جشن جشن ہوتا ہے/حسان عالمگیر عباسی

یہ ملک نہیں بلکہ ایک ملخ ہے اینڈ دئیر از نو ڈاؤٹ اِن اِٹ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہماری لکیریں ڈیفائنڈ ہیں اور ہم چار دیواری میں ہی ‘زندگی تماشہ’ کے عکس جی رہے ہیں۔ بہت اونچا دیکھیں تو لکیریں بہت سوں کے نزدیک غیر فطری ہوتی ہیں لیکن میرے خیال سے گھر کی چار دیواریں کھڑی کرنا سمجھ میں آتا ہے اور یہ کوئی کوسوں دور نہ پرکھ میں آنے والا معاملہ نہیں ہے۔

 

 

 

ہر کسی کو حق ہے وہ اپنے ملک و ریاست سے  جڑی  توقعات کے برعکس تجربات کے مطابق بات کرے لیکن جشن آزادی منانا ایک خوشی کا تہوار ہے۔ بچے سکولوں میں ترانے نغمے گنگناتے ہیں اور چھوٹے کاروباری حضرات بھی آزادی کے نشانات اپنے ٹھیلوں ٹھیوں پہ سجاتے ہیں۔ شرارتی بچے باجے بجاتے ہیں۔ ابھی ایک ویڈیو دیکھی جس میں دو بچے کتے سے چھیڑا چھاڑی کر رہے تھے اور کتا بھی کان میں باجے کی آواز سن کے خاصا محظوظ ہو رہا تھا۔ جشن جشن ہوتا ہے۔ حقائق تلخ ہوں تو خیالی دنیا یا افسانوی کردار بن کر جینا زیادہ مناسب لگتا ہے۔ بچوں کے ابھی سے کانوں میں  بھی انڈیل دیا گیا کہ یہ جہنم ہے تو ان کی نفسیات ویسی ہی پک جائے گی۔ مایوس ہونا غلط نہیں ہے بلکہ سوچنا پرکھنا سمجھنا ضروری بھی ہے لیکن یہ ایک شعوری ارتقائی مراحل کا نتیجہ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ریاستی ناکامی اپنی جگہ لیکن پاکستان کا جھنڈا سبز ہے اور اس سبز رنگ سے ایک ماضی وابستہ ہے۔ کرکٹ میچ ہو یا کوئی اور مقابلہ۔ پاکستان کا سبز پرچم ہو یا سبز پہاڑی علاقے۔ ریاستی کمزوریوں اور بدانتظامی سے ہٹ کے دیکھیں تو یہ ایک پہچان ہے اس وطن کی۔ یہاں غیر فطری پریکٹسز اور انتہا پسندی اور ہیجان انگیزی اور علاقہ پرستی اور مذہبی جنونیت اور سرمایہ دارانہ و آمرانہ اقدامات و غیر جمہوری آوازوں کی وجہ سے مسائل اپنی جگہ لیکن فائنل میچ جیت کر زمین سے وکٹیں اکھاڑنا اپنی جگہ اور نغمے ترانے بھی جھٹلائے نہیں جھٹلائے جا سکتے۔ ہاں تنقید ہونی چاہیے اور اپنی حیثیت اور مزاج کے مطابق جتنی ممکن ہو اور جتنی گنجائش ہو ضروری بھی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply