توہین مذہب کے نام پر معذور نوجوان کا قتل/ثاقب قریشی

انسانی معاشرہ قوس و قزح کی مانند ہوتا ہے۔ امیر غیریب، بوڑھے جوان، صحت مند بیمار، کالے گورے، مختلف فرقے، قومیں اور مذاہب سے مل کر یہ قوس و قزح مکمل ہوتی ہے۔ جن معاشروں میں انسانی حقوق، آزادی اور اظہار کا خیال رکھا جاتا ہے۔ وہ معاشرے قوس و قزح کے سات رنگوں جیسے دِکھتے ہیں۔ پھر ان رنگوں کے جھرمٹ کو ساری دنیا دیکھ کر لطف اندوز ہوتی ہے۔ جن معاشروں میں غیر جمہوری اور غیر انسانی رویوں کی ملاوٹ کی جاتی ہے وہاں رنگوں کی پٹی نہیں بن پاتی۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بنیادی فرق انہی چیزوں کا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی جن قوموں اور بادشاہوں نے ان بنیادی اصولوں کا خیال رکھا وہ سلطنتیں نا صرف قائم رہیں بلکہ خوب پھلیں  پھولیں۔ انسانی تاریخ میں ایسی بہت سی قومیں گزری ہیں،جو وسائل اور بڑی بڑی فوجی طاقتیں رکھنے کے باوجود وقت سے پہلے ختم ہوگئیں۔

مغلوں نے برصغیر جیسے غیر اسلامی خطے پر سینکڑوں سال حکومت کی۔ مغل سلطنت اس وقت تک پھلتی پھولتی رہی جب تک یہ ہندوستان میں رہنے والی باقی قوموں کے ساتھ انصاف کرتی رہی۔ جب انھوں نے مسلم ریاست بننے کی کوشش کی تو انکے خلاف بغاوتیں شروع ہوگئیں۔ سلطنت عثمانیہ بھی اسی وجہ سے لمبے عرصے تک زمین کے بڑے حصے پر حکومت کرتی رہی۔

صنعتی انقلاب سے قبل انسان مفلسی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ معیار زندگی نہ ہونے کے برابر تھا۔ پسند نہ پسند تصور نہیں تھا۔ دو وقت کی روٹی اسکے لیے سب کچھ ہوا کرتی تھی۔ صنعتی انقلاب کے بعد انسان خوشحال ہونا شروع ہوا۔ اسکے لائف اسٹائل میں بہتری آئی۔ تعلیم اور ہنر عام ہونے کے ساتھ مقابلے کا رجحان بڑھا۔ جس کی وجہ سے انسان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ  ہوا۔ زمین کے وسائل تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے مقابلہ سخت سے سخت ہوتا چلا جا رہا ہے۔

پچھلی صدی میں گھر کا ایک بندہ نوکری کرتا تھا اور سارے بیٹھ کر کھاتے تھے۔ لیکن وسائل کی کمی اور مقابلے کے رجحان کی وجہ سے گھر چلانے کیلئے اب گھر کے ہر فرد کو کام کرنا پڑتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ دونوں مل کر گھر کا نظام چلاتے ہیں۔ متوازن معاشرے اور مقابلے کی فضاء کو بھانپتے ہوئے ان ممالک نے معذور افراد کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے انکے لیے اتنی آسانیاں پیدا کی  ہیں کہ آج ان ممالک کے معذور افراد بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ انڈیا کے معذور افراد دنیا کی بڑی آئی-ٹی کمپنیوں میں کام کر کے ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔

عباس کا تعلق سندھ کے علاقے گھوٹکی سے تھا۔ پیدائشی دونوں ہاتھوں سے محروم تھا۔ عباس زندگی کے تمام امور پیروں سے سر انجام دیتا تھا۔ نوکری نہ ملنے کے باوجود عباس نے کبھی بھیک نہیں مانگی، پیروں کی مدد سے چھوٹے موٹے کام کرتا رہتا تھا۔ درگاہوں پر جانے کا بہت شوقین تھا، کچھ عرصہ قبل ایک نجی چینل پر عباس کی ویڈیو بھی چلی جس میں وہ حکومت سندھ سے سرکاری نوکری کا مطالبہ کرتا نظر آیا۔

چند روز قبل ایک نوجوان نے توہین مذہب کے الزام میں عباس کو خوب مارا، پھر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ ہاتھوں سے محروم عباس اپنی جان بچانے کیلئے بھاگا اور ایک ندی میں چھلانگ لگا دی۔ نوجوان کا غصہ پھر بھی ٹھنڈا نہ ہُوا، نہر میں اتر کر اس نے عباس کو پانی میں ڈبونا شروع کر دیا۔ ایک لڑکا واقعے کی ویڈیو بناتا رہا۔ ویڈیو میں ایک عورت کی آواز سنائی دیتی ہے۔ وہ اس سے پوچھتی ہے کہ تم اسے کیوں مار رہے ہو۔ لڑکا پہلے سوچتا ہے۔ آئیں بائیں شائیں رتا ہے پھر    کہتا ہے کہ اس نے خدا کے بارے میں غلط الفاظ استعمال کیئے ہیں۔ پھر کہتا ہے کہ رسول پاک کیلئے بھی غلط کلمات استعمال کیئے ہیں اس لیے مار رہا ہوں۔ پھر عباس کی لاش کو بالوں سے پکڑ کر مزید ڈبکیاں لگاتا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ عباس کو کسی ویرانے میں نہیں بلکہ عوام کے سامنے بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔ لوگ ویڈیو بنانے رہے، قاتل کو نہ مارنے کا کہتے رہے لیکن بچانے کی کسی نے زحمت گورا نہیں کی۔

میڈیا کا ہماری زندگی میں اتنا اہم کردار ہے کہ اگر میڈیا پر سکول یا مدرسے کے بچے پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہو جائے،تو پورے ملک میں بچوں پر تشدد کے حوالے سے غم و غصے کی لہر دوڑنے لگتی ہے۔ پرائیویٹ سکول ایسوسی ایشن سکولوں میں تشدد کے حوالے سے قوانین کو مزید سخت کر دیتی ہے۔ اسی طرح گھریلو ملازم پر تشدد کا کوئی واقعہ میڈیا پر نشر ہو جائے تو ملازمین کے حقوق کی بات شروع ہو جاتی ہے۔

حکومتیں ایسی ہی ہوتی ہیں میڈیا کا کام مسائل کی نشاندہی کرکے عوام میں شعور بیدار کرنا ہوتا ہے۔ حکومت کو دباؤ میں لانے کا سب سے موثر ہتھیار میڈیا ہے۔

ہمارے مُلک کی بیس فیصد آبادی معذور افراد پر مشتمل ہے۔ جو کہ انتہائی کمپلسری کی زندگی گزار رہی ہے۔ پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ زیادہ تر جسمانی معذور افراد چالیس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی خدا کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں معذور بچوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا۔ سپیشل ایجوکیشن کے سکول ایک تو ضرورت سے بہت کم ہیں پھر انکا معیارِ  تعلیم اتنا پست ہے کہ اکثر لوگ سپیشل ایجوکیشن کے سکولوں کے تعلیمی معیار سے سخت نالاں ہیں۔ سکول، کالج، مساجد، دفاتر، شاپنگ سینٹر، تفریحی مقامات، کہیں پر بھی رسائی کے مناسب انتظامات نہیں ہیں۔
ہمارا میڈیا معذور افراد کو انسان اور انکے مسائل کو انسانی مسائل نہیں سمجھتا، اس لیے  عوام میں معذور افراد کے حقوق کے حوالے سے شعور کا فقدان پایا جاتا ہے اور نہ ہی حکومت پر کوئی دباؤ نظر آتا۔

توہین مذہب کی یہ خبر میں نے کسی چینل اور اخبار میں نہیں پڑھی جس کی وجہ شاید  یہ ہے کہ مرنے والا غریب معذور شخص تھا۔ معذور افراد ہماری معیشت پر گیارہ ارب ڈالر سے زیادہ کا بوجھ ہیں جن کی فلاح وبہبود کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔

میں تعلیم یافتہ  معذور ہوں۔ بڑے نجی گروپ  میں ملازمت کر رہا ہوں۔ معذوروں کے حقوق پر سب سے ذیادہ کالمز میں نے لکھے ہیں۔ میری تحریروں کو پڑھنے کے بعد امریکہ  اور یورپ سے تعلق رکھنے والے بہت سے پاکستانیوں  نے ملک میں بسنے والے معذور شہریوں کی فلاح کیلئے ادارے قائم کیے  ہیں۔ وطن عزیز میں معذور افراد کے حقوق کے حوالے سے جتنی آگہی عام ہوئی ہے، اس کی بڑی وجہ میری تحریریں ہیں۔ خواجہ سراؤں کے حقوق پر بھی سب سے  زیادہ تحریریں میں نے لکھی ہیں۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے بھی آج جتنی آگہی پائی جاتی ہے اس میں میرا اہم ترین کردار ہے۔ میں ٹیکس بھی دیتا ہوں، جہاں تک ہوسکے لوگوں کی مدد بھی کرتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کہنے  کا مطلب یہ ہے کہ صرف میرے اکیلے کے پڑھنے کی وجہ سے میرے ملک اور معاشرے کو کتنا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اگر ہمارے ملک کے سارے معذور افراد تعلیم سے آراستہ ہو جائیں تو ہم ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply