عالمِ شہادت، جبروت و ملکوت/زاہد مغل

“احیاء العلوم” کتاب التوکل و التوحید” میں مسئلہ جبر و قدر پر بحث کرتے ہوئے امام غزالی لکھتے ہیں کہ عالم تین ہیں:
1۔ عالم شہادت: یہ حواس کے سامنے ہے
2۔ عالم ِ جبروت: یہ علم، ارادہ و قدرت سے متعلق ہے
3۔ عالم ِملکوت: یہ اللہ کی بارگاہ سے متعلق ہے

آپ لکھتے ہیں کہ عالم ملکوت کے منکر کا حال فرقہ سمنیۃ کے ان لوگوں جیسا ہے جو صرف عالم شہادت کو مانتے ہیں اور عالم جبروت کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم صرف حواس سے معلوم حقائق پر یقین رکھتے ہیں، اور ان لوگوں کا حال ان سوفسطائیوں جیسا ہے جو عالم شہادت کا بھی انکار کرتے ہیں۔

صوفیاء کی اصطلاحات کے توحش کو ایک طرف رکھ کر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک گہری بات ہے۔ جو لوگ عالم ملکوت کا انکار کرتے ہیں ان سے نہ عالم شہادت کی توجیہہ ہوپاتی ہے اور نہ ہی انسانی ارادے و قدرت (یعنی عالم جبروت) کی۔ چنانچہ جو علم کو صرف حواس تک محدود سمجھتے ہیں جیسا کہ مغربی فلاسفہ کی ایک اکثریت کا حال رہا ہے تو وہ انسان کے بارے میں نہایت پست تصور رکھتے ہیں اور ان کی جانب سے “خدا نہیں ہے” کی بات اونچی آواز سے کہی جانے کے بعد جب ان سے پوچھا جائے کہ “انسان کیا ہے” تو اس کا جواب ان کے ہاں بالکل دھیمی آواز میں ایک نہایت حقیر تصور کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض انسان کو بھی مشینی و مادی چیز قرار دینے کی کوشش میں ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ انسان کی توجیہہ بائیولوجیکل حقائق و خلیوں میں محدود کردی جائے۔ یہ علم کو حسیات تک محدود کرنے کا نتیجہ ہے کہ اس کے بعد انسانی علم، ارادے و قدرت کی کوئی بامعنی توجیہہ ممکن نہیں رہی۔

اور اگر صرف عالم جبروت تک محدود ہوا جائے تو خود انسان اپنی توجیہہ پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے کیونکہ اس عالم سے متعلق امور کی حقیقت عیاں ہونے پر وہ جان جاتا ہے کہ یہ اپنی توجیہہ و معنویت پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ الغرض انسان مجبور ہے کہ عالم ملکوت کو مانے کیونکہ وہی سب کا منبع ہے۔ کانٹ کی علمی کم مائیگی یہ خیال تھا کہ عالم شہادت کی توجیہہ عالم ملکوت کے بغیر بھی ممکن ہے اور اس کوشش میں وہ خود کو مجبور پاتا ہے کہ عالم جبروت (انسانی علم، قدرت و ارادے) کو مفروضے کے طور پر قبول کرے۔ تاہم اس نے عالم ملکوت کو ناممکن و غیر متعلق قرار دینے کی وہی غلطی کی جو فرقہ سمنیہ والے کیا کرتے تھے اور نتیجتاً اس کے پاس انسانی نفس کی حقیقت کا کوئی جواب موجود نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

امام غزالی لکھتے ہیں کہ عالم جبروت عالم شہادت و ملکوت کے مابین درمیانی واسطہ (شیخ ابن عربی کی اصطلاح میں “برزخ”) ہے اور واسطے کے لئے لازم ہے کہ وہ دونوں جانب جڑا ہو۔ ڈول کنویں سے پانی کھینچنے کا واسطہ تبھی بنتا ہے جب اس کا ایک سرا انسان کی جانب اور دوسرا پانی کے ساتھ ملا ہو مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ خود الگ وجود بھی رکھتا ہو۔ پس انسان کو عالم جبروت تک اسی لئے رسائی دی گئی ہے کہ وہ عالم شہادت سے عالم ملکوت کی بلندی کا سفر کرسکے۔ بے شک پست ہمت و فکر ہیں وہ لوگ جو صرف عالم شہادت پر قناعت کرگئے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply