• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مفاہمت براستہ مزاحمت سے شہباز شریف کا راستہ ہموار۔۔ارشد بٹ

مفاہمت براستہ مزاحمت سے شہباز شریف کا راستہ ہموار۔۔ارشد بٹ

پنجاب میں زرداری سب پر بھاری کا نعرہ غلط ثابت ہو گیا۔ میاں نواز شریف کی حکمتِ  عملی نے پی پی پی کی پنجاب میں متوقع  پیش رفت کی راہیں مسدود کر دیں، مگر شہباز شریف کے ذریعے آصف زرداری کی مفاہمتی سیاست کو گلے لگا لیا۔ میاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ملی بھگت سے آصف زرداری کو سیاسی دھوبی پٹخا لگا کر پی ڈی ایم کے میدان میں چاروں شانے چت کردیا۔ میاں نواز شریف نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کے ذریعے پیپلز پارٹی اور بلاول کے پنجاب کی سیاست میں بڑھتے ہوئے متوقع اثر و نفوذ اور عمل دخل کو فی الوقت روک دیا ہے۔ اسٹبلشمنٹ کے ہتھکنڈوں سے بخوبی آگاہ دور اندیش میاں نواز شریف کی دور بین نظروں نے بھانپ لیا ہو گا کہ پی ٹی آئی حکومت گرنے کے بعد اسٹبلشمنٹ پنجاب پر ن لیگ کی اجارہ داری برداشت نہیں کرے گی۔ پی ٹی آئی پنجاب میں گروہ بندی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے۔ عمران خان وزارت عظمیٰ پر براجمان ہونے کے باوجود حکمران جماعت پر گرفت کھوتے جارہے ہیں۔ اس صورت حال میں پنجاب میں پی ٹی آئی کے خلا کو پی پی پی سے پُر کرنے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں اور اس معاملہ میں اسٹبلشمنٹ در پردہ پی پی پی کی مدد بھی کر سکتی ہے۔ مگر میاں نواز شریف کی حکمت عملی سے پی پی پی کی سرگرمیاں سندھ تک محدود ہو چکی ہیں۔ لندن سے عسکری قیادت کے خلاف گرما گرم بیانات داغ کر اور مریم نواز کی مدد سے میاں نواز شریف نے پنجاب میں مقبولیت میں اضافہ اور سیاست پر اپنی اور پارٹی کی گرفت مضبوط کر لی ہے۔

ہا ئبر ڈ عمرانی سرکار کی پے  در پے  ناکامیوں، نا اہلیوں، ناکارہ کارکردگی، معاشی بد حالی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کی پشت پناہی سے معرض وجود میں آنے والا موجودہ ہائبر ڈ سیاسی بندوبست اسٹبلشمنٹ کی تمامتر جائز و ناجائز کاوشوں کے باوجود ناکامیوں اور شکست و ریخت سے دوچار ہے۔ اس سیاسی بندوبست کا مزید اسی ڈگر پر چلتے رہنا ملک اور عوام کو نا قابل تلافی خطرات اور مشکلات سے دوچار کر سکتا ہے۔ موجودہ اندرونی اور بیرونی صورت حالات کے جبر کے سامنے اسٹبلشمنٹ کی بے بسی دیدنی ہے۔ اپنے ہاتھوں سے تراشتے سیاسی بندوبست کو اسٹبلشمنٹ مزید سہارا دینے کو تیار نظر نہیں آتی۔ اس لئے عمرانی سرکار کے سیاسی انتقام کا شکار اپوزیشن سیاسی جماعتوں سے تعلقات کی نوعیت بدلنے کے علاوہ ا سٹبلشمنٹ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا۔

میاں نواز شریف نے بڑی چابک دستی سے پنجاب میں پی ڈی ا یم کے پلیٹ فارم سے پی پی پی کی متوقع  سیاسی پیش رفت کے آگے بند باندھ دیا مگر وہ آصف زرداری کے طرز سیاست کو شہباز شریف کے ذریعے اپنانے پر آمادہ ہوتے نظر آتے ہیں۔ اب پی ڈی ایم نہ لانگ مارچ کی بات کرتی ہے اور نہ ہی منتخب اداروں سے مستعفیٰ ہونے کا پروگرام اس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ احتجاجی جلوسوں، جلسوں، دھرنوں، روڈ بلاک، عام ہڑتال، پہیہ جام اورشٹر ڈاؤن جیسی مزاحمتی تحریک کے ذریعے عمران حکومت کو گھر بھیجنے کے منصوبوں کی بازگشت دور دور تک سنائی نہیں دیتی۔ نواز شریف کی مزاحمت محض عسکری قیادت کے خلاف کھلی عام تنقیداور مزاحمتی بیانئے تک محدود رہی۔ جس کے ذریعے میاں نواز شریف اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ کی تاریخ اور طبقاتی ساخت کے پیش نظر ، اس سے سڑکوں پر عملی مزاحمت یا ایک طویل مزاحمتی تحریک کی توقع کرنا درست نہیں ہو گا۔

اب نواز شریف کی نگرانی میں شہباز اور زرداری کی مفاہمتی سیاست آپس میں گلے ملنے کو بے قرار ہے۔ شہباز شریف نے پی پی پی کے ساتھ سیاسی تعاون کے تمام آپشن کھلے رکھے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت کو گھر بھیجنا پی پی پی کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔ شہباز شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حمزہ شہباز نے بھی پی پی پی سے مفاہمت اور سیاسی تعاون کا اعادہ کیا ہے۔ قید و بند کی سختیاں برداشت کرنے کے بعد حمزہ شہباز پنجاب میں عثمان بزدار حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے گرا کر وزیر اعلیٰ کے منصب پر براجمان ہونے کو بے چین ہیں۔ پی ٹی آئی میں کھلی بغاوت نے بزدار حکومت کے خاتمے کا کا م بہت آسان کر دیا ہے۔ اب پی ڈی ایم آصف زرداری کی حکمت عملی پر چلتے ہوئے نہ صرف پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لانے کی حمایت  کرتی نظر آئیگی بلکہ شہباز شریف کی قیادت میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تیاریوں میں بھی بڑھ چڑھ کردار ادا کرے گی۔ پی ڈی ایم کی سیاست کا رخ استعفوں سے ہٹ کر پارلیمانی سیاست کی طرف مڑ چکا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نواز شریف کے مزاحمتی بیانئے نے سیاسی دباؤ  بڑھا کر شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز کے مزاحمتی سیاسی دباؤ کے بل بوتے پر شہباز شریف اسٹبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طےکرنے کی بہتر پوزیشن میں ہیں۔ مریم نواز کے فارمولے یعنی مفاہمت براستہ مزاحمت کے استعمال کا وقت قریب آتا جارہا ہے۔ شہباز شریف نے رہائی کے بعد پارٹی کی کمان سنبھال لی ہے اور مفاہمانہ ڈائیلاگ سے سیاسی فصل کاٹنے کے لئے متحرک ہو چکے ہیں۔ حمزہ شہباز بھی پنجاب کی سیاست میں موثر کردار ادا کرنے کے لئےسر گرم ہو چکے ہیں۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے پارٹی معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کے بعد میاں نواز شریف کا عسکری قیادت پر حملوں سے گریز اور مریم نواز کی محتاط بیان بازی کو شریف خاندان کی سوچی سمجھی سیاسی حکمت عملی کا حصہ کہنا مناسب ہو گا۔ سیاسی کشمکش اور اسٹبلشمنٹ سے تناؤ کے نتیجہ میں معاملات اپنے منطقی انجام کی طرف بڑی تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ حالات کے ستائے اور تھکے ماندے سیاسی اونٹ کو کسی کروٹ بٹھائے بغیر نہ ملک میں سیاسی استحکام ممکن ہے اور نہ ہی اسٹبلشمنٹ کے خلاف عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنا ممکن ہے۔ بہت ممکن ہے کہ شریف برادران مزاحمت کے راستے مفاہمت کے مقام پر پہنچ کر “وسیع تر قومی مفاد میں”نئی مفاہمانہ حکمت عملی کا اعلان کر دیں ۔ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو پی پی پی اور پی ڈی ایم کی جماعتوں میں ظاہری اختلافات کے باوجود، بجٹ کے موقعہ پر یا بعد از بجٹ بڑی تیزی سے ملکی سیاسی حالات بدلنے کے روشن امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply