شمالی علاقہ جات کی سیر اور زادِ راہ/ راؤ عتیق الرحمٰن

بہترین زاد ِ راہ تو تقویٰ  ہے مگر شمالی علاقہ جات یعنی سکردو، گلگت ہنزہ اور خنجراب چائینہ بارڈر کی سیر و سیاحت کرنی ہے تو اچھا خاصہ دنیاوی زاد راہ اس مہنگائی کے دور میں چاہیے اور یاد رہے کہ موٹر وے پر سفر کرنے سے پہلے کوئی  بھی ضرورت کی چیز خریدنا نہ بھولیں ورنہ قیمتوں کے فرق کا لگ پتہ جائیگا ۔اسلام آباد اس سیاحت کے آ غاز کا Base Camp ہے ۔

 

 

 

 

 

اسلام آباد سے گلگت ذر یعہ بالاکوٹ، کاغان ناران اور بابو سر( Top)486 کلومیٹر کا سفر 11 گھنٹے اور تیس منٹ پر محیط ہے یہ سفر بارونق رش اور پُر فضا مقامات اور ایڈونچر سے بھرپور ہے ۔ جبکہ دوسرا راستہ اسلام آباد سے گلگت بذریعہ تھاہ کوٹ ، بشام داسو (داسو ڈیم)ضلع کوہستان لوئیر دیر چلاس اور گلگت 580 کلومیٹر کا سفر 12 گھنٹے اور 15 منٹ پر محیط ہے یہ سفر انتہائی طویل ، بور، بے رونق اور غیر آ با د علاقے پر مشتمل ہے جبکہ عام سہولت بمشکل میسر ہے تاہم آ پ اور دریائے سندھ دائیں بائیں مسلسل تقریباً 7 گھنٹے ہم سفر رہتے ہیں کئ مرتبہ ” شیر دریا” کی قربت سے محبت کی بجائے خوف محسوس ہوتا ہے۔ بائیکر حضرات تو سیرو سیاحت کرتے ہی بذریعہ بالاکوٹ ، کاغان آور ناران ہیں من موجی بائیکرز جو دو یا گروپ کی صورت میں ایڈونچر کرتے ہوئے ضروری سازو سامان کے ساتھ کھلی فضا میں کیمپنگ کرتے ہوئے سفر جاری رکھتے ہیں ۔ اسلام آباد سے گلگت کے سفر کے دوران رات کو قیام ضروری ہے ناران خوبصورت اور مناسب مقام ہے یا دو ڈرائیور ہوں تو اس قدر سفر ممکن ہے ہزارہ موٹر وے سے مانسہرہ تین خوبصورت ٹنلز سے گزرنے کے بعد نیو بالاکوٹ سٹی (جو کہ آ ج بھی 2005 کے زلزلے کے بعد آ باد اور بحال نہ ہونے کی کہانی سنا رہا ہے) کیطرف رائیٹ ٹرن لیکر 8 کلومیٹر کچی پکی سڑک سے دھکے کھاتے ہوئے سفر کاغان ، ناران  کی جانب شروع ہوتا ہے راستے بھر پانی کے جھرنے آ بشاریں خوبصورت پہاڑ اور وادیاں دل کو بہلاتی ہیں۔ گاڑی 40 تا 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہے باقی مقامی ڈرائیورز کی مہارت ہے کہ جس رفتار سے تیز ڈرائیونگ کریں بہرحال انس اور دانیال نے بڑی کمال ڈرائیونگ کی اور 3000کلومیٹر کے تمام سفر میں اللّٰہ تعالیٰ کی مدد شامل رہی ۔دریائے کنہارکے خوبصورت اور دریا پر ڈیم کی تعمیر جاری ہے کاغان سے شوگران 29 کلومیٹر کا سفر 1 گھنٹہ اور 15 منٹ میں ہوتا ہے ناران میں لگژری ہوٹل کا ایک رات کمرے کا کرایہ 20 ہزارجبکہ مناسب 5000تک دستیاب ہوتا ہے ۔۔ناران سے جھیل سیف الملوک تک اونچائی کا فاصلہ 13 کلومیٹر بذریعہ جیپ تقریباً 40 منٹ میں طے ہوتا ہے سفر تھرل اور ایڈونچر سے بھرپور ہوتا ہے سفر میں کئی  خواتین وحضرات کو روتے ہنستےاوربا آواز بلنددل سے آ یت الکرسی کلمہ کا وردکرتے سنا جاسکتا ہے ۔ جیپ کا دو طرفہ کرایہ 4500 روپے جبکہ 1 گھنٹہ تیس منٹ قیام ہوتا ہے جھیل پر پہنچ کر تمام گھبراہٹ اور تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے گھڑ سواری ، بوٹنگ، برف پر سلائیڈنگ کی تفریح سے مزاج کھل اٹھتا ہے ۔ سیف الملوک جھیل10000 فٹ اونچائی پر واقع ہے۔ ناران سے آ گے بابو سر ٹاپ کی جانب 3 گھنٹوں پر محیط تقریبا ً 80 کلومیٹر سفر شروع ہو جاتاہے جہاں راستے میں قدرتی نظارے سحر طاری کر دیتے ہیں اور بندہ بے ساختہ کہتا ہے” سبحان اللہ” راست میں لولوسر جھیل اور جنگل کے خوبصورت نظارے پھر بابو سر( Top) کی جانب اونچائی کا سفر بابو سر غالباً دنیا کا اونچا ترین مقام ہے جہاں تک بذریعہ روڈ رسائی ہے یہ ایک بڑے سے چوک پر مشتمل ہے جہاں برف سے ڈھکے بلندو بالا پہاڑ آ پکے سامنے اور اس قدر قریب ہیں کہ ٹھنڈ کی وجہ سے کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور گرم کپڑے نہ ہونے کی وجہ سے کافی یا چائے کا کپ لیکر گاڑی میں بیٹھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ بابو سر (Top) کی اونچائی 13700 فٹ ہے یہاں زیادہ دیر قیام ممکن نہ ہےپھر واپسی یا سکردو، گلگت اور ہنزہ کی طرف جانے کے لئے ایڈونچر سے بھرپور 3500 فٹ ڈھلوان کا سفر تقریباً 40 کلومیٹر جو کہ دو گھنٹے پر مشتمل ہے براستہ چلاس شروع ہوتا ہے راستہ میں دو مقامات پر گاڑی کو روک کر ریسٹ دیا جانا ضروری ہے تاکہ بریک لیدر اور ٹائیرز گرم ہونے کے بعد نارمل پوزیشن میں آ جائیں کیونکہ گاڑی صرف دوسرے گئیر میں چلتی ہے بابو سر( Top)،خیبر پختونخوا اور صوبہ گلگت بلتستان کا بارڈر ہے یہاں سے گلگت بلتستان شروع ہو جاتاہے دریائے سندھ کے کنارے چلاس آ باد ہے یہاں شنگریلا ہوٹل دریا کے کنارے کھانا کھانے کا اپنا لطف ہے ۔چلاس سے گلگت فاصلہ تقریباً 120 کلومیٹر ہے چلاس سےتین گھنٹے لگ جاتے ہیں جبکہ 35N گلگت جاتے ہوئے رائے کوٹ برج سے فیری میڈو 16 کلومیٹر پر واقع ہے یہ سفر 1 گھنٹے میں طے ہوتا ہے فیری میڈو کا حسن دیکھنا اور محسوس کرنا ہے تو آ پکو مستنصر حسین تارڑ کے شمالی علاقہ جات پر سفر ناموں کا مطالعہ کرنا ہو گا جنھوں نے شمالی علاقہ جات کو پاکستان بھر میں متعارف کروایا ۔ گلگت سے کچھ پہلے جگلوٹ نام کی ایک جگہ آ تی ہے جہاں سے سکردو کی روڈ علحیدہ ہو جاتی ہے یہاں سے سکردو کا فاصلہ 177 کلومیٹر ہے جو کہ 3 گھنٹوں اور 15 منٹ میں طے ہوتا ہے سکردو سے دیو سائی تقریباً  50 کلومیٹر ہے جو کہ دو گھنٹے پر مشتمل انتہائی دشوار گزار راستہ ہے دیوسائی کو جنوں اور پریوں کی سرزمین کہا جاتا ہے مقامی لوگوں کی طرف سے دیو مالائی داستانیں منسوب ہیں مثلا ً یہاں “سایہ “نامی دیو رہتا ہے انتہائی دلفریب مقام ہے ۔سکردو جانے والی روڈ کے قریب ایک اونچے مقام پر تین کون بنی ہوئی  ہیں اور ایک چھوٹا پارک بناہوا ہے اس جگہ کو 3 N کہا جاتا ہے دنیا کے تین پہاڑی سلسلوں کا پاکستان سےآ غاز ہوتا ہے سامنے ہمالیہ ، دائیں جانب قراقرم اور بیک سائیڈ پر ہندو کش یہ سلسلے اپنی نو عیت کے اعتبار انتہائی متاثر کن ہیں جبکہ کچھ فاصلے پر نانگا پربت کے برف میں ڈھکے ہوئے پہاڑ سحر طاری کر دیتے ہیں جبکہ دریائے گلگت اس مقام کے قریب دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے ۔ایک بات پیش نظر رہے کہ شمالی علاقہ جات مجموعی طور پر خوبصورت ہے مگر سیرو سیاحت کے بیشمار مقامات ہیں جنھیں دیکھنے کے لئے بہت دن چائیں مگر آ پ کم از کم ایک ہفتے یا دس دن میں کسی حد تک کچھ تفریحی مقامات سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔تفریحی مقامات اہم شاہراہوں سے قدرے اور کچھ زیادہ دور اور کٹھن راستوں پر واقع ہیں جہاں جانا آ سان نہیں مگر ” شوق دا کوئی مُل نہیں ” جبکہ لینڈ سلائیڈنگ بھی معمول کا عمل ہے لہزا دوران سفر گھبرانا نہیں ۔۔۔ ۔گلگت پر سکون شہر ہے یہ صوبہ گلگت بلتستان کا دارالحکومت ہے یہاں کے لوگ انکساری اور عاجزی سے پیش آ تے ہیں کم گو اور مری کے لوگوں کی نسبت انتہائی شریف النفس ہیں ۔دریائے گلگت شہر سے گزرتا ہے ۔ شہر اور دریا کنارے ہی نہیں بلکہ دریا کے اندر تک ہوٹل اور گھر بنے ہوئے ہیں ۔ چونکہ شمالی علاقہ جات کے شہر اور قصبے اونچے مقامات پر ہیں لہذا سیوریج۔ کا باقاعدہ سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے غلاظت از خود ندی ، نالوں میں پہنچ جاتی ہے یا پہنچا دی جاتی ہے اوریوں ” رام تیری گنگا میلی ہو گئی ” کے مصداق ہمارے ندی، نالے اور دریا بھی میلے ہو گئے ہیں ( ہمارے وفاقی ، صوبائی اور مقامی شہری اداروں نے آ نکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے جو ایسی غلط تعمیرات ، کچرے ، فضلے کی دریا میں گرانے بارے کوئی  قدم یا حکمت عملی نہ ا پناتے ہیں) ۔ہنزہ ایک خوبصورت شہر جو کہ شاہراہ قراقرم پر واقعہ ہے اسکے گردو نواح میں کریم آ باد میں التت اور بلتت شاہی محلات 800 سو سال پرانے ہیں دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ڈوئیکر( Eagle s nest)میں طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کا منظر سحر طاری کر دیتا ہے ۔ نلتر ویلی بھی کچھ فاصلے پر واقع ہے جسکی جھیل کا رنگ برنگا پانی اپنی مثال آ پ ہے ۔دریائے ہنزہ پر زپ لائین کے ذریعے دریا کے دوسرے کنارے تک جانا اور پھر واپسی ایک بڑا دلچسپ ایڈونچر ہے ۔عطا آ باد جھیل شاہراہ قراقرم پر گلگت سے بذریعہ ہنزہ تقریباً 120 کلومیٹر ہے یہ جھیل 2010 میں زلزلے اور پانی کی مقدار میں اضافے کی وجہ سی پہاڑ ہٹنے سے وجود میں آئی اس جھیل کے دلفریب نظارے اور بوٹنگ طبیعت اور مزاج کو خوشگوار بنا دیتے ہیں اس جھیل سے خنجراب کا فاصلہ 85 کلومیٹر ہے اور 1 گھنٹہ تیس منٹ میں طے ہوتا ہے خنجراب کے ساتھ چائنہ بارڈر ہے جہاں چائنہ کراکری اور گارمنٹس کی مارکیٹ ہے پاکستان اور چائینہ کے درمیان By Road تجارت ہوتی ہے ۔۔ اس سیرو سیاحت پر اکسانے اور مہمانداری کرنے پر میں شیخ جاوید بیدی کا شکر گزار ہوں انکے علاؤہ محمد افضل بھٹی کراچی گارمنٹس بھاولنگر والوں کابھی شکریہ جو کہ ٹور آ پریٹر ہیں انہوں نے سفر بارے معلومات سے آ گاہی اور سیر کے لئے آ فر کی جو کہ بر قرار ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

راؤ عتیق الرحمن تاریخ بہاولنگر پر مستند کتاب کے مصنف ہیں-

Facebook Comments

راؤ عتیق الرحمٰن
مصنف راؤ عتیق الرحمن نے گریجویشن گورنمنٹ ڈگری کالج بہاولنگر سے کی ۔ 1984میں کالج سٹوڈنٹ یونین کے جنرل سیکرٹری رہے۔ لکھنے کا شوق سکول ہی سے تھا ۔کالج کے میگزین "لالہ صحرا "میں مضامین لکھے ۔ 2016 میں بھاولنگر شہر سے متعلق کتاب "تاریخ شہر بہاول نگر"لکھی ۔۔تاریخ اور سماجیات پر لکھتے ہیں اور سماج پر لکھتے ہوئے تاریخ کو ساتھ لیکر چلتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply