جھنگ میں ایک ڈاکٹر کا ناحق قتل/ڈاکٹر محمد شافع صابر

واقعہ سن لیجیے، ماتم پھر اکھٹے کریں گے۔ ضلع جھنگ کے ضلعی ہیڈ کوارٹر میں ایک ڈاکٹر صاحب نوکری کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب شادی شدہ تھے ۔ایک پولیس والا، جسکی بیوی اسی ہسپتال میں سائیکالوجسٹ (ڈاکٹر نہیں ) تھی۔ پولیس والے کو شک تھا کہ اسکی بیوی کا ان ڈاکٹر صاحب کیساتھ افئیر ہے۔ بقول پولیس والے کے، اسی وجہ سے بیوی نے تنسیخ نکاح کے لئے عدالت میں کیس بھی دائر کیا تھا۔

اس پولیس والے نے تین دوسرے پولیس والوں کیساتھ مل کر ڈیوٹی پر موجود ان ڈاکٹر صاحب کو اغواء کیا۔

ان ڈاکٹر صاحب کے دوستوں نے سوشل میڈیا پر یہ واقعہ اٹھایا ، ہسپتال کے ایم ایس, ضلعی انتظامیہ، محکمہ صحت و پولیس سمیت کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ کسی ڈاکٹر تنظیم نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ سرکاری ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کو سرِعام اغوا کیا گیا، کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا ۔

جب تین دن گزر گئے، ڈاکٹروں کی ایک آدھ تنظیم کی صدائے احتجاج کے بعد، ڈاکٹر صاحب کی تشدد زدہ لاش ایک نہر سے ملی۔ جب سوشل میڈیا پر بات پھیلی اسی کے بعد ہی پولیس حرکت میں آئی اور یوں ڈاکٹر عمر کی نعش ملی ۔ آئی جی پنجاب پولیس ( جو کہ بدقسمتی سے خود ڈاکٹر ہیں) نے فوراً سوشل میڈیا پر پوسٹ لگوائی کہ میرے کہنے پر پولیس نے جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے لاش کو برآمد کر کے، قتل میں ملوث پولیس ملازمین کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ تین دن تک ڈاکٹر صاحب لاپتہ رہے، کسی کے سر پر جوں تک کیوں نہیں رینگی ۔کیوں کسی نے احتجاج نہیں کیا؟ کیا یہاں انسانی جان اتنی سستی ہے؟ اوپر سے ہم اتنے بے حس اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہو چکے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی نعش ملنے کے بعد انکی کردار کشی کی گئی ۔ان پر گھٹیا ترین الزام لگائے گئے ۔کہا گیا کہ اسکا کیریکٹر نہیں ٹھیک تھا، اس کے اپنی کولیگ کیساتھ ناجائز تعلقات تھے،اس نے پہلے ہی دو تین شادیاں کر رکھی تھیں وغیرہ وغیرہ ۔

اگر ایک منٹ کے لئے یہ جھوٹے الزام سچ مان بھی لیے جائیں تو آپکو کسی کی جان لینے کی اجازت کس نے دی ۔؟ آپ خود ہی انصاف کرنے والے ہوتے کون ہیں ؟  آپکو کسی کی جان لینے کا حق کس نے دیا؟؟ پولیس کی وردیوں میں ملبوس دہشت گردوں نے یہ تک نہ سوچا کہ اس کے چھوٹے بیٹے، بوڑھے والدین کا کیا بنے گا۔

پولیس جس نے ہماری حفاظت کرنی ہے، وہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ اسکے چار ملازمین نے آن ڈیوٹی ڈاکٹر کو اغوا کیا، تشدد کا نشانہ بناتے رہے، کسی کو پتا تک نہ  چلا۔ بعد میں جب اسے قتل کیا تو لاش کی بے حرمتی کی گئی ۔کان کاٹ دیئے گئے ۔نازک اعضاء پر تشدد کیا گیا۔ لاش کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ۔ان سفاک پولیس والوں کا دل پھر بھی نہیں بھرا ،لاش کو بوری میں بند کر کے نہر میں بہا دیا۔

پولیس والے انسان تو پہلے ہی نہیں تھے، اب دہشتگرد بھی بن گئے ہیں ۔ ڈاکٹر تنظیموں کے شدید احتجاج کے بعد اب ہم پر یہ احسان کر دیا گیا ہے کہ SHO کو معطل کر دیا گیا ہے۔ آئی جی پنجاپ پولیس نے ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیموں سے ملاقات کی، وہی رٹی رٹائی باتیں دہرائیں، انصاف دلانے کا وعدہ کیا، لیکن واقعہ کے دس دن گزر جانے کے بعد بھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا، سوائے SHO کی معطلی کے۔۔ ابھی دو تین ہفتے معاملہ میڈیا پر رہے گا، پھر ٹھنڈا پڑ جائے گا اور ایسے ہی SHO صاحب دوبارہ نوکری جوائن کر لیں گے۔ ڈاکٹر عمر کو انصاف نہیں ملے گا، کیونکہ ہم پاکستان نامی جنگل میں رہتے ہیں۔ آئی جی پولیس نے انصاف کا وعدہ آج سے دو مہینے قبل بھی کیا تھا، وہ وعدہ ایفا نہ  ہوا، اب ڈاکٹر عمر کے انصاف کے لیے کیا گیا وعدہ پورا ہونے کی توقع ہر گز نہیں ہے ۔ وہ واقعہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔

آج سے تقریباً دو مہینے قبل چلڈرن ہسپتال لاہور میں ایک مریض کے لواحقین نے آن ڈیوٹی، ڈاکٹر سعد کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا ۔ڈاکٹر صاحب خوش قسمت تھے کہ بچ گئے ورنہ ان وحشیوں نے کسر کوئی نہیں چھوڑی تھی۔تشدد کرنے والوں میں سندھ پولیس کا ایک ملازم بھی تھا ۔

تب سوشل میڈیا پر خوب کمپین چلی۔ پبلسٹی کے ماہر نگران وزیر صحت نے انکی عیادت کی، انصاف کے دعوے کیے۔ پریس کانفرنس پہ پریس کانفرنس کیں۔ مذمت پہ مذمت کی۔ ڈاکٹروں کی  تنظیموں نے ایک ہفتہ opds بند کیں، پنجاب پولیس و وزیر صحت نے کہا کہ ہم نے دہشتگردی کی دفعات لگا دی ہیں،انصاف ہو گا۔

اب دو مہینوں سے اوپر ہو گیا ہے، اس کیس کا کیا بنا؟ کیا ملزموں کو سزا ہوئی؟ اگر ہوئی تو کیا سزا ہوئی؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔ جس آئی جی پولیس نے انصاف کا وعدہ دلایا تھا، وہ وعدہ ایفا ہوا؟؟ جس سابق وزیر نے بڑے دعوے کیے تھے۔ان دعوؤں کا کیا بنا؟؟ اب اس کیس پر سوشل میڈیا پر کمپین نہیں ہو رہی تو وہ کیس بھی عملاً ٹھپ ہو چکا ہے۔

اب جھنگ میں ایک آن ڈیوٹی ڈاکٹر، ڈاکٹر عمر کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اب قتل کرنے والے پنجاب پولیس کے ملازم ہیں، وہی آئی جی پولیس ہے۔۔وہی صاحب وزیر صحت ہیں ۔جو پنجاب پولیس، ڈاکٹر سعد کے معاملے پر، جس میں سندھ پولیس کا ایک ملازم ملوث تھا، اسے نہ کچھ کہہ سکی۔اب ڈاکٹر عمر کے قاتلوں جو کہ پنجاب پولیس کی وردی میں ملبوس دہشتگرد ہیں، وہ اپنے پیٹی بھائیوں کو کیونکر کچھ کہے گی۔ جس پولیس میں درندے نما دہشتگرد موجود ہوں، اس سے تفتیش اور پھر انصاف کی امید رکھنا ہی پاگل پن ہے۔ ابھی نیا نیا کیس ہے، سوشل میڈیا پر بات اچھلے گی، فوٹو سیشن ہوں گے، پریس کانفرنسیں ہوں گی، بڑے بڑے دعوے ہوں گے۔جیسے ہی ایک دو ماہ گزریں   گے، ڈاکٹر عمر والا واقعہ بھی پرانا ہو جائے گا۔ یہاں نہ  ڈاکٹر سعد کو انصاف ملا، نہ  ہی ڈاکٹر عمر کو انصاف مل سکے گا۔ ڈاکٹر عمر کے والدین کو انصاف ملے بنا ہی جینا ہو گا۔

رہی بات نگران صوبائی وزیر صحت کی، وہ نگران وزیر صحت کے بعد دوبارہ پھر کسی سرکاری یونیورسٹی کے وی سی لگا دئیے جائیں گے، سی پی ایس پی میں اعلیٰ عہدہ مل جائے گا۔۔ ان کے فوٹو سیشن و پریس کانفرنسز جاری رہیں گے۔۔ جبکہ موجودہ آئی جی اگلی پنجاب حکومت آنے تک اسی عہدے پر کام کرتے رہیں گے، اور بعد میں پوسٹ ریٹائرمنٹ فل آن انجوائے ماریں گے، جبکہ ڈاکٹر سعد اور ڈاکٹر عمر انصاف کے متلاشی رہیں  گے، کیونکہ اب پاکستان ایک جنگل بن چکا ہے اور جنگلوں میں انصاف نہیں ہوا کرتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:تحریر آزادیء اظہارِ رائے کے طور پر شائع کی جارہی ہے،مصنف کے خیالات سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply