سدھارتھ از ہرمن ہیس/احسن رسول ہاشمی

ہرمن ہیس ایک جرمن نژاد سوئس شاعر، ناول نگار اور مصور تھا۔ ہرمن ہیس کی نظمیں اور تنقیدی مضامین دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ان کے مضامین ، سفر ناموں اور کتابوں کا پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے لیکن جو مقبولیت سن ۱۹۲۲ء میں شائع ہونے والے ناول “سدھارتھ” کو حاصل ہوئی وہ کسی اور تحریر کو نہ مل سکی۔

Advertisements
julia rana solicitors

 

 

 

اس ناول کا شمار دنیائے ادب کے چند عظیم ناولوں میں ہوتا ہے۔اس ناول کے عنوان سے تاثر ملتا ہے کہ شائد یہ کپل وستو کے گوتم بدھا کی داستان ہے لیکن ہرمن نے بڑی خوبصورتی سے سدھارتھ کے کردار میں اپنی جدوجہد اور خود شناسی کے سفر کو بیان کیا ہے۔ سو اس ناول کے متعلق گفتگو سے قبل ان محرکات کو بیان کرنا چاہوں گا جس کے باعث ہرمن ہیس نے یہ شاہکار تخلیق کیا۔
ہرمن جرمنی کے ایک راسخ العقیدہ مسیحی گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کے والد ایک مشنری تھے اور وہ بطور مشنری ہندوستان میں بھی رہے ۔ ہرمن ہیس کے نانا بھی ہندوستان میں ایک طویل مدت تک بطور مشنری رہے، وہ کئی زبانوں کے سکالر تھے۔ ہندوستان میں قیام کے دوران انھوں نے ملیالم گرامر اور لغت تیار کی۔ ہرمن کی پہلی درسگاہ اس کے نانا کی لائبریری تھی جہاں اس نے مختلف زبانوں میں بے شمار کتابوں کا مطالعہ کیا اور اس میں ایک لکھاری بننے کی خواہش بیدار ہوئی۔ ہرمن کے والدین لوتھرانزم کے پیروکار تھے اور چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا ایک پادری اور مشنری بنے۔ اسے مدرسے میں داخل کروایا گیا لیکن ہرمن ہیس کا من تو فلسفہ و تشکک میں لگتا تھا۔ محض بارہ سال کی عمر میں اس نے شاعر بننے کا فیصلہ کیا اور سکول سے فرار ہو گیا۔ یہ دور ہرمن ہیس کیلئے نہایت مشکل تھا، اس نے فیکٹری میں مکینک کا کام کیا۔ معاشی و نفسیاتی مسائل اس قدر بڑھ گئے کہ کئی بار اس نے خودکشی کی کوشش کی۔ طویل مدت تک اندرونی و بیرونی جدوجہد کے بعد اس نے کتب فروشی کا پیشہ اختیار کیا، نوے کی دہائی میں اس نے روشن خیال مصنفین کی مجلس میں شمولیت اختیار کی۔ اس دوران ہرمن نے شاعری کا آغاز کیا اور ۱۸۹۹ میں اپنی نظموں کا پہلا مجموعہ شائع کیا۔
ہرمن ہیس کا پہلا ناول “پیٹر کیمینزنڈ” ۱۹۰۴ء کو منظرعام پر آیا، یہ ناول ایک ناکام شاعر اور متحرک نوجوان کی کہانی ہے۔ یہ کردار ہرمن سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ اسکی دیگر تحاریر میں یہی عنصر نمایاں ہے۔ اس کی تحاریر میں کہیں فطرت پرستی ہے تو کہیں فرائڈ کا نظریہ تحلیل نفسی ، گو ہر تحریر اس کی زندگی کی عکاس ہے۔ جنگ نے ہرمن کو مزید متحرک کیا، وہ ایک امن پسند اور جنگ مخالف مصنف کے طور پر سامنے آیا۔ ہرمن ہیس نے جرمن جنگی قیدیوں کے متعلق آواز اٹھائی اور بہت سے لوگوں کو پناہ دی۔ اس نے جنگ کی مخالفت کی تو دائیں بازو کے ہم عصر لکھاریوں نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس سب کا اثر ہرمن کی نجی زندگی پر بھی پڑا، کام کے باعث اس کی ازدواجی زندگی مسائل کا شکار رہی اور آخر کار اس کی پہلی شادی ٹوٹ گئی۔ اس کی ازدواجی زندگی بعد میں بھی انھی مسائل کا شکار رہی۔
اس وقت ہرمن مکمل بھکر چکا تھا اور اس نے شہری زندگی کو چھوڑ کر دیہات میں سکونت اختیار کر لی۔ اکثر ندی کنارے بیٹھا غور وفکر کرتا رہتا،وہ اپنا بیشتر وقت فلسفہ اور مشرقی تہذیبوں کے مطالعہ میں گزارتا۔ اس شوق نے کچھ ایسا کام کیا کہ اس نے ہندوستان کا سفر کیا، اپنے قیام کے دوران اس نے فلسفہ و مذہب کا مطالعہ کیا اور پھر وطن واپس لوٹ آیا۔ اس سفر نے ہرمن کو ” سدھارتھ ” ناول لکھنے کی تحریک عطا کی۔اس ناول کا ہر باب حکمت سے بھرپور ہے، ناول کا مطالعہ کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ سدھارتھ کے کردار میں ہرمن ہیس نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز بیان کیا ہے۔
پلاٹ و بنیادی خیال:
یہ ناول گوتم بدھا کے زمانے کے ایک نو عمر لڑکے “سدھارتھ ” کی کہانی ہے، جو سچائی اور دانائی کی تلاش میں تشکیک کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ہر شخص کی خواہش ہے کہ سدھارتھ اپنے والد کی طرح ایک کامیاب برہمن بنے ، وہ اس کیلئے مذہبی تعلیم حاصل کرتا ہے اور تمام رسومات ادا کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کا من اس سب میں نہیں لگتا، وہ ہر لمحہ بے قرار و متجسس رہتا ہے۔
ایک دن شہر سے سادھوؤں کا گروہ گزرتا ہے ، سدھارتھ انھیں دیکھ کر متاثر ہوتا ہے اور اسی لمحے سادھو بننے کا فیصلہ کرتا ہے۔ وہ زندگی کی سچائی کو دریافت کرنے کیلئے کئیں سال ریاضت کرتا ہے، متعدد شہروں اور قصبوں کا دورہ کرتا ہے اور سیکھتا ہے کہ خود کو زندگی کے روایتی پھندوں سے کیسے آزاد کیا جائے لیکن اس سب سے بھی سدھارتھ مطمئن نہیں ہوتا اور سنیاس کا راستہ چھوڑ کر اپنے دوست گووند کے ہمراہ کائناتی حقیقت کی تلاش میں نکلتا ہے۔ گاؤں میں وہ بدھا سے ملتا ہے اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہوتا ہے لیکن سدھارتھ اب جان چکا ہے کہ خود آگہی کا راستہ پیروی میں نہیں بلکہ خود تلاش کرنے میں ہے۔
سدھارتھ وہاں سے نکلنے کے بعد بھٹکتا رہتا ہے اور اسی دوران اس کی ملاقات ایک مانجھی سے ہوتی ہے وہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ ایک کٹیا میں رہنا والا اپنی سادہ زندگی سے پوری طرح مطمئن ہے۔وہ مانجھی سدھارتھ کو دریا پار کرواتا ہے اور سدھارتھ شہر کی جانب روانہ ہو جاتا ہے۔ وہاں اسکی ملاقات کملا نامی خوبصورت عورت سے ہوتی ہے اور وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے لیکن کملا شرط عائد کرتی ہے کہ اس کی قربت حاصل کرنے کیلئے سوداگر بننا پڑے گا۔ سدھارتھ کو جلد ہی کام سوامی نامی تاجر کے ہاں ملازمت ملتی ہے اور وہ کاروباری معاملات سیکھنا شروع کر دیتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی کاروباری ذہانت بڑھتی جاتی ہے۔ جلد ہی وہ ایک کامیاب تاجر بن جاتا ہے اور اس مادی زندگی سے لطف اندوز ہوتا ہے، تاہم وہ اب بھی مطمئن نہیں ہے۔ وہ جوئے ، شراب نوشی اور جنسی تعلقات میں مشغول ہو کر فرار حاصل کرنےکی کوشش کرتا ہے لیکن اس کی بےچینی مزید بڑھ جاتی ہے۔ اسی مایوسی کے عالم میں ایک شب وہ خواب دیکھتا ہے کہ کملا کا پرندہ پنجرے میں مر گیا ہے ، تب اسے گمان ہوتا ہے کہ مادی دنیا آہستہ آہستہ اسے مار رہی ہے اور اس راستے پر چلتے ہوئے وہ ان جوابات کو حاصل نہیں کر پائے گا جس کی وہ تلاش کر رہا ہے۔ وہ سب کچھ ترک کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور کملا کو بتائے بنا شہر سے چلا جاتا ہے۔
سدھارتھ بھٹکتا ہوا دریا کنارے پہنچتا ہے اور اس مانجھی واسودیو کو ڈھونڈتا ہے جس سے وہ برسوں پہلے ملا تھا۔ سدھارتھ اسے کہتا ہے کہ وہ اس اطمینان کو حاصل کرنا چاہتا ہے جو اسے ملا ہے، واسودیو کہتا ہے کہ سدھارتھ یہ سکون و اطمینان مجھے دریا کی خاموشی اور صحبت سے ملا ہے۔ سدھارتھ کئی سالوں تک دریا کا مشاہدہ کرتا ہے اور بلآخر اس حقیقت کو حاصل کرتا ہے جس کی اسے تلاش تھی۔ وہ دیکھتا ہے کہ جس طرح دریا کا پانی سمندر میں بہتا ہے اور بارش کے ذریعے واپس آ جاتا ہے، اسی طرح فطرت کی ہر شے ایک دوسرے سے جڑی ہے۔
زندگی اور موت ، خوشی اور غم ، اچھائی اور برائی سب دائرے کی مانند ہیں اور زندگی کے معنی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں۔وہ کہتا ہے کہ ہوا کا ہر جھونکا ، ہر بادل ، ہر پرندہ ، ہر کیڑا آپ کو زندگی کا انمول سبق دیتا ہے اور جینا سکھاتا ہے۔ سدھارتھ کائنات کی حقیقت کو جان لیتا ہے اور یہی آگاہی کی انتہا تھی جس کی تلاش میں وہ بھٹکتا رہا۔
اختتام میں گووند دریا کے کنارے ایک بزرگ کی تلاش کرتے ہوئے آتا ہے جو حکمت و دانائی کی باتیں کرتا ہے۔ گووند نہیں پہچانتا کہ جس بزرگ کی اسے تلاش ہے وہ سدھارتھ ہے۔ گووند تاحال گوتم کا پیروکار ہے، لیکن وہ اس منزل کو حاصل نہیں کر سکا جس کی تلاش میں وہ اپنے دوست کے ساتھ نکلا تھا۔ جب اسے معلوم ہوتا کہ وہ دانا بزرگ سدھارتھ ہے، تو حیران ہو جاتا ہے اور کہتا ہے سدھارتھ جو تم نے گیان حاصل کیا ہے وہ مجھے بھی سکھاؤ تو سدھارتھ مسکرا کر کہتا ہے کہ نہ تو میں اور نہ ہی کوئی تمہیں حکمت سکھا سکتا ہے، کیونکہ علم تو سکھایا جاسکتا ہے مگر دانائی سکھائی پڑھائی نہیں جا سکتی۔ اس کے بجائے، وہ گووند سے کہتا ہے کہ اس کی پیشانی پر بوسہ دے، یہ سن کر گووند من ہی من سوچتا ہے کہ سدھارتھ کیسی عجیب اور انوکھی باتیں کرتا ہے، لیکن جب گووند جھک کر اس کی پیشانی کو بوسہ دیتا ہے تو اس کے سامنے سارا منظر بدل جاتا ہے اور اسے کائناتی حقیقت کا ادراک ہوتا ہے جسے سدھارتھ نے محسوس کیا تھا۔
ہرمن ہیسے کا یہ ناول بے مثال ہے اور ہر پڑھنے والے نے اسے اپنے مطابق پایا۔ یہ ناول اور اس کا مرکزی کردار سدھارتھ مطلق اچھائی و مطلق برائی کے فلسفے کو رد کرتا ہے وہ مذہبی و مادی انتہا کو رد کرتا ہے وہ تقلید کا رد پیش کر تشکیک کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ وہ ثابت شدہ اٹل سچائیوں اور احکامات کو رد کر خود آگہی کا سفر طے کرتا ہے، وہ فطرت کی جانب لوٹتا ہے اور کہتا ہے کہ سب سے اہم چیز ہے دنیا سے محبت کرنا ہے ، نفرت نہیں ، حقارت نہیں، ہمیں ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرنی بلکہ یہ کہ ہم اس قابل ہوں کہ دنیا کو اپنے آپ کو ہر چیز کو دیکھیں تو محبت اور احترام سے اور پسندیدگی کے ساتھ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply