• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • “آئینہ در آئینہ “سے کچھ اہم موضوعات پر سوال جواب۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

“آئینہ در آئینہ “سے کچھ اہم موضوعات پر سوال جواب۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​ بے شمار دوستوں نے فرمائش کی ہے کہ ’’آئینہ در آئینہ‘‘ کے کچھ اہم موضوعات پر سوالات اور جوابات کو فرداً فرداً دوبارہ پرنٹ کیا جائے  تاکہ ان سے دوست ایسے ہی مستفید ہو سکیں، جیسے کہ ایک (اور صرف ایک ) موضوع پر ہی بات چیت سے ہوا جا سکتا ہے۔ ان کی اس خواہش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خاکسار نے اب ایک ایک موضوع پر سوالات کے مجموعہ کو الگ سے پوسٹ کر نا شروع کیا ہے۔یہ موضوع نمبر ایک ہے(س۔پ۔آ)

موضوع۔ تصوف اور شاعری

ضیا ء(سوال) ۔کیا تصوف اورشاعری کی گوت اور قبیلہ ایک ہے ؟ فکری سطح پر اور استحضاری سطح پر ؟

آنند:  جی نہیں، محترم، گوت تو الگ ہے ہی، قبیلہ بھی مختلف ہے، لیکن قد م قدم پر ان دو مساوی لیکن وسیع الذیل شاہراؤں کے ذیلی ڈانڈے آپس میں ملتے ہیں ۔ یہ مغالطہ اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ جن صوفی بزرگوں تک عموماً ہماری رسائی ممکن ہوئی ہے، بر ِ صغیرمیں (خاص طور پر پنجاب میں) ، وہ سب ، یا ان میں سے بیشتر شاعر تھے۔ تصوف ایران کی دین ہے، عربوں کی نہیں۔ جن ڈانڈوں نے ان دو نوں کو فکری سطح پر کم کم لیکن استحضاری (یاداشت)   کی سطح پر وسیع تر انسلاک کے تاریخی مواقع میسر کیے وہ شمالی ہندوستان کے صوفی بزرگوں کا لوک بولیوں میں اپنی شعری ورثے کی املاک بیع کر کے جانا بھی ہے۔ اس کی پوری داستان کے ماخذ اگر تلاش کرنے ہوں تو شیخ محمود المعروف محمد پیرؔ کی ’’ـحقیت الفقرا‘‘(۱۸۰۱ھ؍1660-1661 )کو دیکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ محمد پیر ؔ پنجابی کے بزرگ صوفی شاعر شاہ حسین کی وفات کے کچھ دن بعد پیدا ہوئے اور پندرہ برس کی عمر میں ان کے مزار باغبانپورہ میں حاضری دے کر ان سے روحانی سطح پر متبعاتی فیض حاصل کیا۔ یہ کتاب فارسی میں ہے لیکن اس کا اردو ترجمہ 1923ء  میں شاہ حسین کے مزار کے گدی نشین سید مبارک علی شاہ نے حیدر آباد دکن کے ایک بزرگ مولانا سید احمد شاہ سے کرواکے شائع کیا تھا لیکن اس میں لا تعداد اغلاط تھیں۔ صحیح ترمیم شدہ نسخہ ڈاکٹر گوہر نوشاہی ، نائب منتظم مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد کے کتب خانے میں موجود ہے ۔

ایران میں شطاریہ سلسلہ جس کے بانی اغلباً با یزید بسطامی تھے شاعری، سماع اور موسیقی کو تصوف کے ظاہری خد و خال سمجھتے تھے۔ سلوک اور طریقت میں یہ لوگ زیادہ سرگرم تھے، سخت ریاضت،( بسا اوقات حجروں یا جنگلوں میں رہ کر )ان کا مرغوب شعار تھا۔ اس سلسلے میں ہندوستان میں سب سے زیادہ فعال شیخ محمد غوث گوالیاری (ھ980 بمطابق 1562عیسوی) تھے جو شیخ فرید الدین عطار کی نسل سے تھے۔شیخ محمد غوث نے شہنشاہ اکبر سے حاصل ہوئی املاک سے گوالیار میں ایک بڑی خانقاہ تعمیر کروائی، جس میں تصوف کے حوالے سے ہی شاعری اور موسیقی کی سمعی اورسماعی محافل منعقد کی جاتی تھیں۔ گوالیار ویسے بھی شاعری اور موسیقی کا گڑھ تھا، اس کی سرپرستی گوالیار کے راجہ مان سنگھ کرتے تھے، جو خود بھی کھڑی بولی کے علاوہ فارسی میں اشعار موزوں کرتے تھے۔

 ضیاء : (سوال) کیا تخلیقی فلسفہ ہو سکتا ہے ؟ یا یہ بھی تصوف کی عقلی تعبیرات کی کوشش ہے ؟

آنند : میری رائے میں تخلیقی فلسفہ بطور اصطلاح قابل ِ قبول نہیں ہے۔مغربی دنیا کے تقریباً سبھی فلسفی ،بشمولیت قدیم یونان اور رومائے قدیم (سقراط، ارسطو، افلاطون ۔۔۔درجنوں نام ہیں، شمار کرنے کی ضرورت نہیں ہے) اور یورپ میں قرون وسطیٰ یا قرون مظلِمہ(دسویں سے پندرھویں صدی تک) یا اس کے بعد بیسویں صدی تک سینکڑوں نہیں تو بیسیوں نام ایسے ہیں، جنہیں فلسفی ہونے کی سند دی جا سکتی ہے۔ ان میں نظریہ پرست بھی ہیں، کتاب پرست بھی ہیں اور پان صوفیت، فلسفہ ٔ علت و معلول، عقیدہ ۔۔۔ وسیع سے وسیع (علم بسیط) اور علم الدنی، کسب خارجی، علم طبیعی، علم الہیٰ وغیرہ کے یگانہ ٔ روزگار بزرگ بھی گزرے ہیں، لیکن سبھی یا تقریباً سبھی شعری شعار ِ اظہار سے بری الذمہ قرار دیے جا سکتے ہیں۔(شاید اپنی کم علمی کی وجہ سے مجھے کوئی نام نہ ملا ہو، لیکن یورپ اس لحاظ سے ، میری ناقص رائے میں) قرون ِ وسطیٰ سے لے کر آج تک ’’فلسفی شاعر‘‘ کی اصطلاح سے خالی رہا ہے۔ بہت سے اطالوی، فرانسیسی، انگریزی، جرمن اور سکینڈینیوین شعرا کو کہا جاتا ہے لیکن ان کے ہاں جو فلسفہ ملتا ہے ،وہ سب کا سب مستعار ہے۔ ان میں کوئی نہیں ہے۔نظریہ ساز کوئی نہیں ہے، صرف نظریہ پرست ہیں۔

سوال کا دوسرا حصہ پہلے حصے سے بطور علت و معلول منسلک ہے۔ اس لیے اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ یہ روح کی گہرائیوں میں اتر کر علت ِ اولیٰ کی اُسی الوہیت سے مصافحہ کرنے کی کوشش ہے، جو ’’سبب‘‘ کے مسبب الاسباب سے تعلق پر استوار ہے ۔
———————————-

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت ِ امکاں کو ایک نقش ِ پا پایا

 ضیا (سوال) شاعری میں امکان کی بود وباش غیر فطری کیوں محسوس ہوتی ہے ؟ نرا مبالغہ۔

آنند:  امکان کی بود و باش؟ امکان کی نہ تو ’بود‘ ہے، نہ ہی’باش‘، یعنی یہ’ ماضی‘ اور’ حال‘ ، دونوں سے مستثنیٰ ہے ۔ اس کا تعلق ’مستقبل‘سے ہے۔ غالب کا شعر ایک سیال کیفیت کا مرقع ہے۔ اس میں سکون یا ٹھہراؤ نہیں ہے، بہاؤ ہے۔ یہ سیال کیفیت’’، تمنا‘‘ (آرزو، خواہش، چاؤ، چاہ، چاہت، امید، ادمات، امافی، ارمان، ۔۔۔کچھ ہم معنی الفاظ) اپنے سیال معانی میں ’’قرار‘‘ کا قطبینی الٹ پھیر ہے۔ فلسفے میں یہ برگساں کے مفروضے سے متصور اور متشکل ہے۔ ایک سعی ٔ مسلسل ہے۔تڑپ اور لگن ، بے قراری ہے۔ اٹھے ہوئے قدم کے زمین پر پڑنے سے پہلے ہی دوسرے قدم کو اٹھانے کی سعی ہے۔ یہ ارتقا پذیری کا وہ عمل ہے جس پر ہم آج تک چلتے چلے آئے ہیں لیکن غالب جیسے شاعر تو امکان کی حدود کو پھلانگ کر آگے کی سرزمیں تک ایک ہی زقند میں پہنچنا چاہتے ہیں۔ اس کیفیت کو کوئی نام دیا جا سکتا ہے؟

پہلا قدم ایک ستون کی سی مضبوطی سے زمین پر ، دوسرا قدم اٹھا ہوا اور عر ِ ِ دور بین یہ دیکھ کر حیران و پریشان کہ پہلے نقش ِ قدم کو تو اس نے اپنے پاؤں سے تسخیر کر لیا، دوسرا کہاں ہے؟ (شاید تیسرے قدم کے لیے زمان و مکان کی حدود بھی نا کافی ہیں۔) ’ہونے‘ سے ’بننے‘ کی طرف ایک جہد مسلسل ہے کہ جو شاعر کو اس سیال کیفیت سے بہائے لیے جار ہی ہے، جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ وقت کے ابعاد ثلاثہ کا یہ کرشمہ ہے، کہ ’حال‘ جو شاید ایک لمحے کے کروڑویں حصے سے بھی کم دورانئے پر محیط ہے، ارتقا پذیری کا مرکزہ بن جاتا ہے اور شاعر مستقبل کی اس تمنا کے پیچھے دوڑنے کا خواہشمند ہے جو افقی ہے، جو اِس سے اُس افق تک پھیلاؤ  کو اپنی سیال کیفیت میں لپیٹ لینا چاہتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امکان کی بود و باش غیر فطری ہے بھی اور نہیں بھی، کیونکہ جہاں ’حال‘ کے لمحہً گذراں کا جگنو آپ کی مٹھی میں ہے، وہاں یہ بھی تمنا ہے کہ اس کی روشنی میں (یعنی ماضی کی مشعل ِ راہ سے روشنی پا کر) آپ مستقبل ِ مخفی کو متشکل کر سکیں۔ تمنا کے دوسرے قدم کے امکان کا یہ افقی رُخ اس شعر میں تو بعینہ ایسے ارتفاع پذیر ہو گیا ہے کہ عمودی رخ تقریباً (کم از کم یہ شعر پڑھتے ہوئے) ذہن سے محو ہو جاتا ہے۔ لیکن عمودی رخ ذات کے زنداں سے نجات پانے اور اوپر اٹھنے کی تمنا کے سیاق و سباق میں ایک صوفیانہ قدر و قیمت کا پتہ دیتا ہے۔ جب تک تشنگی رہے گی، جد و جہد جاری رہے گی۔ تشفی تو پیٹ بھرنے سے ملتی ہے اور اس کا حصول جگالی کرنے والے مویشی کو بھی ہے۔کیا یہ ’نرا مبالغہ ‘ ہے ؟ جی نہیں، محترم، یہ ’نرا مبالغہ‘ نہیں ہے۔ ہر ’سچے‘ شاعر کے ہاں یہ لا شعوری جہت موجود ہے جہاں وہ خود سے دور (افقی) اور (عمودی و عمقی) رہائش پذیر ہے ۔ ۔ان کے بارے میں اقبال کی معروف نظم پڑھیں۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply