یہ کائنات انسان کی موجودگی یا غیر موجودگی پر منحصر نہیں بلکہ اپنی آزادانہ حیثیت رکھتی ہے، یہی تصور کائنات ہمیشہ انسان کے ذہن میں رہا جب تک کہ کوانٹم کی دنیا دریافت نہ ہوئی، یقین یہ تھا کہ تمام موجودات اپنی اپنی خاص شکل و حجم رکھتے ہیں، اور ایک وقت میں حرکت یا سکون میں سے کسی ایک کیفیت میں رہتے ہیں، پچھلے وقتوں میں اگر کوئی شخص ایسا دعویٰ کرتا کہ کوئی بھی وجود ایک ہی وقت میں مختلف اشکال یا حجوم رکھ سکتا ہے، اور بیک وقت حالت سکون و حرکت میں پایا جا سکتا ہے تو ایسے شخص کا ٹھکانہ قریبی پاگل خانہ قرار پاتا، لیکن آج کوانٹم تھیوری ہمیں حواس باختہ کرنے کو کافی ثبوت سامنے لے آئی ہے۔
الف لیلیٰ کی کہانیاں میں وجود اپنی پوزیشن لمحہ بھر میں بدل لیا کرتا تھا ، کوانٹم کی دنیا میں وجود بظاہر کہیں بھی نہیں لیکن ہر اس جگہ موجود ہے جہاں آپ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں (ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو )، اسے super position کا نام دیا گیا ہے۔ ایسا کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟ اس بارے عقل خاموش ہے کہ خلافِ عقل معاملات عقل کی مدد سے نہیں سمجھے جا سکتے، اس بابت سب سے پہلا ہوش ربا تجربہ تھومس یونگ کا ہے، انہوں نے دھات کی بنی پلیٹ میں دو برابر سوراخ کر کے وہاں سے روشنی کو گزارا، جن کے سامنے ایک سکرین موجود تھی، الیکٹرونز ان سوراخوں میں سے گزرتے ہوئے سامنے سکرین پر تصویر بناتے ہیں ، حیران کن تجربہ یہ ہوا کہ اگر اس پلیٹ میں گزرنے سے پہلے الیکٹرونز کو آنکھ بھر کے دیکھا جائے تو وہ سکرین پر ذرات کی صورت ایک تصویر بناتے ہیں، اور اگر اس وقت الیکٹرونز کا مشاہدہ نہ کیا جائے تو شیٹ میں سے گزرنے کے بعد وہ موج کی شکل میں مختلف تصویر دکھاتے ہیں، مشاہدہ گویا کہ تصویر کا خالق ہے، یہیں سے “سوچیں حقیقت کا روپ دھارتی ہیں ” والے فلسفے کو تقویت ملتی ہے، حقیقت اپنی ہستی میں کچھ الگ چیز ہے، ہمارے سامنے جو ہے یہ سب ہمارے مشاہدے کا مرہونِ منت ہے۔
بہت کم لوگ یہ بات سمجھتے ہیں کہ سازوبرگ کا توجہ سے مشاہدہ ان کی خصوصیات پہ اثرانداز ہوتا ہے، یہ مشاہدہ کہیں دھاتی پلیٹ کی خصوصیات پر اثرانداز نہ ہوا ہو ، اسی کو سامنے رکھتے ہوئے عقل کی ضد پر الیکٹرونز کو شیٹ سے پہلے نہیں بلکہ سوراخوں میں سے گزرنے کے بعد مشاہدے کی کسوٹی پہ پرکھا گیا کہ شیٹ میں سے گزرنے سے پہلے وہ ذرے یا موج کی شکل اختیار کر چکے ہوتے ہیں، یہاں ایک بار پھر انسان کو شکست ہوئی کہ شیٹ سے گزرنے کے بعد بھی مشاہدہ کیا گیا تو ذرے، اور بغیر مشاہدہ یہ الیکٹرون موج کی صورت رکھتا تھا، الیکٹرون پہلے سے جانتا تھا کہ اس کا مشاہدہ کیا جائے گا یا نہیں، گویا کہ وہ مستقبل میں جھانک کر مستقبل سے معلومات لینے کی صلاحیت رکھتا ہے، اگر ایسا ہے تو منطقی طور پر یہ ماننا پڑے گا کہ مستقبل کوئی ایسی بلا نہیں جو ابھی وقوع پزیر ہوگی بلکہ یہ کامل حقیقت کا ایک حصہ ہے جو پہلے سے موجود ہے، الیکٹرون اسے دیکھ سکتا ہے، انسانی نگاہ محدود ہے، یہی صورتحال ماضی سے متعلق ہے، ماضی حال اور مستقبل انسان کے بنائے پیمانے ہیں، کوانٹم کی دنیا میں یہ ایک ہی وجود ہے اور بیک وقت دسترس میں ہے، آئن سٹائن اس ” بیہودگی ” سے بیزار رہتے اور اس موضوع پر جذبات کا شکار رہے ، وہ مذاق اڑاتے ہوئے کوانٹم کے طلباء سے پوچھتے کہ تمہارے خیال میں چاند آسمان پر صرف ہمارے مشاہدے کی بدولت ہے؟
اس سے آگے کا معاملہ مزید پیچیدہ ہے، فرد نہ چاہتے ہوئے بھی کوانٹم کی دنیا پر ایمان تو لے آیا لیکن اس یقین کے ساتھ کہ یہ صرف مائیکرو لیول تک کی باتیں ہیں، ہماری ٹھوس اور مادی دنیا اس کے اثرات سے پاک ہے، بے شمار محققین یہ سمجھتے اور سمجھاتے رہے کہ سپر پوزیشن کا عجوبہ صرف ایٹم تک محدود ہے، اس سے بڑے حجم کیلئے یہ ممکن نہیں وگرنہ زمان و مکاں کی لاتعداد صورتیں ماننی پڑیں گی اور یہ نئے گورکھ دھندے کو جنم دے گا، 2010ء میں ایک مادی وجود، لوہے کی چھوٹی سی سلاخ، پر یہ تجربہ کیا گیا جس نے سب کو چونکا دیا کہ ٹھوس مادی وجود بظاہر کہیں نہیں تھا لیکن جس جگہ آپ توجہ سے دیکھتے ہیں وہ وہیں موجود تھا، وہ بظاہر ساکن تھا لیکن پھر بھی حرکت میں تھا، اس تجربے میں سب سے اہم بات ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں، اگر فرد کسی جگہ بالکل تنہا ہوتو اس کا رویہ اور فعل مختلف ہوگا، وہ چاہے تو کپڑے اتار دے، ڈکار و گیس کا اخراج تو عمومی بات ہے، لیکن جب آپ کے ساتھ مہمان موجود ہوں تو آپ بالکل دوسری طرح خود کو پیش کرتے ہیں، مہمانوں کی موجودگی اور غیر موجودگی آپ کے فعل و سلوک پر اثرانداز ہوتی ہے، اسی طرح ایک دھاتی ٹکڑا کوانٹم کی دنیا میں کیسا برتاؤ کرتا ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ اسے تمام مہمانوں سے نجات دلائی جائے، اور یہ مہمان ہوا، روشنی، اور حرارت ہیں، تجربے میں دھاتی ٹکڑے کیلئے یہی ماحول بنایا گیا اور اس ماحول میں وہ بیک وقت ساکن بھی تھا اور حرکت میں بھی، توجہ نہ دیں تو وہ غیر حاضر تھا، اور مشاہدہ کریں تو وہ ہر جگہ موجود تھا، اس مادی دھات کے ایٹمز ہیں جن کے الیکٹرونز اسے سپر پوزیشن پہ لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، سنتے ہیں کہ ایک سے زیادہ مکان پر کوئی شخص پایا یا دیکھا گیا، یہ الیکٹرونز کی حرکت بےخودی کے عالم میں کرامات برپا کرتی ہے اور ہر وجود الیکٹرونز کا مرکب اور محتاج ہی تو ہے۔
انسانی ذہن کامل حقیقت کو نہیں پا سکتا لیکن ہر وہ حقیقت موجود ہے جسے وہ تخلیق کرتا ہے، ہر وہ چیز جس کا انسان تصور کر سکتا ہے وہ چیز کائنات میں موجود ہے، اگر وہ موجود نہ ہوتو فرد اس کا تصور کرنے سے قاصر ہے، حواسِ خمسہ ضروری اور اہم ہیں لیکن یہ کل نہیں بلکہ اجزاء ہیں، کامل حقیقت کو صرف انہی حواس کی مدد سے سمجھنا ممکن نہیں، اس سے آگے جہانوں اور عجوبوں کی حیران کن دنیائیں موجود ہے، ذیادہ دور نہیں کہ انسان معلومات کے نئے ذرائع لے کر آگے بڑھے اور اس میں بنیادی کردار کوانٹم میکانیات کا ہوگا ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں