کلمہ اور ایمان/شمس الدین انصاری

(اصلاحی سلسلۂ مضامین)
کلمہ پڑھنے سے ایمان آجاتا ہے۔
ایک آدمی کلمہ پڑھ کر باایمان مسلمان ہوجاتا ہےاور کہتے ہیں کہ جس کے سینے میں ذرہ برابر ایمان ہوگا، وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

 

 

 

یہ سب ٹھیک ہے،مگر۔۔۔
مگر صرف کلمہ پڑھنے سے سب کچھ نہیں ہوجائے گا، بلکہ کلمہ میں ہم جو کچھ کہتے ہیں یا پڑھتے ہیں، اس کے کچھ تقاضے ہیں جسےعملی طورپر پورا کرنا ضروری ہے۔
جیسے آپ کو معلوم ہے کہ ایمان کے تین درجے بتائے گئے ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ برائی کو ہاتھ سے روک دیا جائے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ زبان سے برا کہا جائے۔اور تیسرا اور آخری درجہ یہ ہے کہ اسے،یعنی برائی کو، دل سے برا سمجھا جائے،اور یہ تیسرا درجہ سب سے کمزور ایمان ہے، اور اگر یہ نہیں ہے تو ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں ہے۔
برائی کیا ہے؟
اللہ کے دین اور نبی کی سنت کے خلاف جو بھی کام ہو، وہ برائی ہے۔ اور اسے روکنا ایمان کاتقاضہ ہے جسے روکنے کے تین درجے اوپر بیان کیے گئے ہیں۔
ہاتھ سے روکنا اور زبان سے براکہنا تو صاف واضح ہے مگر دل سے برا سمجھنا کیا ہے؟
اللہ کا دین اور نبی کی سنت پامال ہورہی ہو اور ہم دل میں صرف یہ سمجھیں کہ یہ برا ہورہا ہے، تو کیا ہم بری الذمہ ہوگئے؟
نہیں ۔ بلکہ آئیے ذرا غور کریں کہ کسی بات کو برا سمجھنے کے کیا اثرات ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر آپ کا بیٹا جو یقیناً آپ کو بہت محبوب ہے، اگر وہ بیمار ہوجائے تو آپ کس قدر پریشان ہوں گے۔ پہلے ملنے جُلنے والوں سے اس بیماری کا ذکر کسی برائی کے ذکر کی طرح کریں گے کہ وہ بیماری یا برائی آپ کے بیٹے سےدور ہوجائے۔ پھر اپنے بیٹے سے اس بیماری کو دور کرنےکے لیے اپنے ملنے جُلنے والوں سے کوئی رائے اور کوئی تعاون چاہیں گے۔ اوراس سے بھی کچھ نہ ہوگا تو آپ کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس جائیں گے اور جب تک آپ کا بچہ صحت یاب نہ ہوجائے گا، آپ نہ تو پیٹ بھر کر کھانا کھائیں گے ، اور نہ ہی نیند بھر کر سوئیں گے۔ سوئیں گے کیسے؟ آپ کوتو ہر وقت بچے کی بیماری دور کرنے کی فکر ہوگی۔
لیکن افسوس، صد افسوس !
کہ آج اللہ کا دین اور نبی کی سنت اس بری طرح پامال ہوتے ہم دیکھ رہے ہیں اور پیٹ بھر کر کھانا بھی کھارہے ہیں اور نیند بھر کر سوبھی رہے ہیں ۔
کیا اب رائی کے دانے کےبرابر بھی ایمان ہمارے دلوں میں ہے؟
فکر کریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply