی  ۔

اس کی ایک اور بڑی وجہ آصف زرداری کے دور میں امریکی کانگریس میں پاس ہونے والا کیری لوگر بل بھی ہے جس کے تحت اگر پاکستان میں مارشل لا ء لگا تو امریکہ و یورپی یونین پاکستان کو کوئی  مالی یا دفاعی امداد فراہم نہیں کریں گے  ۔

ایسے میں فوج کو اپنی پالیسی بدلنا پڑی اور براہ راست حکومت کی بجائے اس نے ہائبرڈ قسم کی مصنوعی حکومتوں کی انجینئرنگ شروع کی ۔
اسٹبلشمنٹ ن لیگ و پیپلزپارٹی کے دھڑوں سے جان چھڑانا چاہتی تھی ۔ نواز شریف مائنس پالیسی اپلائی کرنا چاہتی تھی اور کوئی  ایسا امیدوار تلاش کر رہی تھی جو اس خواب کو تعبیر دے ۔

قابل ترین امید وار دو قرار پائے۔ ایک طاہر القادری اور دوسرا عمران خان ۔

پیپلزپارٹی کے دور میں طاہر القادری کو پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر لانچ کیا گیا اور پارلیمنٹ کو گالیاں دلوائی  گئیں اور یوسف رضا گیلانی کو نا اہل کروایا گیا۔
پر طاہر القادری کا مذہبی چہرہ اور اثر و رسوخ کچھ بیرونی طاقتوں کو ہضم نہیں  ہوا۔ لہذا کوئی  ماڈرن چہرہ چاہیے تھا ۔
اس کے لیے سب سے بہتر امید وار عمران خان تھے  ۔

جو کچھ وہ بائیس سالہ سیاست میں حاصل نہ کر سکے اسٹبلشمنٹ نے ان کے قدموں میں رکھ دیا ۔ اور پھر سب نے دیکھا جو ہوا ۔پارلیمنٹ کے باہر شلواریں تک ٹانگ دی گئیں  ۔ یہ سخت میسج تھا، ن لیگ حکومت کو اور باقی سیاسی پارٹیوں کو کہ اگر ہم سے پنگا لیا تو ہم پارلیمنٹ کے سو کالڈ تقدس کا یہ حال کریں گے ۔ باقی سب کہانی اس کے بعد کی سب کو پتہ ہے ۔ بہر حال عمران خان کی کامیاب لانچنگ کے بعد وزیر اعظم بننے تک سفر اسٹبلشمنٹ کے کندھوں پر پاؤں رکھ کر طے ہوا۔

کیا عمران خان واقعی بے ایمان تھا ؟؟

اس سے بھی پہلے سوال یہ بنتا ہے کہ کیا وہ بیوقوف تھا یا نہیں ۔ اور اس کا جواب ہے” ہاں” ۔۔ وہ شدید بے وقوفی اور خود پسندی کی وجہ سے اپنے ارد گرد اسٹبلشمنٹ کے پئے رول پر کام کرنے والی سیاسی طاقتوں کو جمع کرتا گیا اور اپنے تئیں یہ سوچتا رہا کہ میں اکیلا سو پر بھاری ہوں ۔میرا ایماندار کہلوانا ہی کافی ہے، قوم کو سنبھالنے کے لیے۔ ۔۔ عمران خان کو لگا وہ جب چاہے اپنی اکثریت بنا کر من مرضی کی پالیسیاں رائج کر سکتا ہے  ۔ تاہم اسی دوران اس سےسنگین جرم سر زد ہوئے ۔اور ان میں سب سے بڑا جرم یہی تھا کہ اس کو لگنے لگ گیا کہ میں بھی وزیر اعظم ہوں اپنی مرضی کے فیصلے کر سکتا ہوں۔۔ یاد رہے یہ وہی غلط فہمی ہے جو نواز شریف کو بھی لاحق ہوئی  تھی، جس وجہ سے اس کے مخالف عمران خان کو لانچ کیا گیا ۔

اسٹبلشمنٹ کے اندرونی دھڑوں نے جب یہ بھانپ لیا تو پارلیمنٹ میں بیٹھے اپنے بندوں کو اشارہ دے دیا کہ عمران کو چھوڑ دو اور وہ دھڑا دھڑ عمران کو چھوڑنے لگے ۔ یاد رہے یہ وہی لوگ ہیں جن کو عمران خان نے اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر گلے لگا لگا کر تحریک انصاف میں جگہ دی اور تحریک انصاف کے اصل ورکرز کو سائڈ لائن کرتا رہا ۔  جب یہ لوگ اپنے مالک کے حکم پر پارلیمنٹ کی بنچوں سے اٹھے تو عمران خان کو پہلی بار احساس ہوا کہ میرے پاؤں تلے اب ریت ہی ریت ہے  ۔ ایسے میں ان کو یہ بیانیہ لازمی چاہیے تھا جس پر وہ مزید سیاست کر سکیں اور انہوں نے خود مختاری کا راگ الاپنا شروع کر دیا جو اس جذباتی قوم کی دکھتی رگ ہے ۔

عمران خان کے جرم کیا ہیں ۔ 

عمران خان کا سب سے بڑا جرم نرگسیت اور خود پسندی اور اوور کا نفیڈنس ہے ۔ دوسرا بڑا جرم پارٹی کےسیاسی لیڈرز کے انتخاب میں میرٹ کا قتل اور دنیا جہان کے لوٹوں کو عہدوں پر بٹھانا ہے  ۔ تیسرا بڑا جرم حکومتی معاملات سے عدم دلچسپی اور لوگوں کو ریلیف دینے کی بجائے اسلامو فوبیا کا چورن بیچنا   اور نان ریلیونٹ ایشوز پر سیاست کرنا ہے ۔  اس کے بعد کرپشن پر کوئی  ایکشن نہ لینا اور اپنے پارٹی میں شامل ہونے والے غنڈوں پر سات خون معاف کردینے کی پالیسی ہے ۔

کیا عمران خان کو تباہ حال پاکستان ملا تھا ؟

جی نہیں ۔ ۔۔ پاکستان کی حالت جو اب ہے اگر اعدادو شمار دیکھے جائیں تو پہلے سے بہت بد تر ہے ۔پاکستان عمران خان کے وزیر اعظم بنتے وقت اپنے پاؤں پر چلنے کے قابل ضرور تھا ۔ عمران حکومت میں آٹھ سو ارب کی نیب ریکوری ۔پانچ سو ملین ڈالر کورونا فنڈ میں امداد ۔ بقول پی ٹی آئی  کے ور کرز کے ایک اعشاریہ اسّی بلین ڈالر کے ریزرو جو اوور سیز پاکستانیوں نے عمران کے کہنے پر پاکستان میں رکھوائے سعودی عرب سے مشکل شرائط پر اربوں ڈالر کا قرضہ لینا اور اس کے علاوہ بیشمار ٹیکسز کے تھرو ریکارڈ پیسہ اکٹھا ہوا۔ اور اس کے باجود بھی عمران خان بارہ ارب اسّی کروڑ یومیہ ۔جی یومیہ ۔(کل سترہ ہزار ارب ) کا قرض لے کر پورے ملک کو سٹیٹ بینک سمیت آئی  ایم ایف کو بیچ گیا ۔۔۔ اور اپنی کرسی جاتی دیکھ کر پورا ملک بیچ دینے کے باوجود بھی خودداری کا شور ڈالنے لگا ۔

کیا یوتھیاز کے جذبات جھوٹے ہیں ؟

بالکل نہیں ۔۔۔ موجودہ حالت میں جو لوگ چاہے جتنے بھی ہوں وہ اپنے سچے جذبات کے ساتھ عمران خان کے لیے باہر نکلے ہیں ۔ مگر وہ سیاسی طور پر جاہل ، معروضی حالات سے نابلد، اپنی کوتاہیوں کو ماننے سے انکاری ایک مڈل کلاس کا ہجوم ہے جنہوں نے پہلے بار ملکی سیاست میں عملی قدم رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ پر متذکرہ بالا اعدادو شمار و جرائم سے پر ان کو کوئی  شرمندگی نہیں، نہ اس سے ان کا کوئی  لینا دینا ہے ۔ ان کا مطمع نظر صرف اورصرف باجوہ کا استعفی اور اپنے من پسند آرمی چیف کو پاور دلانا ہے جو عمران خان کو دوبارہ لاڈلے اکلوتے بیٹے کی طرح پالے اور اس کے ہر جرم پر پردہ ڈالے رکھے  ۔ پر ان کو یہ سمجھ ہونی چاہیے حکومتیں اور ملک جذبات اور نعروں سے نہیں، حکمت ِعملی ،مکمل معاشی پالیسی سے چلتے ہیں ۔

کیا یہ کوئی  انقلابی تحریک ہے؟

کسی بھی تحریک میں عام عوام صدق دل سے اپنے لیڈران کے بیانیے پر تن من  کی بازی لگاتے ہیں ۔ چاہے لیفٹ کی پارٹی ہو یا رائٹ کی ۔ ورکر جذبات میں سچا ہوتا ہے پر جیسا کہ اوپر کہا بس جذبات کافی نہیں  ۔ یہ ایک غیر سیاسی غیر نظریاتی ہجوم ہے جن کے بنیادی مطالبات جمہوریت ،سوشل سکیورٹی، بے روزگاری کا خاتمہ، انتہا پسندی کا خاتمہ، مہنگائی  کا خاتمہ، غریب عوام کی فلاح و بہبود نہیں  ہے   ۔
اور جب تک کوئی  بھی تحریک لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے کو بنیادی منشور بنا کر میدان عمل میں نہیں اترتی وہ انقلابی تحریک کے علاوہ کچھ بھی ہو سکتی ہے پر انقلاب نہیں  لا  سکتی ۔  لہذا یہ جذبات کا بلبلہ جلد پھٹنے والا ہے اور سب جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا ۔۔۔عمران خان اور اس کے گرد ساتا وزیری مشیری ٹولہ خود بھی نہیں  چاہتا کہ یہ معاملہ لمبا چلے کیوں کہ یہ چیز کسی طور اس ملک میں  اشرافیہ و اسٹبلشمنٹ کے حق میں نہیں۔۔۔ اور عمران خان کا کوئی  ارادہ نہیں  بھٹو کی طرح پھانسی پر جھولنے کا۔

مندرجہ بالا حقائق کو اپنے فہم کے مطابق سمجھ کر جو میں نتیجہ نکالتا ہوں کہ اس وقت کراؤڈ چاہے جتنا بھی چارج ہو اور اخلاص چاہے جتنا اونچا ہو، خود عمران خان سمیت پی ٹی آئی  کی پوری قیادت ان نعروں کے خوف سے اندر دبکی بیٹھی ہے ۔
یہ بات الگ کہ اس وقت جو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ان کا اپنا بویا ہوا ہے پر ان نام نہاد لیڈران میں وہ طاقت نہیں  کہ اس عوامی ریلے کو انقلاب میں بدل سکیں نہ یہ کوئی  انقلاب ہے۔
ہمارے لبرل و سیکولر دوست دودھڑوں میں بٹے ہیں جن میں سے ایک کو ہیرو شہبازشریف باجوہ و پیپلز پارٹی لگ رہی ہے دوسرے کو عمران خان ہیرو لگ رہا ہے ۔
یہ دھڑے ہر دو طرف سے ویسے ہی مایوس ہوں گے جیسے یہ عمران خان سے مایوس ہوئے تھے  ۔

کیا کوئی  حل ہے ؟

جی ہاں ۔۔۔ حل ہے پر وہ جلد بازی و خودغرضی کی نفسیات سے کہیں دور پرے کی شئے ہے ۔

حتمی تجزیے میں پاکستان کے محنت کشوں کو عام لوگوں کو مزدوروں کسانوں مرد و خواتین کو اپنی آزادی خود مختاری اور بقا کی جنگ طبقاتی بنیادوں پر خود لڑنی ہوگی ۔ اس ملک کی ایک بھی سیاسی پارٹی و سیاست دان و لیڈر و جج و عسکری قیادت عوامی فلاح کے لیے ایک قدم اٹھانے کو تیار نہیں  اور نہ وہ پاکستان کو ایک خود ار یا خود مختار ریاست بنانا چاہتے ہیں چاہے عمران خان ہی کیوں نہ ہو ۔

Advertisements
julia rana solicitors

سرمائے کی لڑائی  میں طاقت کا حصول اپنے حصے کی وصولی کے لیے کیا جاتا ہے نہ کہ لوگوں کی بھلائی  کے لیے ۔۔۔۔ یہی پاکستانی پاور پالیٹکس کا خاصہ ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply